Tuesday, December 29, 2009

محمد رفیع اور مدھو بالا کی یاد میں خوبصورت تقریب کا اہتمام

دہلی کے فلم ڈویژن میں فلمی دنیا کی دو عظیم شخصیات کی یاد میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دو عظیم شخصیات تھیں مایہ ناز گلوکار محمد رفیع اور یگانہ روزگار اداکارہ مدھوبالا۔ موقع تھا محمد رفیع کے یوم پیدائش کا اور مدھوبالا کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا۔

فلم ڈویژن آڈیٹوریم میں منعقدہ اس پروگرام میں دار الحکومت دہلی کی ادب نواز اور ثقافت پسند شخصیات موجود تھیں۔ تقریب میں محمد رفیع پرایک فلم دکھائی گئی جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 70منٹ کی اس فلم کا نام ہے ’رفیع تم بہت یاد آئے‘۔ اس کے ہدایت کار فلم ڈویژن کے سربراہ کلدیپ سنہا ہیں۔

اس موقع پر کلدیپ سنہا نے کہا کہ محمد رفیع کی زندگی پر فلم بنانا ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اوراب اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ 1980میں محمد رفیع کے انتقال کے بعد ہی سے وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے معروف موسیقار نوشاد سے بھی گفتگو کر رکھی تھی اور انھوں نے اس فلم کی تیاری میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر فلم نہیں بن سکی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں محمد رفیع کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کے مختلف پہلووں، ان کی جد و جہد، ان کی کامیابیوں، اہم گیتوں اور اس بارے میں فلمی دنیا سے متعلق اہم شخصیات کے خیالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

اس تقریب میں رفیع میمورئیل کی جانب سے محمد رفیع کے نغموں اور زندگی کے مختلف پہلووں پر ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں یادگار رفیع اور سکھا فاونڈیشن کے سربراہ امرجیت سنگھ کوہلی، دور درشن کے سابق ڈائریکٹر شرد دت اور متعدد ماہرین گلوکاری نے محمد رفیع کی زندگی اور ان کی گلوکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جبکہ مشرق کی وینس کہلانے والی ملکہ حسن اور یگانہ روزگاراداکارہ مدھوبالا کی سوانح حیات کی تقریب رونمائی ہوئی۔

کتاب ’ مدھوبالا: درد کا سفر‘ کی مصنفہ سشیلا کماری نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے اس کتاب کی تصنیف کا خیال دل میں پالے ہوئے تھیں اور اب جاکر انھوں نے مدھوبالا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھوں نے مایہ ٴناز اداکارہ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھوبالا نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر نہ صرف اپنے حسن کی بلکہ اپنی اداکاری کی بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ لیکن نہ تو ان کی زندگی میں ان کی قدر افزائی ہوئی اور نہ ہی دنیا سے جانے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ حالانکہ وہ اس کی حقدار تھیں۔ مدھو بالا کو ان کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ جب کہ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہورِ ِ زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کا جادو جگا چکی تھیں۔ لیکن اس فلم کے لئے بھی ان کی عزت افزائی نہیں کی گئی۔

جبکہ بھارتیندو ہریش چندر ایوارڈ یافتہ مصنفہ نے کہا کہ مدھو بالا کی ہوش ربا خوبصورتی اور ان کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور ان کی شوخیوں کو دیکھ کر ہر کوئی سوچتا تھا کہ ان کی دنیا بڑی خوبصورت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں اور پیار کی دولت سے کوسوں دورتھی۔ انھیں تو زندگی بھر دکھ درد، غم و الم، تنہائی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ان مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا درد پوشیدہ ہے۔

ا س تقریب میں رکن پارلیمنٹ راشد علوی نے مدھوبالا کی زندگی کو سامنے لانے کی کوشش کو ایک اہم واقعہ قرار دیا اورکہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مقبولیت عارضی اورلمحاتی جبکہ فنکاروں اور ادیبوں کی مقبولیت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مدھوبالا جیسے فنکار اعزازات سے محروم رہنے کے باوجود صدیوں تک عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

مدھوبالا نے انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان جیسا بے پناہ حسن اور ان کے اندر اداکاری کا جو جوہر تھا وہ صدیوں میں کہیں کسی کو ملتا ہے۔ مدھوبالا کی زندگی کے بیشتر پہلووں سے لوگ لاعلم ہیں اور انہی مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے۔

خیال رہے کہ مدھوبالا نے مغل اعظم، محل، ہاف ٹکٹ، امر، پھاگن، چلتی کا نام گاڑی اور ہوڑہ برج جیسی متعد دفلموں میں اپنی خوبصورتی اوراداکاری سے لوگوں کے دل جیتے تھے۔

مدھوبالا بچپن ہی سے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا تھیں اور 36سال کی کم عمری میں انھوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ لیکن ان کی اداکاری اس وقت تک شائقین پر اپنا جادو جگاتی رہے گی جب تک کہ فلمی دنیا قائم ہے۔

محمد رفیع اور مدھو بالا کی یاد میں خوبصورت تقریب کا اہتمام

دہلی کے فلم ڈویژن میں فلمی دنیا کی دو عظیم شخصیات کی یاد میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دو عظیم شخصیات تھیں مایہ ناز گلوکار محمد رفیع اور یگانہ روزگار اداکارہ مدھوبالا۔ موقع تھا محمد رفیع کے یوم پیدائش کا اور مدھوبالا کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا۔

فلم ڈویژن آڈیٹوریم میں منعقدہ اس پروگرام میں دار الحکومت دہلی کی ادب نواز اور ثقافت پسند شخصیات موجود تھیں۔ تقریب میں محمد رفیع پرایک فلم دکھائی گئی جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 70منٹ کی اس فلم کا نام ہے ’رفیع تم بہت یاد آئے‘۔ اس کے ہدایت کار فلم ڈویژن کے سربراہ کلدیپ سنہا ہیں۔

اس موقع پر کلدیپ سنہا نے کہا کہ محمد رفیع کی زندگی پر فلم بنانا ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اوراب اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ 1980میں محمد رفیع کے انتقال کے بعد ہی سے وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے معروف موسیقار نوشاد سے بھی گفتگو کر رکھی تھی اور انھوں نے اس فلم کی تیاری میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر فلم نہیں بن سکی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں محمد رفیع کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کے مختلف پہلووں، ان کی جد و جہد، ان کی کامیابیوں، اہم گیتوں اور اس بارے میں فلمی دنیا سے متعلق اہم شخصیات کے خیالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

اس تقریب میں رفیع میمورئیل کی جانب سے محمد رفیع کے نغموں اور زندگی کے مختلف پہلووں پر ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں یادگار رفیع اور سکھا فاونڈیشن کے سربراہ امرجیت سنگھ کوہلی، دور درشن کے سابق ڈائریکٹر شرد دت اور متعدد ماہرین گلوکاری نے محمد رفیع کی زندگی اور ان کی گلوکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جبکہ مشرق کی وینس کہلانے والی ملکہ حسن اور یگانہ روزگاراداکارہ مدھوبالا کی سوانح حیات کی تقریب رونمائی ہوئی۔

کتاب ’ مدھوبالا: درد کا سفر‘ کی مصنفہ سشیلا کماری نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے اس کتاب کی تصنیف کا خیال دل میں پالے ہوئے تھیں اور اب جاکر انھوں نے مدھوبالا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھوں نے مایہ ٴناز اداکارہ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھوبالا نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر نہ صرف اپنے حسن کی بلکہ اپنی اداکاری کی بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ لیکن نہ تو ان کی زندگی میں ان کی قدر افزائی ہوئی اور نہ ہی دنیا سے جانے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ حالانکہ وہ اس کی حقدار تھیں۔ مدھو بالا کو ان کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ جب کہ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہورِ ِ زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کا جادو جگا چکی تھیں۔ لیکن اس فلم کے لئے بھی ان کی عزت افزائی نہیں کی گئی۔

جبکہ بھارتیندو ہریش چندر ایوارڈ یافتہ مصنفہ نے کہا کہ مدھو بالا کی ہوش ربا خوبصورتی اور ان کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور ان کی شوخیوں کو دیکھ کر ہر کوئی سوچتا تھا کہ ان کی دنیا بڑی خوبصورت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں اور پیار کی دولت سے کوسوں دورتھی۔ انھیں تو زندگی بھر دکھ درد، غم و الم، تنہائی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ان مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا درد پوشیدہ ہے۔

ا س تقریب میں رکن پارلیمنٹ راشد علوی نے مدھوبالا کی زندگی کو سامنے لانے کی کوشش کو ایک اہم واقعہ قرار دیا اورکہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مقبولیت عارضی اورلمحاتی جبکہ فنکاروں اور ادیبوں کی مقبولیت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مدھوبالا جیسے فنکار اعزازات سے محروم رہنے کے باوجود صدیوں تک عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

مدھوبالا نے انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان جیسا بے پناہ حسن اور ان کے اندر اداکاری کا جو جوہر تھا وہ صدیوں میں کہیں کسی کو ملتا ہے۔ مدھوبالا کی زندگی کے بیشتر پہلووں سے لوگ لاعلم ہیں اور انہی مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے۔

خیال رہے کہ مدھوبالا نے مغل اعظم، محل، ہاف ٹکٹ، امر، پھاگن، چلتی کا نام گاڑی اور ہوڑہ برج جیسی متعد دفلموں میں اپنی خوبصورتی اوراداکاری سے لوگوں کے دل جیتے تھے۔

مدھوبالا بچپن ہی سے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا تھیں اور 36سال کی کم عمری میں انھوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ لیکن ان کی اداکاری اس وقت تک شائقین پر اپنا جادو جگاتی رہے گی جب تک کہ فلمی دنیا قائم ہے۔

مرزا غالب کے 212 ویں یوم پیدائش پردہلی میں متعدد تقریبات کا انعقاد

نابغہ روزگار شاعر مرزا غالب کے یوم پیدائش پر دار الحکومت دہلی میں دو روزہ تقریبات منائی گئیں۔ اس موقع پر چاندنی چوک سے غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ نکالا گیا۔ کتھک رقاصہ اوما شرما نے غالب کی غزلوں پر رقص پیش کیا۔ قلمکار اور دانشور پون ورما نے غالب پر مضمون پیش کیا اور ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے غالب کے انداز میں خطوط غالب کی قرآت کی۔
26اور27 دسمبر کو دوروزہ یوم غالب تقریبات کے دوران چاندنی چو ک کے ٹاون ہال سے گلی قاسم جان میں واقع غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ میں معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار، ڈائرکٹر وشال بھاردواج، ان کی اہلیہ اور گلوکارہ ریکھا بھاردواج، رقاصہ اوما شرما، قلمکار پون ورما اور بڑی تعداد میں دہلی کی ادب نواز اور غالب پسند شخصیات موجود تھیں۔

اس موقع پر گلزار نے کہا کہ غالب کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم شمع روشن کرکے غالب کی حویلی تک جاتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ روایت ہمیشہ زندہ رہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے مرزاغالب سیرئیل بناکر اسکرین پر غالب کی زندگی بنا دی لیکن میں کہتا ہوں کہ غالب نے میری زندگی بنا دی۔

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غالب کی حویلی کو ایک میوزیم میں تبدیل کیا جائے۔

پون ورما نے کہا کہ جس تہذیب و ثقافت سے غالب کا رشتہ تھا وہ ہماری شاندار روایت کا حصہ ہے اور غالب صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب اور طرز زندگی کی علامت ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس قوم نے اپنے ادیبوں اور فنکاروں کی قدر نہیں کی اسے کبھی ترقی نہیں ملی۔

وشال بھاردواج نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کینڈل مارچ کے توسط سے ہم نے غالب کے سفر کی دریافت نو کی ہے۔

چاندنی چوک سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ وجے گوئل نے غالب کی حویلی کی خستہ حالی پر رنج و غم کا اظہار کیا اور اس کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

مارچ کے شرکا نے غالب کی حویلی کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے تحفظ پر زور دیا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل غالب کی حویلی میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی جس کے سبب حویلی میںچاروں طرف گندگی پھیل گئی تھی۔ اس پر غالب نواز لوگوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

اس مارچ میں ایڈووکیٹ عبد الرحمن نے غالب کا لباس اور ان کے جیسی ٹوپی پہن کر شرکت کی اور اعلان کیا کہ وہ غالب پر ایک فلم بنائیں گے جس کو اگلے سال یوم غالب پر لندن میں ریلیز کیا جائے گا۔

ادھر دوسرے روز کی تقریبات کے دوران کتھک رقاصہ اوما شرما نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں غالب کی چنندہ غزلوں پر رقص پیش کرکے ناظرین کو محظوظ کر دیا۔

یہ پروگرام غالب میمورئیل موومنٹ کے زیر اہتمام انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، دہلی حکومت، ساہتیہ کلا پریشد، ایس جی فاونڈیشن اور بھارتیہ سرن سنگیت کے اشتراک سے منعقدہوا۔

اوما شرما نے ’شمع جلتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے، ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے، تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ‘ وغیرہ غزلوں کی رقص کے ذریعے تشریح کرکے تفہیم غالب کے نئے گوشے وا کیے۔

اوما شرما کے شاگردوں نے غالب کی نظم ”چراغ دیر“ (بنارس کو خدا محفوظ رکھے چشم بد بیں سے) کی خوبصورت پیشکش کے ذریعے غالب کی مذہبی رواداری کو اجاگر کیا۔

اس پروگرام میں پون ورما نے اپنی تصنیف ’غالب، شخصیت اور فن‘ کے بعض اقتباسات پیش کیے ۔

دوسرے روز کی آخری تقریب غالب اکیڈمی میں منعقد ہوئی جس میں معروف ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے خطوط غالب کو ڈرامائی انداز میں پڑھ کرلوگوں کے دل جیت لیے۔

انھوں نے 1852سے1868تک کے خطوط غالب کو اس انداز میں پیش کیا کہ اس دور کا پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔

انیس اعظمی نے منشی ہرگوپال تفتہ، تفضل حسین خاں، پیارے لال آشوب، گوبند سہائے، نواب امین الدین احمد خاں، میر مہدی مجروح، عزیز الدین ، خواجہ غلام غوث خاں اور رامپور کے نواب میر حبیب نواب کو لکھے خطوط کی اس انداز میں قرات کی کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے غالب خود آکر اپنے خطوط پڑھ رہے ہیں۔

ان خطوط سے اس دور کی تاریخ پر بھی اجمالاً روشنی پڑتی ہے۔

خیال رہے کہ انیس اعظمی ملک کے مختلف شہروں میں سو سے زائد مرتبہ خطوط غالب کی بہ زبان غالب قرات کرکے تفہیم غالب کو ایک نئی جہت دے چکے ہیں۔

اس موقع پر غالب اکیڈمی کے صدر خواجہ حسن ثانی نظامی نے کہا کہ غالب نے حضرت علی کی شان میں جو قصائد لکھے ہیں وہ بے مثال ہیں اور اگر غالب کسی دوسرے مذہب کے پیرو ہوتے تو مولا علی ان کے دیوتا ہوتے۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ غالب کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ 1857کی لڑائی ہے۔ ان کے بعد کوئی ایسا شاعر موجود نہیں جو پہلی جنگ آزادی کے حالات قلمبند کرتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ غالب اپنے خطوط کو چھپوانا نہیں چاہتے تھے تاہم ان کی زندگی ہی میں ’عود ہندی‘ اور ’اردوئے معلی‘ کی اشاعت ہو گئی تھی۔

Saturday, December 12, 2009

مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی ناقابل فراموش خدمات

ہندوستان میں ہمدرد دواخانہ کے بانی حکیم عبد الحمید غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں نمایاں کوششیں کی تھیں ۔ انھوں نے ہی مزار سے متصل ایک بڑا قطعہ اراضی خرید کر اس پر غالب اکیڈمی کی تعمیر کروائی۔ غالب پر ان کی مرتب کردہ تین کتابیں ’حالات غالب‘ ’مطالعات خطوط غالب‘ اور ’مطالعات کلام غالب‘ شائع ہوئی ہیں۔جبکہ غالب اکیڈمی میں ان کی کوششوں سے قائم غالب میوزیم لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے ہے۔

دارالسلطنت نئی دہلی کے علاقے بستی حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی میں گذشتہ روز ’مطالعات غالب میں حکیم عبد الحکیم کی خدمات‘ کے زیر عنوان ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشین خواجہ حسن ثانی نظامی نے، جو کہ حکیم عبد الحکیم کے ایک قریبی دوست رہے ہیں، کلیدی خطبہ پیش کیا اور مطالعات غالب میں حکیم صاحب کی خدمات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ اسی لئے انھوں نے مزار غالب سے متصل غالب اکیڈمی قائم کی تاکہ غالب کی تفہیم و ترویج میں مدد مل سکے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے چندے کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح بہت سے لوگوں نے ان کے مزار کے لیے چندے جمع کیے اور ہضم کر گئے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں فلم ساز سہراب مودی کے تعاون سے متعلق پھیلی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں کوئی تعاون نہیں دیا تھا۔ ان کا تعاون بس اتنا تھا کہ انھوں نے مزار غالب پر چادر چڑھائی اور وہاں کھڑے ہو کر تصویر بنوا ئی۔ اور اس طرح ایک غلط فہمی پھیل گئی۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے غالب سے حکیم عبد الحمید کی محبت اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غالب اکیڈمی کے قیام کا منصوبہ انھوں نے 1935ہی میں بنا لیا تھا۔ اسی سال انھوں نے مطالعات غالب کی خاطر غالب اکیڈمی قائم کرنے کے لیے مزار غالب سے متصل ایک قطعہ اراضی خریدا۔ بعد میں اس پر ’غالب اکیڈمی‘ کے نام سے ایک تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی اور غالب صدی تقریبات کے دوران 22فروری 1969کو اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔اسی موقع پر یوسف حسین مرحوم کی کتاب ’غالب اور آہنگ غالب‘، ہندی میں ’سرل غالب‘ اور انگریزی میں ’نوائے سروش‘ کے نام سے غالب پر تین کتابیں غالب اکیڈمی سے شائع کی گئیں۔غالب اکیڈمی کی جانب سے غالب پر اب تک دو درجن سے زائد کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔

ڈاکٹر عقیل نے مزید بتایا کہ حکیم صاحب کے ذاتی ذخیرے سے غالب اکیڈمی کی عمارت میں میوزیم اور لائبریری بھی قائم کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ حکیم صاحب نے غالب کے کلام کو موسیقی کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی اور انہی کی کوششوں سے موسیقی کے ساتھ کلام غالب گانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کئی سالوں سے اب بھی جاری ہے۔ حکیم صاحب نے غالب کی غزلوں کے کیسٹ اور فلاپی بھی بنوائی تھی (اس وقت سی ڈی کا رواج شروع نہیں ہوا تھا)۔اس طرح انھوں نے موسیقی کی مدد سے غالب کی غزلوں کو پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔

حکیم صاحب 1935سے ہی غالب پر لکھی گئی تحریریں یکجا کرتے رہے اور ان کو مختلف عنوانات کے تحت فائلوں میں محفوظ کرتے رہے ہیں۔انہی فائلوں کے مضامین کے انتخاب سے تین کتابیں غالب کی سوانح، غالب کی نثر اور غالب کی شاعری ترتیب پائی تھیں۔پہلی کتاب 1999میں ’حالات غالب‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد دوسری کتاب ’مطالعات خطوط غالب‘ حکیم صاحب کے سوویں یوم پیدائش پر شائع کی گئی اور اب تیسری کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ غالب اکیڈمی نے شائع کی ہے۔

ہمدرد آرکائیوز ریسرچ سینٹرکے ڈائرکٹر سید اوصاف علی نے بھی، جنھوں نے چالیس سال تک حکیم عبد الحمید کے ساتھ کام کیا ہے، غالب سے حکیم صاحب کی عقیدت و محبت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب میوزیم قائم کرنے کے سلسلے میں بہت پرجوش تھے۔انھوں نے غالب کی پسندیدہ اشیاکو یکجا کرواکر میوزیم میں رکھوایا۔ یہاں تک کہ غالب کو بخارہ کی خمیری روٹی بہت پسند تھی ،لہذا جب میں ایک پروگرام کے تحت بخارا گیا تو حکیم صاحب نے مجھ سے وہاں کی روٹی منگوائی اور وہ روٹی آج بھی میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔

اس میوزیم میں غالب کے پسندیدہ کھانوں کے علاوہ غالب کے لباس بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کا ایک قد آدم مجسمہ اور یہاں تک کہ اس ڈومنی کا بھی مجسمہ نصب ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غالب کی محبوبہ تھی۔ اس کے علاوہ ایک مصور برجیندر سیال نے غالب کے اشعار کے مفہوم کو سنگ ریزوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر :

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اس شعر کے مفہوم کو اجاگر کرنے کے لئے ایسے سمندری پتھر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے رکھے ہوئے ہیں جو انسانی شبیہ کا تصور اور مذکورہ شعر کا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔

اس پروگرام میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے بھی مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی خدمات پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر غالب اکیڈمی سے شائع کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ کی رسم رونمائی بھی ہوئی، جس میں خواجہ حسن ثانی نظامی، گلزار دہلوی، سید اوصاف علی، ڈاکٹر عقیل احمد اور دوسرے لوگ شامل تھے۔

اس کتاب میں کل چالیس مضامین ہیں جو 1953سے لے کر 1998تک کے دوران مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ مضمون نگاروں میں پروفیسر سید احتشام حسین، ماہر غالبیات مالک رام، ظ۔ انصاری، پروفیسر آل احمد سرور، سید عابد علی عابد، وحید قریشی، فرمان فتح پوری، کالی داس گپتا رضا، گیان چند جین، جگن ناتھ آزاد اور سید مسعود حسین رضوی ادیب جیسے نامور قلمکار اور ماہرین غالبیات شامل ہیں۔

Sunday, November 22, 2009

علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ہندوستان بھر میں یوم اردو کا انعقاد

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں اہم تقریب دارالسلطنت دہلی میں منعقد ہوئی۔ آل انڈیا اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام گذشتہ پندرہ برسوں سے یوم اقبال پر یوم اردو کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اب یہ سلسلہ رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔

غالب اکیڈمی میں منعقد ہ اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ نے انتہائی شستہ اردو میں علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان کے متعدد اشعار کے حوالے سے کہا کہ علامہ اقبال نے اتحاد و یگانگت کا درس دیا ہے اختلاف و انتشار کا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ کیا کوئی اور شاعر ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسی نظم لکھ سکتا ہے۔ تیجندر کھنہ نے کہا کہ صرف یوم اقبال یا یوم اردو منانے سے اقبال کے لئےعقیدت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اقبال کے پیغام کو عام کریں اور ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘کے پیغام کو عملی انداز میں اپنی زندگی میں منتقل کریں۔ لیفٹیننٹ گورنر نے اقبال کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت اور قتل و خوں ریزی نہیں سکھاتا اور اسلام تو امن و شانتی کا مذہب ہے۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے کہا کہ یہ زبان ایک شیریں زبان ہے اور وہ اس کا وعدہ کرتے ہیں کہ دہلی میں اردو کو اس کا حق دلانے میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔

دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں۔ انھوں نے 1923میں افغانستان کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا اور کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کے جسم کی حیثیت رکھتا ہے اور افغان عوام اس جسم کے دل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر افغانستان میں شورش ہوگی تو پورا ایشیا اضطراب میں مبتلا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج دیکھ لیجئے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اورایشیا پر اس کے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیںں۔

پروفیسر عبد الحق نے مزید کہا کہ یوں تو دنیا میں سات عجوبے ہیں لیکن اگر ان میں آٹھویں عجوبے کا اضافہ کیا جائے تو بلا شبہ وہ علام اقبال ہوں گے۔ وہ اور ان کی شاعری کسی عجوبے سے کم نہیں اور ان کی شاعری نے جو آفاقی پیغام دیا ہے وہ کسی اردو شاعر نے نہیں دیا ہے۔

اقبال کے بارے میں ان کے ایک نکتہ چیں مجنوں گورکھپوری کو کہنا پڑا تھا کہ دنیا میں کبھی کبھی ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے زمانے کے میلانات کے تابع ہوتی ہیں بلکہ خود ان پر قادر بھی ہوتی ہیں۔ وہ مروجہ دھاروں کے رخ کو نئی سمتوں میں موڑ دیتی ہیں۔ اقبال کا شمار بھی انہی ہستیوں میں ہوگا۔ وہ اپنے زمانے کے مخلوق تھے مگر ایک نئے زمانے کے خالق بھی تھے۔ اسی طرح فراق گورکھپوری کا یہ اقرار بھی دلچسپ ہے کہ ایشیا بھر کے شاعر مل کر اقبال کی اس غزل کا جواب نہیں لکھ سکتے:

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا

انھوں نے اقبال کی شاعری کے رموز و نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال ایک عوامی شاعر بھی ہیں اور ان کا یہ مصرع تو زبان زد عام ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔

اس کے علاوہ دیہات کے ان پڑھ لوگ بھی لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ نظم سے بخوبی واقف ہیں۔ علامہ نے 1904میں نظم ’ ترانہ ہندی ‘ تخلیق کی تھی اور اس نظم کا ایک مصرعہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ خلانورد راکیش شرما کی زبان سے بالائے قمر تک پہنچا تھا۔ انھوں نے 27سال کی عمر میں یہ نظم لکھی تھی اور آج تک اردو کیا کسی دوسری زبان میں بھی ایسی نظم نہیں لکھی گئی۔ اسے بھی چھوڑیے، ہم نے احتجاج و انقلاب کو صبح و شام کا وظیفہ تو سمجھا ہے مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ اقبال کے اس شعر کا جواب اب تک کسی سے نہیں بن پڑا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

پروفیسر عبد الحق نے یاد دلایا کہ جنرل ایوب خاں نے اپنی کتاب کا نام رکھا ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘۔ ہندوستان کے دوسرے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ڈاکٹر ذاکر حسین کو تو اقبال بہت عزیز تھے ۔پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقبال سے بہت متاثر تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی ان کے اشعار گنگناتے ہیں۔ ان کے علاوہ کتنے اکابرین ہیں جن کے دلوں میں علامہ اقبال شمع آرزو بن کر مچل رہے ہیں۔ ملک کی چھ بڑی دانش گاہوں میں اقبال کو اعزازی ڈگری کا تفویض کیا جانا بھی ان کی جلیل القدر علمی خدمات کا اعتراف ہے۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر و حیدرآباد کے علاوہ کلکتہ میں اقبال چئیر کا قیام بھی اسی اعتراف کی روشن دلیل ہے۔

اس تقریب کے روح و رواں اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں نے ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے پر دبی زبان میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اب نہ صرف پورے ملک میں بلکہ بیرون ملک ان علاقوں میں بھی جنہیں اردو کی نئی بستیاں کہا جاتا ہے، اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی اردو ڈے منایا جا رہا ہے۔


جامع مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، پروفیسر شریف احمد، پروفیسرمنیر احمد، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر اے آر کاردار اور دہلی کے متعدد صحافیوں اور ادیبوں نے اس تقریب میں علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر علامہ اقبال کی یاد میں ہمیشہ کی مانند ایک یادگار مجلے کا اجرا کیا گیا اور اقبال اور اردو کے نام پر متعدد شخصیات کو ایوارڈز دیے گئے۔

اسی درمیان اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، مدھیا پردیش اور ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منانے کی اطلاع ات موصول ہوئی ہیں۔ اتر پردیش کے قصبہ نگینہ میں اقبال ڈے کے موقع پر ان کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا گیا اور متعدد پروفیسروں اور دانشوروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کو نوبیل انعام ملنا چاہیے تھا۔

علیگڑھ میں یوم اردو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے ایم یو میں شعبہ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل صمدانی نے کہا کہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر، فلسفی، دانشور اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے شخص تھے۔ مرادآباد، دیوبند، سہارنپور اور دوسرے شہروں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منائے جانے کی خبریں ہیں۔ ان تقریبات میں علامہ اقبال کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اردو کو اس کا جائز حق دے۔


published on VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/India-Iqbal-day-70142787.html

فیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی میں یادگار تقریب کا انعقاد

ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور فن کار محبت اور دوستی کا نقیب ہوتا ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اہل دہلی نہ تو احمد فراز کی یاد میں تقریب کا اہتمام کرتے اور نہ ہی فیض احمد فیض کی برسی پر ایک خوبصورت شام منعقد کی جاتی۔

”فیض احمد فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ ہر اس شخص کے شاعر ہیں جو اپنے سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے اور جس کے نزدیک فن اور فن کار کے لئے زمینی سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔“

ان خیالات کا اظہارفیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی کے تین مورتی آڈیٹوریم میں منعقدہ یادگار شام کے شرکا نے کھلے دل کے ساتھ کیا۔اس تقریب کا اہتمام صفدر ہاشمی میمورئل ٹرسٹ (SAHMAT)اور نہرو میموریل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

اس خوب صورت شام کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ معروف کلاسیکی گلوکارہ شُبھامُدگل نے فیض کا کلام اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے سامعین کو سحر زدہ کر دیا۔ انھوں نے فیض احمد فیض کی غزلوں اور نظموں کو اپنی آواز دے کر یہ ثابت کر دیا کہ فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں اور یہ کہ فیض جیسے شعرا ایک صدی میں ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں۔

شبھا مدگل نے جب سحر انگیزموسیقی کے درمیان فیض کی یہ نظم سنائی تو ایک سماں بندھ گیا:

اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچے پہ کسی خواب کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

فیض احمد فیض نے ارضِ وطن کو مخاطب کرکے بھی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں ان کے دردِ دل کی پوری عکاسی ہوئی ہے۔ ایسی ہی ایک نظم جب شُبھا مدگل نے اپنے درد بھرے انداز اور پُر سوز آواز میں پیش کی تو سامعین بھی اس درد کی گہرائی میں ڈوب گئے۔ نظم کا بند ملاحظہ کریں:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلزار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے

محفل اس وقت قہقہہ زار ہو گئی جب شبھا مدگل نے کہا کہ وہ فیض کی ایک طویل نظم سنانا چاہتی ہیں لیکن انھیں اندیشہ ہے کہ سامعین اس کی طوالت سے بور نہ ہو جائیں، اس پر ایک سامع نے ظریفانہ انداز میں کہا کہ ہم بور نہیں ہوں گے کیوں کہ دہلی والے لمبے ٹریفک جام کے عادی ہو چکے ہیں۔

اپنے فن کے مظاہرے کے بعد کلاسیکل سنگر شبھا مدگ ل نے یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے اردو نہیں سیکھی ہے اور نہ ہی وہ اردو زبان کے تلفظ کی باریکیوں اور نزاکتوں سے واقف ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں۔ ان غلطیوں کو درگزر کر دیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ فیض صاحب کی عقیدت مند ہیں اور اسی لیے انھوں نے ان کا کلام گاکر سنانے کا فیصلہ کیا۔بقول ان کے ”پھر میں نے سوچا جب دُسّاہس(جرات بیجا) کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ جم کر کی جائے۔“

انھوں نے خود کو فیض احمد فیض کی مرید اور بھکت بتا کر ان سے اپنی عقیدت کا اظہار بار بار کیا اور کہا کہ انھیں فیض صاحب کا کلام گانے میں عجیب لذت اور طمانیت کا احس اس ہوتا ہے اور اسی لیے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے پروگراموں کا مزید انعقاد کروائیں گی اور ان میں فیض احمد فیض کا کلام گا کر سنائیں گی۔

اس موقع پر فیض احمد فیض کے فن اور ان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور یہ فریضہ ادا کیا پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے۔انھوں نے فیص احمد فیض کی شاعری کے مختلف پہلووں پر ان کی غزلوں اور نظموں پر اظہار خیال کیا۔

اس خوبصورت تقریب میں دہلی کے باذوق حضرات کی بڑی تعداد موجود تھی۔


published at VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/faiz-delhi-shubha-mudgal-21nov09-70695892.html

Thursday, November 19, 2009

مولوی اسما عیل میرٹھی، ایک ہمہ جہت شخصیت

مولوی اسما عیل میرٹھی کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔


تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

ادب سے ہی انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو

یہ اشعار مولوی اسماعیل میرٹھی کے ہیں جو انھوں نے بچوں کے لئے لکھے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف بچوں کے شاعر تھے۔ معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:

”بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لئے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔اسماعیل نے ان کے علاہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معرٰی کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔“

اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔ان کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن ابو بکر صدیقؓ سے جا ملتا ہے۔ ان کے کسی بزرگ نے ترکستان کے قدیم شہر خجند میں سکونت اختیار کی تھی اور وہاں سے آپ کے مورث اعلی میں سے قاضی حمید الدین خجندی بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

مولوی اسما عیل میرٹھی کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد اور غلام مولی قلق میرٹھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اس وقت اردو زبان وادب کی آبیاری کی جب فارسی زبان وادب کا بول بالا تھا۔ مدارس میں فارسی کتابوں کا چلن تھا اور گھروں میں صرف انفرادی طور پر اردو کی تعلیم ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں کی تدریسی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے جس شخص نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی وہ مولوی اسما عیل میرٹھی تھے۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور پہلی سے پانچویں جماعت تک کے لئے اردو کی درسی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ابتدائی جماعتوں کے لئے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا۔ انھوں نے قواعد و زبان پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے لوئر پرائمری، اپر پرائمری اور مڈل جماعتوں کے لئے علاحدہ درسی کتابیں تیار کیں۔ جن میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اسباق شامل کرتے ہوئے ا ن کی عمروں کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ ان کی درسی کتابیں ہزاروں مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔
published on VOAnews.com at

http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/ismael-mirathi-70187807.html

Sunday, November 1, 2009

حضرت امیر خسرو: گنگا جمنی تہذیب کے مینارہٴ نور

حضرت امیر خسرو مشترکہ ثقافت کے مینارہ نور تھے، ان کی علمی وراثت کی بازیافت کی اشد ضرورت ہے، دہلی میں ان کے شایان شان ایک علمی یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں ان پر تحقیقی نوعیت کا کام کیا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار حضرت امیر خسرو کے عرس کے موقعے پر منعقدہ سیمینار میں مقررین نے کیا۔ خواجہ ہال میں منعقد اس سیمینار کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے کی۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عظیم صوفی شاعر اور سیکولر روایات کے علم بردار امیر خسرو کے نام سے دہلی میں ایک مہتم بالشان یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں تحقیقی اور علمی سلسلہ شروع کیا جا سکے۔

انھوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ پچاس برسوں میں امیر خسرو پر کوئی قابل ذکر علمی یا تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے امیر خسرو کی شاعری پر بولتے ہوئے کہا کہ ان کی ہندی یا ہندوی شاعری نے ہر طبقے کے لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان کی شاعری بھی ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی ترجمان تھی اور وہ اپنی صوفیانہ شاعری سے پوری دنیا میں میل جول اور پیار محبت کی فضا قائم کرنا چاہتے تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے مقالے ’دل اور دنیا کا پرنور توازن‘ میں کہا کہ حضرت امیر خسرو ایک عبقری شخصیت کے ملک تھے۔وہ گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ عہد وسطی کی ہندوستانی تاریخ میں بڑے بڑوں کے نام و نشان مٹ گئے لیکن امیر خسرو آج بھی انسانی ذہنوں میں زندہ ہیں۔

اختر الواسع نے امیر خسرو کی شاعری کے پیغام کی عصری معنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انھوں نے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری نے فن شاعری میں جو سنگ میل قائم کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور انھوں نے ہندی، اردو اور فارسی کی آمیزش سے جو شاعری کی ہے وہ انتہائی اعلی و ارفع ہے۔

پروفیسر سید عزیز الدین ہمدانی نے ’حضرت امیر خسرو اور سلطان علاؤالدین خلجی‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ خلجی کے عہد میں علم و فن کو زبردست فروغ حاصل ہوا تھا۔ جس طرح امیر خسرو نے علاؤالدین خلجی کی تعلیمی خدمات کی ستائش کی تھی، اس کے بعد مسلمانوں کے لئے تعلیمی میدان میں فیروز شاہ تغلق، جلال الدین اکبر، سر سید احمد خاں اور حکیم اجمل خاں وغیرہ کے ذریعے انجام دی جانے والی علمی خدمات کی تحسین کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔انھوں نے مزید کہا کہ امیر خسرو نے سات بادشاہوں کا دور دیکھا تھا۔

خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام اس سیمینار میں خواجہ حسن ثانی نظامی نے امیر خسرو کی شاعری، ان کی تہذیبی روایات، مشترکہ ثقافت کے تئیں ان کی کوششوں اور ان کے کمالات پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی۔ان کے علاوہ پروفیسر شریف الحسن قاسمی اور دوسرے مقالہ نگاروں نے امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا اور متعددشعرا نے اپنے کلام کے ذریعے امیر خسرو کو خراج عقیدت پیش کیا۔قابل ذکر ہے کہ اس وقت حضرت نظام الدین میں محبوب الٰہی کے مزار کے قریب واقع امیر خسرو کے مزار پر ان کا 705واں عرس چل رہا ہے اور اس موقع کی مناسبت سے ”حضرت امیر خسرو، حیات و کمالات“ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔
published on VOAnews.com at http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/amir-khusrau-urs-8oct09-63758947.html

Thursday, October 29, 2009

تاج محل ہند ایران مشترکہ فن تعمیر کی علامت ہے: دہلی میں بین الاقوامی سیمینار

دنیا کی خوب صورت ترین عمارات میں سے ایک تاج محل ہند ایران مشترکہ فن تعمیر کی علامت ہے اور دنیا کی ثقافت میں اپنی ایک علاحدہ اور انفرادی شان رکھتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دہلی یونیورسٹی میں ایک دوروزہ بین الاقوامی سیمینار میں کیا گیا جو کہ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوری ایران اور دہلی یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ تاج محل ہند ایران ہندوستان مشترکہ طرزِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاج محل کی تعمیر پر ایران کے اثرات ہیں۔ موریہ عہد میں ہندوستان میں فن وثقافت کا فروغ ایران کے زیر اثر ہوا۔ تاج محل مغل طرز تعمیر کا حصہ ہے لیکن اس پر ایران کے اثرات ہیں۔ اس دور میں بہت سی چیزیں ایران سے ہندوستان آچکی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاج محل کی اپنی ایک جدت ہے۔یہ مختلف طرز ہائے تعمیر کا مجموعہ ہے، تاہم یہ عمارت اپنی نوعیت کی الگ عمارت ہے، خواہ اس میں قدیم ہندوستانی فن تعمیر ہو یا ایرانی طرز یا وسطی ایشیا کے آرٹ کے نمونے، دنیا کے کلچر میں تاج محل کی اپنی حیثیت ہےاور یہ منفرد شناخت کا حامل ہے۔

سیمینار میں اسلامی جمہوری ایران کے سفیر مہدی نبی زادہ نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے تاج محل کو ہند ایران مشترکہ ثقافت کی علامت قرار دیا اور کہا کہ ایرانی فن تعمیر ہندوستان میں بہت مقبول ہے۔ یہ تاریخ دانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تاج محل سے متعلق تحقیق میں ہند ایران روابط تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

ایران کلچر ہاؤس میں کلچرل کونسلر ڈاکٹر کریم نجفی نے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد ہندوستان اور ایران کے پانچ ہزار سال پرانے روایتی، تہذیبی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سیمینار تاج محل کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔

انہوں نے تاج محل کی تعمیر کے بارے میں بتایا کہ اس عمارت کے چیف آرکیٹکٹ ایران کے محمد عیسی شیرازی تھے، جنھوں نے اس کا نقشہ تیار کیا اور آخر تک اس کی تعمیر میں مصروف رہے۔ تاج محل کی دیواروں پر فن خطاطی کے جو نمونے ہیں وہ امانت خاں شیرازی کی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تاج محل کی عمارت دونوں ملکوں کی مشترکہ تہذیب کی علم بردار ہے۔

پروفیسر سید ظہور حسین جعفری صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی نے شرکا کا استقبال کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہندوستان اور ایران کے ثقافتی مراسم اور تہذیب و تمدن کی وراثت مشترک اور یکساں ہے۔

ڈاکٹر محمود اعضی مشیر صدر سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی، جمہوری اسلامی ایران نے بطور خاص سیمینار میں شرکت کی اور کہا کہ اس قسم کے سیمینار قدیم تہذیب کو محفوظ رکھنے اور ہند ایران رشتوں کو مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اس دوروزہ بین الاقوامی سیمینار میں، جو کہ 24اکتوبر کو ختم ہوا،ایران کی تیس یونیورسٹیوں کے نمائندوں اور ہندوستان کے کم از 40 تاریخ دانوں اور دانش وروںنے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کیے، جن میں پروفیسر عرفان حبیب، پروفیسر شیریں موسوی، ڈاکٹر یونس جعفری، ڈاکٹر شریف حسین قاسمی، پروفیسر اختر مہدی، پروفیسر چندر شیکھراور پروفیسر نین جوت قابل ذکر ہیں۔

Tuesday, October 6, 2009

لکھنو میں فلمی نغموں کے قدیم گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ

اگر کسی کو قدیم اور تاریخی فلمی نغموں سے دلچسپی ہو اور وہ ان سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو تو اسے لکھنو کی سلطنت منزل کی زیارت کرنی چاہئیے، جہاں بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر اواخر تک کے قدیم فلمی نغموں کے گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ موجود ہے۔ یہ نادر ذخیرہ رائل فیملی آف اودھ کی کاوشوں کا مرہون منت ہے اور اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے میں کئی نسلوں کی خدمات شامل ہیں۔

نوابی دور میں گرامو فون کا بہت چلن تھا اور ان نغموں سے مہمانوں کی آؤ بھگت بھی کی جاتی تھی۔اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے کا آغاز خان بہادر نواب سید حامد حسین خان نے کیا تھا۔وہ برطانوی حکومت میں لائف مجسٹریٹ اور لکھنو میونسپلٹی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ان کے بعد اس روایت کو لکھنو کے اسپیشل مجسٹریٹ نواب سید مہدی حسین اور پلے وے ہائی اسکول لکھنو کے بانی نواب سید رضا حسن خان نے آگے بڑھایا اور انہوں نے انتہائی جاں فشانی کے ساتھ اس ذخیرے میں چار چاند لگا دیے۔

موجودہ دور میں یہ ذمے داری پروفیسر سید علی حامد اور ایڈوائزری بورڈ رائل فیملی آف اودھ کے وائس چیئرمین سید معصوم رضا ایڈووکیٹ انجام دے رہے ہیں اور اس ذخیرے میں بھرپور اضافہ کر رہے ہیں۔

سید معصوم رضا ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ کم و بیش ایک صدی پر محیط اس کلیکشن میں ریکارڈوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے۔ بیشتر ریکارڈ اپنی اصل صورت میں ہیں اور اردو اور انگریزی میں لکھے اوریجنل کور میں آج بھی موجود ہیں۔یہاں ایسے متعدد ریکارڈ ہیں جن کے صرف ایک سائڈ میں ریکارڈنگ ہے۔سلیٹ اور لاٹ کے بنے ہوئے یہ ریکارڈ 78پی ایم پر بجتے ہیں۔ریکارڈ بجانے والا ہز ماسٹر وائس یا ایچ ایم وی آج بھی پہلے کے سے انداز میں بج رہا ہے۔

سلطنت منزل کے اس ذخیرے میں مجرے، ٹھمری، دادرا، غزلیں، شاستریہ سنگیت، سوگم سنگیت، فلمی گانے اور انگریزی کے گانے بھی شامل ہیں۔یہاں ہز ماسٹر وائس اور دمدم کولکتہ کے علاوہ پرانے ہندوستانی اور غیرملکی ریکارڈ بھی موجود ہیں۔

نواب حامد حسین خاں کے نام سے موسوم حامد روڈ پر واقع طلعت منزل میں ایسے قدیم گلوکاروں کے ریکارڈ بھی موجود ہیں، جن کے نام آج کے دور میں بہت سے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہوں گے۔جیسے کہ ملکہ جان، علی بخش، مس دلاوری، بے بی اندرا، نسیم بانو، مس سروجنی، پیارا صاحب، نسیم اختر، مس کملا، وحیدن بائی، امیر بائی کرناٹکی اور اختری بائی کے ریکارڈ قابل ذکر ہیں، جنھوں نے بعد میں بیگم اختر کے نام سے شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ معروف گلوکاروں میں کے۔ ایل۔ سہگل، شمشاد بیگم، نور جہاں، لتا منگیشکر، طلعت محمود، محمد رفیع اور مکیش قابل ذکر ہیں۔
سید معصوم رضا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ریکارڈوں کے اس کلیکشن کا تحفظ بہت مشکل کام ہے۔سلیٹ اور لاکھ کے بنے ان ریکارڈوں کے ٹوٹنے کا بہت خطرہ رہتا ہے۔البتہ اب پلاسٹک کے ریکارڈ بننے لگے ہیں جس سے ان کے رکھ رکھاؤ اور تحفظ میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ پروفیسر سید حامد علی اور سید معصوم رضا کا کہنا ہے کہ ان ریکارڈوں کی چمک دمک کو بچانا ایک دشوار ترین مرحلہ ہے تاہم وہ ان کے تحفظ کی پوری کوشش کرتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے تو پرانے گانوں کو سن کر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔

Saturday, August 29, 2009

احمد فراز ہند پاک دوستی اور ہم آہنگی کی علامت تھے: گوپی چند نارنگ

شاعرِ دل نواز احمد فراز کی پہلی برسی کے موقعے پر دہلی میں فراز کے چاہنے والوں نے ایک انتہائی اہم اور باوقار تقریب کا اہتمام کیا، جس میں احمد فراز کو یاد کیا گیا اور ان کے کلام سے بھی لطف اندوز ہونے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان کے معروف شاعر احمد فراز کو ہندوستان میں بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل تھی جتنی پاکستان میں۔ وہ جب ہندوستان کے دورے پر آتے توہفتوں اور مہینوں یہیں کے ہوکر رہ جاتے تھے۔ ان کے قدردانوں کی جانب سے مشاعروں اور شعری نشستوں کا اہتمام اس قدر کیا جاتا تھا کہ ان کو واپس جانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔

احمد فراز بھی ہندوستان اور یہاں کے انسانیت دوست عناصر اور سخن فہم افراد سے بڑی محبت رکھتے تھے اور دونوں ملکوں میں پیار و محبت کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔

احمد فراز کی یاد میں ہونے والی اس تقریب کا اہتمام ’فاؤنڈیشن آف کلچر اینڈ لٹریچر‘ اور ’سانجھے رنگ‘ نے مشترکہ طور پر ’ایک شام، دوستی کے نام‘ کے عنوان سے تین مورتی آڈیٹوریم میں کیا تھا۔ اس تقریب میں دارالحکومت کی انتہائی معزز شخصیات نے شرکت کی۔

تقریب کے مہمان خصوصی اور عالمی شہرت کے حامل دانش ور اور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے خطبے میں احمد فراز کی شخصیت اور ان کے کلام پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ احمد فراز انسانیت اور دوستی کے نقیب اور سفیر تھے۔ ان کو صرف ہندوستان اور پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ ان کی شہرت سرحدوں کی پابند نہیں بلکہ وہ انسانی ہاتھوں سے کھینچی گئی سرحدوں سے بے نیاز اور پرے تھی۔احمد فراز ہندوستان اور پاکستان کے مابین دوستی، رفاقت، محبت اور پیار و ہم آہنگی کی علامت بن گئے تھے۔

پدم بھوشن گوپی چند نارنگ نے مزید کہا کہ کسی بھی شاعر کا بہترین تعارف اس کا کلام ہوتا ہے، باقی جو کچھ ہم شاعر کے بارے میں کہتے ہیں وہ محض لفاظی ہوتی ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ اس شہر میں فراز کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ دہلی والوں نے ان کو فراموش نہیں کیا ہے، ان کی یادوں کو تازہ رکھا ہے۔

پروفیسر نارنگ کے مطابق بیسویں صدی میں پاکستان کے تمام بڑے شاعروں کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن احمد فراز کی زبان پشتو تھی، اس کے باوجود انہوں نے اردو میں ایسی شاعری کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقعے پر انہوں نے احمد فراز اور فیض احمد فیض کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی ایسے شاعر تھے جنہیں ان کی زندگی ہی میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔گوپی چند نارنگ نے احمد فراز کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی اور ان کے بعض چنندہ اشعار بھی پیش کیے۔

اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور آئی سی سی آر کے وائس چیرمین سید شاہد مہدی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں احمد فراز کے اشعار کے حوالے سے بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ احمد فراز کلاسیکی روایت کے منفرد شاعر تھے، جنھوں نے اپنے اشعار کے ذریعے ناانصافی، سماجی ناہمواری اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کی۔

ان کی شاعری میں رومانیت کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی ہے اور احتجاج بھی ہے۔سید شاہد مہدی نے مزید کہا کہ احمد فراز ہمہ وقت شاعر تھے اور اپنے منفرد لب و لہجے سے انہوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی تھی۔احمد فراز محض ہند و پاک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول تھے۔

دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس اتاشی شاہ زماں، ہمایوں ظفر زیدی، اکھلیش متل اور نیتو سنگھ نے بھی اظہارِ خیال کیا، جب کہ شرکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن، معروف صحافی سعید نقوی، پروفیسر اختر مہدی، پروفیسر چمن لال، پروفیسر مدن گوپال، جاوید نقوی اور عظمیٰ صدیقی قابل ذکر ہیں۔اس موقع پر ایک پروجیکٹر کے ذریعے احمد فراز کو کلام سناتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔

احمد فراز بلا شبہ ہند پاک دوستی کے بہت بڑے مبلغ اور خواہش مند تھے اور نہ صرف اشعار کے ذریعے بلکہ ذاتی گفتگو میں بھی وہ اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی، پاکستان بن گیا، ملکوں کے بیچ دیواریں اٹھ گئیں، غلط ہوا یا صحیح، جو ہو گیا ہو گیا، لیکن یہ نفرت کیوں بڑھ رہی ہے۔ ان نفرتوں کو کم کرنے کے لیے ہم دونوں ملکوں کے بیچ قائم دیواروں میں دروازے کیوں نہیں بنا لیتے، تاکہ جب سرحد کے اس پار ٹھنڈی ہوا چلے تو ہم بھی اس کا احساس کریں۔اور اس طرف بارش ہو تو بوچھار ادھر بھی جا سکے۔وہ ہمیشہ ہندوستانی جمہوریت کی تعریف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہند پاک دوستی کے لیے پاکستان میں بھی جمہوریت کا قیام ضروری ہے۔

یہاں کے لوگ کس قدر ان کے کلام کو پسند کرتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو جائے گا جو ظہیر زیدی نے سنایا ہے۔ان کے مطابق انہوں نے 15اپریل 2008ء کو انڈیا ہیبٹیٹ سینٹر میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا جس میں احمد فراز کو سننے کے لیے متعدد مرکزی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ نرملا دیش پانڈے اوررام جیٹھ ملانی وغیرہ موجود تھے۔

اسی روز سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر گرجا ویاس کی سالگرہ اودے پور میں منائی جا رہی تھی، لیکن وہ احمد فراز کو سننے کے لیے دہلی پہنچیں اور دوسرے دن انہیں چائے پر مدعو کرکے راکھی باندھی تو احمد فراز کی آنکھوں میں جذبات کے آنسو امنڈ پڑے۔اسی روز وزارتِ خارجہ میں سکریٹری کے کے مینن نے انہیں چائے پر مدعو کیا اورمشاعرے میں نہ پہنچنے پر معذرت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اب تو پاکستان میں جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ ہم سب مل کر ہند پاک دوستی کے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلیں۔اس پر احمد فراز نے پورا تعاون دینے کا یقین دلایا۔اور لال قلعے میں مشاعرے کا منصوبہ بنا۔اسی درمیان کشمیر میں ایک مشاعرے کے انعقاد کا فیصلہ لیا گیا تھا اور اس سے احمد فراز کو باخبر کیا گیا تو وہ بہت حوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ وہ ہند پاک دوستی اور کشمیر میں امن کے لیے ایک نظم لکھیں گے۔ لیکن وقت نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
published on VOAnews.com/urdu

Friday, July 17, 2009

آج بھی جاری ہے بابری مسجد کی داستانِ مظلومی

کیا کسی عمارت کے ساتھ ایسا ظلم اور دھوکہ پہلے بھی ہوا ہوگا جیسا کہ بابری مسجد کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے؟ہرگز نہیں۔بابری مسجد کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے۔ وہ کل بھی انصاف کے لئے ترس رہی تھی اور آج بھی ترس رہی ہے۔حالانکہ وہ کل بھی بے قصور تھی اور آج بھی بے قصور ہے۔ایک خطرناک سازش اور تہذیبی غنڈہ گردی کے ذریعے اس کا وجود تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی زندہ ہے اور دوستوں اور دشمنوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے۔دوستوں کی خواہش ہے کہ اسے اگر پھر سے وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں تو کم از کم اس کے دشمنوں کو سزا ضرور دلوادیں۔ ان لوگوں کو غبرت ناک سزائیں ضرور ملنی چاہئیں جنھوں نے ظلم و ناانصافی کے ہتھیاروں سے بابری مسجد کو قتل کیا اور اس کے وجود کو تار تار کر دیا۔وہ اس میں تو کامیاب ہو گئے لیکن کیا وہ اس کی تاریخ مٹانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عمارت آج اگر مسلمانوں کے دلوں میں ایک تلخ یاد کی شکل میں باقی ہے تو اس کا انہدام آسیب بن کر دشمنوں کا پیچھا کر رہا ہے۔بظاہر قاتلانِ بابری مسجد آزاد ہیں اور ان کو کوئی سزا ابھی تک نہیں مل سکی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنونیوں کے دستے کا ایک ایک فرد اس کے نشانے پر ہے۔کسی کو چین وسکون نہیں ہے۔ایک ایک کا نام گنوایا جائے تو یہ داستان بڑی طویل ہو جائے گی۔ سچائی یہ ہے کہ ان میں سے کئی لوگ تو اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے حلقہ بگوش اسلام بھی ہو چکے ہیں
بابری مسجد کے ساتھ ظلم و زیادتی کی داستانیں کیوں رقم کی جا رہی ہیں؟ کیا اس لئے کہ ایک بادشاہ نے بت کدوں کی نگری میں صدائے لا الہ الا اللہ بلند کرنے کے لئے اور وہاں کے مٹھی بھر مسلمانوں کو اللہ کی عبادت کرنے کے لئے ایک عدد مسجد کی تعمیر کروا دی تھی۔ کیا یہی بابری مسجد کا سب سے بڑا قصور ہے کہ اس کے منبر و محراب سے اللہ کی وحدانیت کا ڈنکہ بجایا جا رہا تھا؟شائد ہاں۔صرف اتنا ہی نہیں کہ بابری مسجد کے ساتھ ظلم ہوا بلکہ اس شہر کے مسلمانوں کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بابری مسجد کو اپنی جبینوں سے آباد کرتے تھے اور اس کے ذروں کو اپنے سجدوں سے روشن کرتے تھے
بات چل رہی تھی بابری مسجد کے ساتھ ہونے والے دھوکے اور ظلم و زیادتی کی۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسے انصاف دلانے کا فریضہ جن کو ادا کرنا تھا وہ بھی کوتاہ دست ثابت ہوئے ہیں۔حالانکہ چھ دسمبر 1992کو جو کچھ ہوا تھا اسے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا نے دیکھا تھا اور اس جرم عظیم کی داستان ٹی وی چینلوں کی ریکارڈنگ اور اخبارات کی اشاعتوں کی شکل میں موجود اور محفوظ ہے اور یہ ایسی دستاویزات ہیں جن کو نہ تو گم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جن کی سچائی پر کوئی پردہ ڈالاجا سکتا ہے۔پوری دنیا نے دیکھا کہ بابری مسجد کے انہدام میں کن لوگوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ آج کسی بھی شخص سے پوچھا جائے تو وہ بلا جھجک ان کے نام بتا دے گا۔ لیکن اس کے باوجود اس بھیانک واقعہ کی جانچ کے لئے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔کمیشنوں کے قیام سے کیا فائدہ ہوتا ہے،یہ ہمیں نہیں معلوم۔ سوائے اس کے کہ کچھ ایسے لوگوں کے نام ایک بار پھر سامنے آجاتے ہیں جن کو پہلے سے ہی لوگ مجرم کے طور پر جانتے رہے ہیں۔بس اس کے علاوہ شائد اور کچھ نہیں۔بہر حال بابری مسجد کے قصورواروں کا پتہ لگانے کے لئے جس کمیشن کا قیام عمل میں آیا اس نے اپنے کام کو مکمل کرنے میں سترہ سال لگا دئے۔ایک ایسی حقیقت کو، جو آفتاب نیم روز کی مانند واضح اور بے داغ تھی،تحریری شکل میں لانے میں اتنا طویل عرصہ لگ جائے گا، اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔اسے صرف تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا جو اس کام کے لئے کافی تھا۔ لیکن اس نے اتنے دن کیوں لگا دئے، اس کا جواب تو جسٹس ایم ایس لبراہن ہی دے سکتے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ یہ بھی بابری مسجد کے ساتھ ایک دھوکہ ہے اور اس پر توڑے جانے والے مظالم میں ایک اور ظلم کا اضافہ ہے۔لبراہن کمیشن رپورٹ تو وزیر اعظم کو سونپ دی گئی ہے۔ لیکن اس کی امید کم ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اگر پیش بھی کر دیا گیا تو اس کی روشنی میں کوئی کارروائی ہوگی،اس کا امکان بھی کم ہے۔اگر اس میں ان لوگوں کو قصوروار بتایا گیا ہوگا جو واقعتاً قصوروار ہیں، تو کیا وہ اسے تسلیم کر لیں گے اور کیا حکومت میں اتنی جرات ہو گی کہ وہ ان کو سلاخوں کے پیچھے ڈال سکے اور اگر اس نے ایسا کیا تو کیا اس کی آڑ میں ملک کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جھونکنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اگر فسطائی قوتوں نے کسی بھی کارروائی کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کیا تو کیا حکومت ان کو نکیل ڈالنے کی جرات کر سکے گی؟ یہ اور ایسے جانے کتنے سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔بہر حال ایسا لگتا ہے کہ بابری مسجد کے ساتھ دھوکے کا سلسلہ ابھی جاری ہی رہے گا۔گرچہ رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر نہیں آئے ہیں ،تاہم سنگھ پریوار سے وابستہ لوگوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور اسی خوف کو کم یا ختم کرنے کے مقصد سے انہوں نے خطرناک بیانات دینے شروع کر دئے ہیں۔کوئی پھانسی کے تختے پر چڑھنے کافخریہ اعلان کر رہا ہے تو کوئی رپورٹ میں تاخیر پر سوال اٹھا کر اس کو غیر اہم بنانے کو کوشش کر رہا ہے، تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے ذمے دار ہم نہیں اس وقت کی حکومت تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کی مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں اس کی ذمے دار ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ بے قصور ہیں جو نام نہاد کارسیوکوں کو مشتعل کر رہے تھے اور ’ایک دھکہ اور دو۔بابری مسجد توڑ دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور مسجد کے انہدام پر ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوشیوں کا اظہار کر رہے تھے۔تاخیر سے ہی سہی، لیکن رپورٹ تیار ہونے کے بعد ایک بار پھر بابری مسجد کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے اور اس سے متعلق دوسرے واقعات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔بابری مسجد کے ساتھ دوسرا بڑا فراڈ اوردھوکہ عدالتوں میں چل رہی کارروائیوں میں تاخیر ہے۔لکھنو¿ اور رائے بریلی کی عدالتوں میں آڈوانی اینڈ کمپنی کے خلاف جو معاملات معرض التوا میں ہیں وہ بھی نا انصافی کی زندہ مثال ہیں۔اسی طرح بابری مسجد کی زمین کے مالکانہ حقوق کا معاملہ بھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔مختلف قسم کے حیلوں اور بہانوں سے عدالتی کارروائیوں میں تاخیر کی جا رہی ہے تاکہ یہ معاملہ وقت کی گرد میں دب کر اپنا وجود اور اپنی اہمیت کھو دے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے یا انصاف سے محروم کرنا ہے۔بابری مسجد کو جس طرح انصاف سے محروم کیا جا رہا ہے یا جس طرح اسے عدالتوں اور کمیشنوں کی بھول بھلیاں میں بھٹکا دیا گیا ہے، اس کی مثال شائد اور کہیں نہ ملے اور یہ بھی نا انصافی ہی ہے۔اب ایک تازہ دھوکہ یا تازہ ظلم اس شکل میں سامنے آیا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق دستاویزات ہی غائب ہو گئی ہیں یا انہیں غائب کر دیا گیا ہے۔یہ بہت اہم دستاویزات تھیں، جن میں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا وہ پیغام بھی تھا جو اس وقت کے وزیر اعلی گووند ولبھ پنت کے نام تھا اور جس میں بابری مسجد سے فوراً مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔اب جو خبریں آرہی ہیں ان سے یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ جو شخص ان دستاویزات کو لے کر لکھنو¿ سے دہلی آرہا تھا اسے دہلی کے تلک برج ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے دھکہ دے دیا گیا تھااور اس طرح اس کی موت ہو گئی۔ اس کے پاس سے کاغذات کہاں گئے کسی کو نہیں معلوم۔ یا تو دھکہ دینے والے نے انہیں اڑا لیا یا پھر اسپتال میں بھرتی کے دوران غائب کر دئے گئے۔اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ بابری مسجد کے حق میں جو بھی تاریخی اور دستاویزی ثبوط ہوں ان کو ختم کر دیا جائے۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ بابری مسجد کے حق میں تاریخی دستاویزات غائب کرکے اس کو دستاویزی انداز میں مندر ثابت کر دیا جائے۔نہیں بالکل نہیں۔ سورج کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کسی کی گواہی اور شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنی گواہی اور اپنی شہادت دیتا ہے۔ وہ خود ہی گواہ اور خود ہی شاہد ہے۔اسی طرح بابری مسجد کسی کی گواہی کی محتاج نہیں ہے، کسی کی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔عدالتوں اور کمیشنوں کے چکرویوہ میں اسے پھنسا کر بھلے ہی رکھا جائے لیکن تاریخ اس کی سچائی سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ گرچہ اس کا وجود مٹا دیا گیا ہے لیکن وہ ایک ایک فرد کے ذہن میں محفوظ اور زندہ ہے۔تاریخ جب بنتی ہے تومورخ کی نگاہ صرف بصری حقائق پر نہیں ہوتی بلکہ وہ ان سچائیوں کو بھی پرھتا اور پرکھتا ہے جو سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی رہتی ہیں اور جن کو پڑھنے کے لئے چشم بصارت کی نہیں بلکہ چشم بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اگر مورخ کے پاس چشم بصیرت نہ ہو تو وہ مورخ نہیں ہوتا محض ایک داستان گو ہوتا ہے۔بابری مسجد کی سچائی کو نہ کوئی مورخ نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی داستان گو۔بابری مسجد پر ظلم ڈھانے والوں میں صرف اغیار ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے اپنوں نے بھی کم ظلم نہیں توڑا اور اس کے ساتھ کم دھوکہ نہیں کیا ہے۔بابری مسجد تحریک کے کندھوں پر سواری کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔لیکن ان کی چالاکی اور عیاری سب بابری مسجد کے ملبے میں دب کر ختم ہو گئی۔ مسجد نے ان لوگوں سے انتقام لے لیا ہے اور ان کی سیاست ملبے میں دفن ہو گئی ہے۔اغیار کی سیاست بھی تباہی و بربادی کی دہلیز پر جا پہنچی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی ان کو عدالت سے سزائیں نہیں ملی ہیں لیکن وقت ان سے انتقام لے رہا ہے اور ایک دن وہ بھی تاریخ کے ملبے میں دب کر اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔
Published in Rashtriya sahara Urdu

Tuesday, June 16, 2009

Raza Library Rampur: رضا لائبریری رامپور پر یادگاری ڈاک ٹکٹ

رامپور کی تاریخی رضا لائبریری ہندوستان کی ممتاز لائبریریوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق مرکزی حکومت نے اس پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے اس کی جد و جہد کی جا رہی تھی۔اس سلسلے میں اتر پردیش کے گوررنر ٹی وی راجیشور نے گذشتہ دنوں رضا لائبریری کا دورہ کیا تھا اور لائبریری میں تاریخی کتابوں کو بڑے اشتیاق کے ساتھ دیکھا تھا۔ جب انہیں اس کتب خانے کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔یادگاری ڈاک ٹکٹ اتر پردیش کے گورنر جلد ہی جاری کریں گے۔
اس تاریخی کتب خانے کی بنیاد ریاست مصطفی آباد عرف رامپور کے نواب فیض اللہ خاں نے 17ستمبر 1774ءکو رکھی تھی۔لیکن اس میں کتابوں کا ذخیرہ نواب کلب علی خاں نے جمع کیا۔اس ممتاز کتب خانے میں 20 ہزارمخطوطات،82ہزار مطبوعہ کتب،160مصور مخطوطات،پانچ ہزار چھوٹی پینٹنگز اور تین ہزار اسلامی خطاطی کے نمونے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔اس میں عربی، فارسی، ترکی اردو، پشتو،ہندی اور سنسکرت کی نادر و نایاب کتابیں موجود ہیں۔ہرن کی کھال پر خلیفہ چہارم حضرت علی کے دست مبارک سے لکھی کتاب کے علاوہ طلائی حروف میں تحریر کردہ قرآن پاک کا نادر نسخہ بھی ہے۔لکھنوٴ کے چار باغ کے مغل باغ کی طرز پر کتب خانے کے باہر بنے باغ کی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔
لائبریری کے قیام کے بعد نواب سید محمد سعید خاں بہادر نے اس کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا۔لکڑی کی الماریاں تیار کی گئیں اور ایک افغانی اسکالر آغا یوسف علی محوی کو لائبریری کی ترتیب و تنظیم کے لیے معمور کیا گیا۔کتابوں کے لیے فارسی میں ایک مہر بنوائی گئی جس پر یہ شعر کندہ تھا:ہست ایں مہر بر کتب خانہ
والیِ رامپور فرزانہ
لائبریری کو نوادرات سے مالامال کرنے کے لیے نواب کلب علی خاں کی کوششیں کم قابل ذکر نہیں ہیں۔انہوں نے نایاب مخطوطے اور اسلامی خطاطی کے نمونوں کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔مختلف ملکوں کا دورہ کیا اورانہی کی وجہ سے لائبریری کو قرآن کریم کا وہ نسخہ ملا جو چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی سے منسوب ہے۔
ان کے بعد نواب مشتاق علی خاں بہادر نے لائبریری کی ترقی و توسیع کے لیے بجٹ مختص کیا اور نئی عمارت کی تعمیر کی۔ان کے بعد نواب سر سید محمد حامد علی خاں (1875-1930)نے اپنے عہد میں عالی شان عمارتیں بنوائیں۔انہوں نے ہی خاص باغ میں قلعے کے اندر حامد منزل تعمیر کروائی۔اسی حامد منزل میں 1957ءمیں لائبریری منتقل کر دی گئی۔
ان کے فرزند نواب ڈاکٹر سر سید محمد رضا علی خاں (1906-1966)نے لائبریری کی تنظیم نو کی۔وہ ہندوستانی موسیقی کے دلدادہ تھے اس لیے انہوں نے موسیقی سے متعلق بہت سے نایاب مخطوطے خریدے۔1949ءمیں وفاق ہند میں رامپور ریاست کے الحاق کے بعد یہ لائبریری ٹرسٹ کے حوالے کر دی گئی اور یکم جولائی 1975ءکو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت یہ لائبریری مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔
نواب رضا علی خاں سے موسوم یہ لائبریری اب ایک خود مختار قومی ادارہ ہے جہاں ملک و بیرون ملک کے دانش ور آتے ہیں اور فیض یاب ہوتے ہیں۔نوادرات اور مخطوطات کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی شناخت ہے۔نواب لوہارو کے علمی ذخیرہ کی شمولیت سے اس کی افادیت میں اور اضافہ ہوا۔علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم اور مفکر نے جب اس لائبریری کی زیارت کی تو انہوں نے اعتراف کیا:’ہندوستان میں اس سے بہتر کوئی ذخیرہ نہیں۔میں نے شام، ترکی اور یورپ کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان تمام لائبریریوں سے زیادہ عمدہ ذخیرے کی حامل ہے۔‘
علوم و معارف کے اس قدیم خزینے کو دیکھ کر کویت میوزیم کے سابق ڈائرکٹر نے کہا تھاکہ کویت میوزیم سے زیادہ نایاب اور قیمتی مخطوطات یہاں ہیں۔تاریخ، فلسفہ، مذاہب، سائنس، آرٹ، ادب، طب، فلکیات، نجومیات، ریاضیات، طبقات الارض اور فنون لطیفہ سے متعلق مخطوطات یہاں ہیں،جن کی تفصیلات مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی چھ جلدوں پر محیط عربی مخطوطات کی فہرست، حافظ احمد علی شوق کی مرتب کردہ فہرست اور حکیم محمد حسین خاں شفا کی مخطوطات رامپور میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ راجکمار منوہر اور راجکماری مدھو مالتی کی داستان عشق پر مبنی ملک منجن کی ’مد مالتی‘ اور ملک محمد جائسی کی اودھی زبان میں مشہور عشقیہ داستان ’پدماوت‘ کی مکمل کاپی صرف یہیں محفوظ ہے۔یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں اونٹ کے چمڑے پر لکھا ہوا کوفی رسم الخط میں قرآن کریم کا ایک نسخہ محفوظ ہے جو حضرت علی سے منسوب ہے۔ بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی صرف یہاں ہے اور کہیں نہیں۔مولانا امتیاز علی عرشی کے بقول، جو اس لائبریری کے ناظم تھے
:تاریخی کتابوں کے مطابق ابو علی محمد بن علی بن حسن بن عبداللہ بن مقلہ بیضاوی 272ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ تین عباسی خلفا مقتدر باللہ، قاہر باللہ اور راضی باللہ کے دور میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔حاسدین کی سازشوں کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور وہیں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے گئے۔مگر اس کے باوجود وہ اپنے بازو کے ساتھ قلم باندھ کر خطاطی کرتے تھے۔ثلث، ریحان، محقق، توقیع، نسخ اور رقع انہی کی ایجاد ہے۔ابجد کی نئی ترتیب بھی انہی کی دین ہے۔راضی باللہ کے عہد میں اس نابغہ روزگار کو قتل کر دیا گیا۔انہوں نے ہی کوفی خط کو ایک موڑ دے کر موجودہ نسخ خط بنایا تھا۔
تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی صرف دو کاپیاں تیار کی تھیں۔ان میں سے ایک نسخہ رضا لائبری میں موجود ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ صرف یہی ایک نسخہ ہزارہا پونڈ قیمت کا ہے۔اس کے علاوہ قرآن مجید کی سب سے پرانی تفسیر امام سفیان ثوری کی تفسیر ہے جس کا واحد نسخہ یہاں موجود ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر لائبریری نے حکومت ہند کی مدد سے اسے شائع کر دیا ہے۔اس لائبریری میں شاہنامہ فردوسی، دیوان حافظ، سنسکرت کے پنج تنتر کا عربی ترجمہ اور کلیلہ و دمنہ کے مصور نایاب مخطوطے ہیں۔فارسی نستعلیق میں رامائن کا مصور نسخہ دیکھ کر ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر نے کہا تھا کہ انہوں نے رنگین تصویروں والی ایسی قدیم کتاب نہیں دیکھی ہے۔
رضا لائبریری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں مغل، ترک، راجپوت، پہاڑی، اودھی اور فارسی منی ایچرز کے نایاب نمونے موجود ہیں۔خاص طور پر جلال الدین محمد اکبر کے بیٹے نور الدین سلیم جہاں گیر کی وہ پینٹنگ ہے جس میں وہ جھروکے سے باہر دیکھ رہے ہیں۔یہاں مصور مخطوطوں اور فارسی پینٹنگ کے بارے میں 276صفحات پر مشتمل ایک کتاب بھی ہے۔اس لائبریری سے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں، حافظ احمد علی خاں شوق، علامہ نجم الغنی خاں اور ممتاز محقق مولانا امتیاز علی عرشی جیسی عظیم ہستیاں وابستہ رہی ہیں۔حکومت ہند نے اس عظیم الشان کتب خانے پر یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کرکے قابلِ مبارکباد کام کیا ہے۔بلا شبہہ اس سے لائبریری کی نہیں بلکہ یادگاری ٹکٹ کی شان میں اضافہ ہوتا ہے۔

Wednesday, June 3, 2009

’برانڈ راہل‘بکتا ہے بازار میں


آج کل ہندوستانی منڈی میں صرف ایک ہی برانڈ بک رہا ہے اور وہ ہے’راہل برانڈ۔‘ کیا سیاست، کیا صحافت، کیا تجارت اور کیا محبت،یا تو راہل گاندھی چرچا میں ہیں یا پھر ان کا کرشمہ۔

نوجوانوں اور تجربہ کاروں پر مشتمل وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی کابینہ اور حکمراں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کا بھی اگر ذکر ہوگا تو راہل گاندھی کے حوالے سے ہی ہوگا۔ راہل نے یو پی میں جو کرشمہ دکھایا ہے اس کے آگے آج کل سارے کرشمے فیل ہیں۔سیاست دانوں میں چرچا ہے کہ راہل نے اتر پردیش میں کانگریس کو زندہ کر دیا۔ عوامی حلقوں میں چرچا ہے کہ اتنی زبردست کامیابی کے باوجود راہل نے منسٹری کیوں ٹھکرا دی۔ من موہن سنگھ کہتے ہیں کہ میں نے راہل کو وزیر بنانے کی پیشکش کی تھی اور سونیا کہتی ہیں کہ میں نے ان کو بہت منایا مگر اس معاملے میں وہ میری بات ہی نہیں مانتے۔ کانگریسی لیڈروں کا خیال ہے کہ چونکہ راہل کو آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اس لیے ان کو کابینہ میں شامل ہو جانا چاہئیے تاکہ وہ اسرار و رموز حکم رانی سے واقف ہو جائیں۔

ادھر اخباری کالموں میں بھی یہ نوجوان چھایا ہوا ہے۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی راہل راگ بجایا جا رہا ہے۔انتخابی نتائج آنے کے بعد کئی چینلوں نے راہل گاندھی اور ورون گاندھی کا موازنہ کیا اور بتایا کہ ورون صرف گفتار کے گاندھی ہیں جب کہ راہل کردار کے گاندھی ہیں۔انتخابی مہم کے دوران ورون گاندھی نے اپنی ایک تقریر میں راہل گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نام کے گاندھی نہیں کام کے گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ وہ صرف خاندانی رشتوں کی بنیاد پر گاندھی کہلانا نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام اور خدمات کی بنیاد پر گاندھی کہلانا پسند کریں گے۔

لیکن راہل کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، وہ اپنی انتخابی مہم میں جی جان سے جٹے رہے اور لفاظی کے بجائے کام کرتے رہے۔انہوں نے کبھی بھی اندارا گاندھی یا راجیو گاندھی کے وارث ہونے پر فخر کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انتہائی انکساری اور خاک ساری کا مظاہرہ کرتے رہے۔

انتخابی مہم سے قبل بھی انہوں نے ایسے کام کیے جو عوام کے دلوں میں بیٹھ گئے۔مزدوروں کی کسی بستی سے گزرتے وقت سر پر مٹی رکھ کر ڈھونا،کسی دلت کے گھر جانا، وہاں کھانا کھانا اور دلت کی چارپائی پر رات گزارنا۔یہ ایسی باتیں ہیں جو مزاج کا حصہ ہوتی ہیں اور مزاج کے مطابق ہی انسان کام کرتا ہے۔حالانکہ یو پی کی وزیر اعلی مایا وتی نے راہل کے دلت پریم کو ایک دکھاوا اور ریاکاری قرار دینے کی کوشش کی اور ایک تقریر میں یہ کہتے ہوئے ان کی اس خاک ساری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ یہ یووراج جب دلت کے گھر کھانا کھا کر یا دلتوں سے مل کر واپس اپنے گھر جاتا ہے تو اس کا شدھی کرن کیا جاتا ہے اور گنگا جل سے اسے پاک کیا جاتا ہے۔لیکن ان کی اس دلیل کو کسی نے بھی لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور الیکشن کے دوران رائے دہندگان نے مایاوتی کے اس الزام کو عملاً مسترد کر دیا۔
انتخابی نتیجہ آنے کے بعد ہر آنکھ اگر کسی کو ڈھونڈ رہی تھی تو وہ راہل گاندھی تھے۔سب سے پہلے من موہن سنگھ نے سونیا گاندھی کے گھر جا کر ان کو جیت کی مبارکباد دی اور راہل کو کابینہ میں لینے کی پیش کش کی۔اس کے بعد راہل نے کانگریس وار روم میں نوجوان ممبران پارلیمنٹ کو چائے پر بلایا۔ اس وقت بھی وہی سب کے منظورِ نظر رہے۔اس دوران منسٹری تشکیل دینے کا عمل جاری رہا اور ہر شخص یہ سوال کرتا رہا کہ راہل گاندھی وزیر بنیں گے یا نہیں۔پہلی حلف برداری میں بھی یہ تجسس برقرار رہا اور اس کے بعد بھی۔ البتہ جب دوسری توسیع ہوئی اور اس میں کئی نوجوان تو لیے گئے لیکن راہل نہیں لیے گئے تب جاکر یہ تحیر دور ہوا۔

اس موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ انہوں نے راہل کو منانے کی بہت کوشش کی لیکن اس معاملے پر وہ ان کی بات نہیں سن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس تنظیم کو زندہ اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں،لہذا وہ وزارت میں شامل نہیں ہوں گے۔کانگریس کے بعض حلقوں سے اس سے پہلے انہیں وزیر اعظم بنانے کا مطالبہ اٹھتا رہا۔ لیکن اس معاملے پر سونیا گاندھی کا فیصلہ اٹل رہا اور انہوں نے الیکشن کے دوران ہی اعلان کر دیا تھا کہ من موہن سنگھ ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ دراصل سونیا گاندھی ایک تجربہ کار اور سنجیدہ سیاست داں بن گئی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ خود عہدے کی لالچی نہیں ہیں، اس لیے اپنے بچوں کو بھی لالچی بنانا نہیں چاہتیں اور تیسری بات یہ کہ وہ جب چاہیں گی یا تو خود وزیر اعظم بن جائیں گیا یا راہل گاندھی کو بنا دیں گی، اس راہ میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔

انہوں نے جس طرح کانگریس کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کانگریس تو ختم ہو گئی تھی،اس کی تدفین کی تیاری چل رہی تھی کہ سونیا گاندھی جیسا مسیحا اس کو مل گیا جس نے اسے ایک نئی زندگی عطا کردی۔وہ جب چاہیں اس احسان کی قیمت حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہی بہت بڑی بات ہے کہ بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بنی رہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اس کردار میں ان کو جو عزت اور وقار حاصل ہے وہ وزیر اعظم بننے یا راہل کو وزیر اعظم بنانے میں نہیں ہے۔

شہرت و مقبولیت کے اوج ثریا پر فائز ہونے کے باوجود نہ تو سونیا گاندھی میں کبر و غرور آیا ہے اور نہ ہی راہل کے مزاج میں تکبر پیدا ہوا ہے۔بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح پھل آنے پر شاخ جھک جاتی ہے اور دوسروں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا مشکل نہیں رہ جاتا، کچھ ایسا ہی ان دونوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

آج اگر سب سے زیادہ موضوع گفتگو کوئی ہے تو وہ راہل گاندھی ہیں۔ لیکن یہ نوجوان انتہائی خاک ساری سے لوگوں سے ملتا ہے اور عاجزی کے ساتھ اپنی خوش احلاقی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔حالانکہ گذشتہ الیکشن میں جب راہل اور پرینکا نے انتخابی مہم چلائی تھی تو عوام نے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور انہیں طفل مکتب قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اس بار لوگوں نے انہیں نووارد میدان سیاست نہیں سمجھا، بلکہ ان کی باتوں کو سنا اور ان پر عمل بھی کیا۔بی جے پی کے ترجمان سدھارتھ ناتھ نے ان کو بچہ سمجھنے کی غلطی کی تھی اور کہا تھا کہ جو بچے الیکشن میں کلکاریاں بھر رہے ہیں وہ نتیجہ آنے کے بعد خاموش ہو جائیں گے۔ لیکن انہی کلکاری بھرنے والے بچوں نے بی جے پی اور پوری آر ایس ایس کو چپ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔

اب ذرا راہل کی پرکشش شخصیت کے ایک غزلیہ پہلو کا ذکر ہو جائے۔راہل گاندھی صرف سیاست دانوں یا عوام ہی میں مقبول نہیں ہیں بلکہ بہت سی دوشیزائیں بھی ان پر اپنی جان چھڑکتی ہیں۔ کلاسیکی شاعری میں ’چاہِ ذقن ‘ کی جسے انگریزی میں ’ڈمپل‘ کہتے ہیں، بڑی اہمیت رہی ہے اور شعرا اپنے محبوب کے رخساروں یا ٹھوڑی میں پڑنے والے گڈھے پر اپنی جان دیتے رہے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور آج بھی اسے حسن کی اضافی خاصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔راہل گاندھی بھی اس خاصیت کے مالک ہیں اور یونیورسٹی اور کالج کی بہت سی طالبات ان کے حسن پر اور بالخصوص ’چاہِ ذقن‘ پر فدا ہیں۔شائد ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں راہل نے اس خوبی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

Thursday, May 14, 2009

دہلی میں ایک شام ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے نام

سہ ماہی ادبی جریدہ ’ادب ساز‘ کے مدیر نصرت ظہیر کہتے ہیں:’ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن کی تفہیم اردو ادب میں ان کی اس انفرادیت کے سبب بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ پہلے انہوں نے اردو فکشن میں نام کمایا، اپنے عہد کے سبھی بڑے فکشن نگاروں سے اپنے فن کا لوہا منوایا اور پھر یک لخت اس تمام شہرت و مقبولیت کو دامن سے جھاڑ کر وادیِ شعر کی طرف ہجرت کر گئے کہ ہجرت چاہے زمینی ہو یا ادبی، ان کے لیے پہلے سے مقرر تھی۔۔۔اور اردو شاعری کی اس دنیا میں بھی جو پہلے ہی ضرورت سے زیادہ گنجان آباد تھی،وہ ایک نمایاں اور محترم مقام بنانے میں کامیاب رہے‘
اور جب گیارہ مئی کو دہلی کے غالب انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹرستیہ پال آنند کے نام ایک خوبصورت شام منائی گئی تو ان کے فکشن پر بھی جم کر بحث ہوئی، ان کی شاعری پر بھی ہوئی اور ان کی ہجرت پر بھی ہوئی۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جناب آنند نے فکشن میں خوب نام کمایا اور بڑے اور اپنے عہد کے قدآور فکشن نگاروں سے خراج تحسین وصول کیا۔ لیکن پھر جانے کیوں انھوں نے فکشن کی وادی کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کو افسانہ نگاری ترک کیے ہوئے کم و بیش بیس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج بھی ان کے افسانوں پر بحث ہوتی ہے اور ان کے کرداروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اس موقع پر ایک اہم بات اور سامنے آئی کہ گرچہ انھوں نے بیس سال قبل وادی نثرسے ہجرت کر لی تھی لیکن آج بھی وہ جب چاہیں اس وادی میں خرام ناز کر سکتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کا وہ افسانہ پیش کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اسی موقع کے لیے ایک روز قبل لکھا تھا اور جسے سنا کر انہوں نے مخصوص اور منتخب سامعین سے داد و تحسین کے پھول وصول کیے۔
اس افسانے میں انہوں نے اپنا ہی کردار پیش کیا ہے اور اپنی ہجرت اور اس کے کرب کو انتہائی خوبصورت کنائے میں پیش کیا ہے۔اس موقع پر جب انہوں نے اپنا کلام سنانے کا آغاز کیا تو اس کرب کا بھی ذکر کیا جو ان کی اہلیہ کے انتقال پر ان کو برداشت کرنا پڑا تھا۔وہی کرب اس افسانے میں بھی محسوس کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ہجرت کی اذیت میں دوسروں کو بھی غیر محسوس طریقے سے شامل کر لیا۔اور اسی کے ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔وہ جائیں گے اور ضرور جائیں گے۔ اس افسانے میں ان کا ماضی بھی موجود ہے اور حال بھی اور مستقبل کی نادیدہ شام بھی۔کیونکہ وہ بہت پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ’ میں کوٹ سارنگ (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے‘۔ لہذا ان کے لیے واپس اپنے ملک آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور وہ نہ بھی آئیں تب بھی رہتے اپنے ملک ہی میں ہیں۔
اس خوبصورت شام کا اہتمام غالب انسٹی ٹیوٹ اور ادب ساز لٹریری فورم نے کیا تھا اور اس میں شہر کی چنندہ ادب نواز شخصیات نے شرکت کی۔ڈاکٹر وسیم راشد کی خوبصورت نظامت میں مجلس کے صدر سید شاہد مہدی، سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے کلام پر جامع گفتگو کی اور کہا کہ ان کی نظم نگاری پر اتنا کام نہیں ہوا ہے جتنا کہ ہونا چاہئیے۔انہوں نے اسی کے ساتھ ادب کے تقابلی مطالعے پر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس موقع پر ستیہ پال آنند کی ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔
عہدِ حاضر کے ابھرتے ہوئے نقاد اور اردو استاد ڈاکٹر مولی بخش اسیر نے ستیہ پال آنند کی نظموں کے حوالے سے نظم نگاری کے مختلف پہلووٴں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر کی ابتدا صاحبِ شام کے افسانوں پر اظہار خیال سے کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند حقیقت کو افسانہ بنانے کے ہنر میں طاق ہیں۔کیونکہ حقیقت تفہیم سے بالاتر ہوتی ہے اور افسانہ بہت جلد سمجھ میں آجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کا افسوس نہیں ہونا چاہئیے کہ جناب آنند نے فکشن کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ اگر ایک طرف انہوں نے ایسا کیا تو دوسری طرف انہوں نے نظم نگاری کی وادی کو اپنا لیا۔ان کا کہنا ہے کہ نظموں کی طرف ان کی مراجعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ بات جان چکے تھے کہ نظم کیا ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔
مولی بخش اسیر نے نظم کو دیے کی لو قرار دیا اور کہا کہ نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ جناب آنند نے پہلے غزلوں کی وادی کی سیر کی،اس کے بعد وہ نظم کی طرف مڑے۔ بقول ان کے نظم کی ابتدا ثقافتی ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے نظیر اکبر آبادی کی مثال پیش کی اور کہا کہ انہوں نے بھی پہلے غزلیں کہی تھیں اور بعد میں نظم کی طرف مراجعت کی۔مولی بخش اسیر نے جناب آنند کے افسانوں اور نظموں میں اساطیری کرداروں پربھی کھل کر اظہار خیال کیا
۔ادبی تحریکات اور شخصیات کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرنے والے فاروق ارگلی نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر ایک مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ستیہ پال آنند کی تحریریں مغربی دنیا میں دور دور تک اپنی تابانی بکھیر رہی ہیں اور انہوں نے اجتہادی ادبی سفر میں اور فکر و فن کی وادی میں نئے راستے تلاش کیے ہیں اور نادر روزگار اسالیب و تراکیب سے ادب کو مالامال کیا ہے۔بقول ان کے اردو ادب میں ستیہ پال آنند نے بیش بہا اضافہ کیا ہے۔انہوں نے تخلیقی بصارتوں اور فکری بصیرتوں کے پھول کھلائے ہیں اور انہیں مغربی رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔بقول فاروق ارگلی ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنی طرز کے موجد بھی ہیں اور ابھی تک خاتم بھی ہیں۔وہ رجحان ساز ہیں اور کثیر الجہت فنکار ہیں۔
ماہر تعلیم، ادیب اور صحافی اطہر فاروقی، بلراج کومل دیویندر اسرّ اور شاہد ماہلی نے بھی ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان سے اپنے دیرینہ رشتوں کی لویں روشن کیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند 24اپریل 1931ءکو کوٹ سارنگ ضلع چکوال، پنجاب (اب پاکستان) میں پیدا ہوئے۔انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تقسیم کے وقت وہ ہندوستان آگئے۔ لیکن ان کی ہجرت یہیں ختم نہیں ہوئی۔1988ءمیں وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ستیہ پال آنند 1961ءسے1971ءتک پنجاب یونیور سٹی میں شعبہ انگریزی میں لیکچرر اور ریڈراور ہیڈ رہے۔ بعد میں وہ 1971ءسے 1983ءتک پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں ڈائرکٹوریٹ آف کارسپانڈنس کورسز کے ڈائرکٹر رہے۔اس کے علاوہ وہ سعودی عرب میں 1992ءسے1994ءتک بطور تعلیمی مشیر خصوصی و پروفیسر انگریزی رہے۔ان کے ایک درجن سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور تقریباً دس شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے تراجم کے کام بھی خوب کیے ہیں۔جبکہ مختلف انعامات اور اعزازات سے بھی مالامال ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند تقابلی ادب کے استاد ہیں اور انگریزی میڈیم سے اردو پڑھانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔انہیں اکثر و بیشتر مختلف ملکوں میں لیکچر کے لیے اور مختلف پروجکٹوں پر کام کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آنند کہتے ہیں کہ ان کے انہی اسفار کے سبب ان کے دوستوں نے انہیں ’ائیر پورٹ پروفیسر‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔’
ادب ساز‘ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند پر ایک قابل قدر گوشہ شائع کیا ہے جو ان کے فکر و فن کو سمجھنے میں معاونت کرے گا۔ اس گوشے میں ان کے فکشن کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کا بھی۔اس کے علاوہ روز نامہ جنگ میں شائع ان کا ایک انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بہت ہی عمدہ گفتگو کی ہے اور ادب کی مختلف تحریکوں اور رجحانات کے علاوہ اپنے ادبی نظریے پر بھی کھل کر بات کی ہے۔اسی انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:میں کوٹ سارنگ سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔میں اس کی فضا میں سانس لیتا ہوں اور اس میں جیتا ہوں اور اس کی یادوں کے سہارے یہ میرا ایک اٹوٹ انگ ہے۔۔۔اپنی زندگی کے اس حصے کو میں بتدریج بدلتے ہوئے ضرور دیکھتا ہوں۔لیکن ختم ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا۔اس لیے میں نے جلا وطنی کا کرب 1947میں تو محسوس کیا، بعد میں اس کی شدت کم ہوتی چلی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:مغربی طلبہ اردو کے رسم الخط سے ناواقف ہیں۔۔۔سبھی طلبہ انگریزی کی مدد سے دنیا کا ادب پڑھتے ہیں۔روسی، فرانسیسی، اطالوی، جرمن،جاپانی، چینی یا افریقی سبھی صرف اور صرف انگریزی کے توسط سے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کون سی اصناف ادب ترجمے کی زد میں آ سکتی ہیں۔ میرے خیال میں(اور میرے تجربے کی بنا پر)شعری ادب میں نظم ہے اور فکشن میں افسانہ۔میں نے وہاں انہی دو اصناف کے حوالے سے اردو ادب کو متعارف کروانے کی کوشش کی ہے اور میں اس کام میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔
غزل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:میں کون ہوتا ہوں یہ حکم صادر فرمانے والا کہ غزل جاری رہنی چاہئیے یا نہیں۔لیکن یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ غزل پر جتنا زور اس وقت صرف کیا جا رہا ہے یا گذشتہ دو تین صدیوں سے کیا جا رہا ہے،اسے Perspectiveمیں رکھ کر Hind Sightسے کچھEvaluationکریں تو بہتر رہے گا کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔بلکہ یوں کہئے کہ اگر یہ زور اس حد تک صرف نہ کیا جاتا تو ہم کیا کچھ پا سکتے تھے، جو ہم نے نہیں پایا اور اس لیے کھو دیا۔یہی ایک صنف ہے جو اسٹیج کی سب سے اونچی کرسی پر قابض ہے۔یہاں تک کہ دوسری اصناف سخن مثنوی، مسدس،رباعی، قطعہ، مخمس، شہر آشوب جیسی اصناف کو بھی غزل کھا گئی اور یہاں تک ہوا کہ اس کے اثرات نظم میں وارد ہو گئے۔میں غزل کو Literatureنہیں کہتا،Orature کہتا ہوں۔یعنی شاعر بھی اسے کلام یا سخن کہتا ہے، تحریر نہیں کہتا۔غزل کہی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہے،سنی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے۔یہ خود بخود بننے والی شے نہیں ہے، بنائی جانے والی چیز ہے۔اس میں آورد کا عنصر زیادہ ہے آمد کا کم ہے
۔اس گوشے میں وزیر آغا،بلراج کومل،آصف علی، شکیل الرحمن،گوپی چند نارنگ،فیصل عظیم،حقانی القاسمی،پریم کمار نظر،احمد سہیل،ریاض صدیقی، سید خالد حسین اوراعجاز راہی کی تخلیقات شامل ہیں جن میں ستیہ پال آنند کی نظم نگاری اور افسانہ نگاری پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔جب کہ ستیہ پال آنند کے نام کالی داس گپتا رضا مرحوم کا ایک خط شائع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جناب آنند کا منتخب کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔مزید براں فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، ملک راج آنند، خواجہ احمد عباس،کرشن چند، موہن راکیش، راجندر سنگھ بیدی،رام لال،جوگندر پال،دیویندر ستیارتھی،اختر انصاری اکبر آبادی اور وشنو پربھاکر وغیرہ جیسے مشاہیر کی آرا بھی اس میں شامل کی گئی ہیں۔Keywords: satyapal anand, urdu, poet, nazm, delhi, evening

Friday, May 8, 2009

قمر رئیس کے انتقال سے ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا خاتمہ


پروفیسر قمر رئیس کے انتقال سے نہ صرف ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا حاتمہ ہو گیا ہے بلکہ دہلی کی علم و ادب کی فضا بھی سونی ہو گئی ہے۔وہ محتصر علالت کے بعد 29اپریل کو دہلی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 77سال تھی۔قمر رئیس کی پیدائش جولائی 1932ءمیں شاہجہان پور میں ہوئی تھی اور تدفین بھی وہیں ہوئی۔انہوں نے لکھنوٴ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا اور پھر مسلم یونیورسٹی سے 1959ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال وہ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں لیکچرر ہوئے اور پھر ریڈر،پروفیسر اور صدر شعبہ بنے۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔وہ ترقی پسند ادیبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور کم و بیش دودرجن کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کا بنیادی کام پریم چند پر تھا۔وہ گذشتہ تین سال سے دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین تھے۔انہوں نے نہ صرف ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے بلکہ اردو کے خادم کی حیثیت سے بھی کافی نام کمایا تھا۔ ان کی کوششوں کی بدولت ابھی حال ہی میں دہلی میں اردو کے 28اساتذہ کی تقرری کو مستقل کیا گیا ہے۔پروفیسر قمر رئیس تاشقند میں پانچ سال تک انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر رہے۔وہ پانچ بار انجمن اساتذہ اردو جامعات کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ انہوں نے 18سال تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی حدمات انجام دیں۔وہ اردو کے پہلے پروفیسر تھے جنہیں یو جی سی نے نیشنل لیکچرار کے اعزاز سے نوازا تھا۔اس کے علاوہ 2001ءمیں تاشقند یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی۔دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین کی حیثیت سے سابق ممبر پارلیمنٹ اور ترکمانستان میں ہند کے موجودہ سفیر جناب م افضل کے بعد اردو اکیڈمی کو سرگرم کرنے میں انہوں نے سب سے نمایاں رول ادا کیا تھا۔ان کے انتقال پر اردو حلقوں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے اور ان کی خدمات کو یاد کیا جا رہا ہے۔معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے قمر رئیس کے انتقال پر کہا ہے کہ ان کے اٹھ جانے سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔وہ ترقی پسندی کے سنہرے دور کی یادگار تھے اور ترقی پسندوں کے ہراول دستے کے سرگرم رکن بھی تھے۔قمر رئیس نے علی سردار جعفری کے بعد ترقی پسند تحریک کے لیے تاریخی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر نارنگ نے کہا کہ انہوں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دہلی یونیورسٹی آجائیں جس پر انہوں نے عمل کیا۔مرحوم تنظیمی طور پر نہایت فعال شصد تھے۔وہ دوسروں سے کام لینے کا ہنر بھی جانتے تھے۔دہلی اردو اکیڈمی میں ان کی خدمات تاریخی نوعیت کی رہیں۔ان کے انتقال سے جو ادبی خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پر نہیں ہوگا۔پروفیسر نارنگ نے مزید کہا کہ قمر رئیس ترقی پسندی سے وابستگی کے باوجود انتہا پسندی سے ہمیشہ دور رہے اور ترقی پسند افسانوی کے اولین مجموعے ’انگارے‘ پر اعتراض کے ذریعے انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا تھا،جس میں بعض اسلامی روایات پر تنقید ان کے نزدیک قابلِ تائید نہیں تھی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ قمر رئیس نہ صرف ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے بلکہ انہوں نے بیرون ملک اردو کی ترویج و ترقی میں بھی اہم رول ادا کیا تھا۔تاشقند میں انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔قمر رئیس جہاں بھی رہے، انہوں نے وہاں اپنی چھاپ چھوڑی اور اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے نمایاں کام کیے۔کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین نے بھی قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا قرار دیا ہے۔انجمن کے جنرل سکریٹری اور دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں ریڈر علی جاوید کے مطابق پروفیسر قمر رئیس آخری عمر تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہے اور ترقی پسند تحریک کی آبیاری کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قمر رئیس کو انجمن کے بانی سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، اعجاز حسین، احتشام حسین، رشید احمد صدیقی، اور آل احمد سرور جیسے ادیبوں اور دانشوروں کی سرپرستی حاصل رہی۔انہی اکابرین کی سرپرستی میں انہوں نے نہ صرف نظریاتی پختگی حاصل کی بلکہ ایک سرگرم تنظیم کار بھی بنے۔بقول علی جاوید قمر رئیس نے دہلی میں قیام کے دوران انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک فعال انجمن بنایا۔انہوں نے طلبہ کی ایک نسل کو نظریاتی تربیت دینے کا بھی کام انجام دیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ قمر رئیس اپنی زندگی اور فن کے حوالے سے انسانی اقدار کے نمائندہ تھے۔آپ کی صلاحیت کے معترف نہ صرف ہند وپاک کے دانش ور رہے بلکہ حکومت تاشقند نے بھی آپ کی گراں قدر خدمات کے لیے آپ کو اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔قومی کونسل برائے فرروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ نے کہا کہ قمر رئیس جس مکتب فکر کی نمائندگی کرتے تھے اس نے اردو ادب کو زندگی کا ترجمان بنانے کی بڑی موثر کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ قمر رئیس ایک بالغ نظر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ خوش فکر شاعر بھی تھے۔منشی پریم چند پر ان کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کچھ عرصہ قبل قمر رئیس کی شاعری کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا تھا جو اردو نظم کے سرمایے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر شمس الحق عثمانی کے مطابق قمر رئیس فرض شناسی کے پیکر اور طلبہ کے لیے رول ماڈل تھے۔ جب کہ سابق صدر شعبہ پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی کے مطابق وہ صرف ادیب ہی نہیں بلکہ سماجی مصلح بھی تھے اور بطور ادبی سفارتک ار ان کی نہایت غیر معمولی خدمات تھیں۔پروفیسر قمر رئیس کے انتقال پر جے این یو، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور متعدد کالجوں اور اردو کی ادبی تنظیموں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے۔جن میں پروفیسر قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا تصور کیا جا رہا ہے۔
Keywords: qamar rais, obituary, urdu, poet, critic, progressive writers movement, taraqqi pasand

Saturday, May 2, 2009

علامہ اقبال نے اردو زبان و ادبیات کو آفاقی وسعتوں سے ہم کنار کیا: ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق

پروفیسر عبد الحق ماہرینِ اقبالیات میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ دہلی یونیو رسٹی میں شعبہٴ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں اقبالیات پر لیکچر دینے کے لیے ملک و بیرون ملک میں مدعو کیا جاتا ہے۔

شاعر مشرق،حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی برسی ابھی ابھی گزری ہے۔ اس موقع پر دہلی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں اقبال پر لیکچر اور پرگراموں کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پرپروفیسر عبدالحق کو بھی مختلف شہروں میں اقبالیات پر لیکچر کے لیے مدعوکیا گیا۔اس مناسبت سے انہوں نے اردو وی او اے ڈاٹ کام کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں علامہ اقبال کی شخصیت،ان کے افکار و نظریات،فن و فلسفے اور شاعری پر کھل کر اظہار خیال کیا اور بہت سے مخفی گوشوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے علامہ اقبال کے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علامہ آزادی کے علم بردار، مزدوروں کے ہم نوا اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ انہوں نے جب 1904میں نظم ’تصویرِ درد‘لکھی تو وہ اردو ادب میں پہلی للکار تھی جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو خطراتِ افرنگ سے ہوشیار کیا تھا۔انہوں نے تحریک آزادی میں مختلف پہلوؤں سے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے گیت بھی گائے۔عوام کے درمیان اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لیے جھنجھوڑا بھی۔انگریزوں کو سب سے پہلے اقبال نے ہی چنگیز کہا تھا اور عوام کو مغرب کی فسوں کاری سے باخبر کیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ لکھتے:

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے 
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوٴگے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں


پروفیسر عبد الحق بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال نے حصول آزادی کے لیے تین محاذ قائم کیے تھے:

اول:ہند کی عظمت کا احساس دلانا۔
دوم:مختلف فرقوں کے درمیان محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنا۔
سوم:انگریزوں کے خلاف برسرپیکار ہونا۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1904ءمیں ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ لکھا۔ اس میں ملک کی عظمت کا بھی بیان ہے اور اخوت و محبت کا درس بھی ہے۔محبت کا جذبہ پروان چڑھانے کے لیے اقبال نے کہا:

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طورہوتا ہے

ڈاکٹرعبدالحق کے مطابق اردو ادبیات میں علامہ نے سب سے پہلے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے:اٹھو، جاگو، رست خیز، برخیز،انقلاب،از خواب گراں خواب گراں خواب گراں، کمر بستہ ہونا، کفن بدوش ہوناوغیرہ۔  اقبال کی شاعری احتجاجی پیغام کی شاعری ہے۔انگریزی اقتدار کے خلاف جتنی شدت سے جدوجہد اقبال کے یہاں ہے کسی اور کے یہاں نہیں ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے خلاف سب سے پہلے اردو ادبیات میں اقبال نے آواز اٹھائی۔

علامہ اقبال کی ادبی فکر پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علامہ صالح فکر کے طرف دار تھے اور کہا کرتے تھے کہ فکر کی گمراہی انسان کو حیوان بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے،جب کہ صحت مند فکرکی تازہ کاری سے ہی قوت عمل مرئی پیکر وجود میں نمودار ہوتی ہے۔ جہان تازہ کی تخلیق کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس بدیہی حقیقت کے بعد تدبیر یا فکر پر پابندی عائد کرنا مہلک ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا ہے :

ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے،ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب

انہوں نے مزید کہا کہ تصوراتی سطح پر فکر کے ساتھ ادب بھی وسعت طلب ہے۔کسی بھی تحریک کے زیر اثر تخلیق پانے والا ادب بھی اسی زمرے میں شامل ہے جو ادبی مطالبات بھی پورے کرتا ہے اور دین و دانش کی اقدار کی قندیل بھی روشن کرتا ہے۔دوسری طرف وہ ادب ہے جس کا حصہ اقدار کا حامل تو ہے مگر ادبی یا جمالیاتی انبسات سے خالی ہے۔اقبا ل نے اشارہ کیا ہے:
 
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی

بقول عبد الحق اقبال نے بار بار حوالوں سے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ شاعری، صورت گری اور داستان سرائی تمام فنون لطیفہ انسانیت کی تعمیر میں معاون ہوں تو قابلِ قبول ورنہ بصورتِ دیگر قابلِ نفریں ہیں۔فن کا مقصد دائمی انبساط و عرفان کی بخشش ہے۔وہ فن جو خواب آور ہو اور خیالات میں گم ہو جانا سکھاتا ہو مذموم ہے۔اقبال نے تاکید کی تھی کہ وہ فن زہرناک ہے جو:

روح کو کرتے ہیں خوابیدہ بدن کو بیدار
یا
جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا وہ ہنر کیا

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر عبد الحق نے کہا کہ مطالعہ اقبال کی مختلف اور متنوع تعبیریں ہمیں سرشار کرتی ہیں اور ہماری حیرتوں میں اضافے کا موجب بھی بنتی ہیں۔ہم اپنی سہولتوں اور سوچ کے مطابق اقبال کو زمان ومکان میں رکھ کر تفہیم کو آسان بنا لیتے ہیں۔اقبال بھی استفہامیہ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ کبھی شاعرِ مشرق تو کبھی شاعرِ فردا پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ نغمہ سرایانِ ہند ہیں مگر آہنگ حجازی کی ترجمانی کرتے ہیں۔وہ خیابان کشمیر کے پروردہ ہیں مگر روئے زمین کے کسی بھی حصے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ہماری نظر صرف ایشیا تک گئی، حقیقت یہ ہے کہ وہ ان حدود سے آزاد ہیں۔ امروزو فردا یا ایشیا بلکہ اس خاک داں سے کنارہ کشی کا وہ اعلان بھی کرتے ہیں اور حوروں اور فرشتوں کو اسیر کرتے ہیں:

یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

پروفیسر عبد الحق کا کہنا ہے کہ ہم نے اقبال کی بیکراں بصیرت سے چشم پوشی کی ہے۔یہ نہ جانا کہ اقبال کی فکر و نظر پردہٴ وجود کو چیر کر تقدیر عالم کو بے حجاب دیکھتی ہے۔ان کی دروں بینی کائنات کے ماہ و سال کی تقویم ساز قوت رکھتی ہے اور ارض و سما کی پراسرار کیفیات کی رازدار ہی نہیں نگہ داری بھی کرتی ہے۔ اقبال روئے زمین کے تمام باشندوں کو خطاب کرتے ہیں۔ اس عمومی آواز میں کسی تفریق کو دخل نہیں۔  انقلابی آواز کے مخاطب تمام انسان اور سبھی آفاقی جہات ہیں:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ

اقبال کی شعری خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جس کی نظیر عالمی ادب میں شایدہی ملے۔ان کا کلام عصری واقعات و حادثات کا جام جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں۔دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔اردو زبان آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی۔ جبکہ دوسرے ادب محدود تصورات میں پابند زنجیر رہے۔

ڈاکٹرعبد الحق نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کی تخلیقات میں تیرہ سو سے زائد آثار و اماکن کے حوالے ہیں۔ ان کے کلام میں ایشیائی ملک و ملت کے علاوہ دوسرے ممالک کے نام بھی موجود ہیں۔ جیسے امریکہ، اندلس،انگلستان، جاپان، جرمنی، فرانس،مصر، ولایت، ہسپانیہ،یورپ اور یونان وغیرہ۔ان ملکوں اور شہروں کی تاریح و تحریک پر اور عصری کوائف پر اقبال کی نظر ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ان کے بیانات کا یہ عالمی منظرنامہ ان کی بصیرت کے یقین کے لیے کافی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کے قلب و نظر کو اس بر اعظم سے جو شیفتگی ہے وہ کسی دوسرے خطہ ارض سے نہیں ہے۔اقبال اور ان کے اسلاف کا مسکن و مدفن ہونے کے ساتھ ان کی تاریخ و تہذیب کا عروج و زوال بھی اسی خاک وخمیر سے وابستہ رہاہے۔ان کے سوز و ساز میں یہی ایشیا ہے جو روح جان وتن ہے:

سوز و ساز و درد و داغ از آسیاست
ہم شراب و ہم ایاغ از آسیاست

لیکن اقبال کو یورپ کے ہاتھوں ایشیا کا استحصال برداشت نہیں۔یورپ میں تین سال کے مختصر قیام نے ان کو ایک نئی آگہی بخشی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی اقوام کے ساتھ مغربی فکر و فسوں کی عیاری کے دل خراش مشاہدات سے بھی اقبال متنفر ہوئے تھے۔ ہندوستانی ادبیات میں یورپ کے خلاف اقبال کا یہ پہلا اعلانیہ تھا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

پروفیسر عبدالحق کا کہنا ہے کہ روسی انقلاب کو آفریں کہنے والے اقبال ہندوستانی ادبیات میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی بصیرت سے محکوم ایشیائی اقوام کے لیے اسے نوید صبح آزادی سمجھا۔لیکن وہ ایک طرف جہاں مغرب کی فسوں کاری سے مضطرب تھے وہیں مصطفی کما ل پاشا کے سیاسی نظریات سے د ل گرفتہ بھی تھے۔ جبھی تو انہوں نے کہا:

اگر عثمانیوں پرکوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

ڈاکٹر عبد الحق نے افغانستان اور فلسطین کے بارے میں بھی اقبال کے نظریات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ اقبال یہ کہنے پر مجبورہوئے:

خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

انہوں نے عرب و عجم کے حوالے سے اقبا ل کے نظریات پربھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی بصیرت آج کی صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی۔انہیں اس کا شکوہ تھا کہ امیر عرب صرف نام و نسب کا حجازی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ حجازی ہے نہ غازی۔یہی شیخ حرم ہے جو گلیمِ بوذر اور چادرِ زہرا کو بیچ کھاتا ہے۔انہوں نے امت عربیہ کے ضمیر کو بھی للکارا تھا اور انگریزوں کی فسوں ساز حکمت عملی سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923ءمیں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا:

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی

انہوں نے عربوں کی لوحِ تقدیر بھی پڑ ھ لی تھی اور بقول عبد الحق سرزمین عرب اقبال کے فیض نظر سے محروم رہی۔ مغربی آقاوٴں کی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔البتہ تھوڑی جنبش ضرور پیدا ہوئی اور اقبال کے اشعار کے تراجم اور مختلف تحریروں نے ایک تحریک پیدا کی اور پھر 1933ءمیں طارق بن زیاد کی دعا مستجاب ہوئی:

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

عراق و حجاز کی طرح اقبال کو ایران سے بھی ایک گہری جذباتی وابستگی تھی۔وہ مطمئن تھے کہ ان کا پیغام ایران میں پہنچ چکا ہے۔علامہ اقبال عالمی امن کی خاطر جنیوا میں اقوام متحدہ کے قیام سے مطمئن نہ تھے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا:

تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہٴ ارض کی تقدیر بدل جائے

اقبال کو افغانستان اور کشمیر سے بھی جذباتی وابستگی تھی۔وہ کابل کو دہلی پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ دہلی محکوم تھا اور کابل آزاد۔افغانستان اور وہاں کے جیالے نوجوانوں کے بارے میں اقبال نے متعدد اشعار اور نظمیں کہی ہیں۔

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
 کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا:

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں، ابھی خودی پہچان
ابھی خودی پہچان
او غافل افغان 

ادھر کشمیر کی تحریک آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کو شروع سے ہی دخل رہا ہے۔اقبال کو آتش چنار کی تمازت سے بڑی امیدیں تھیں:

جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

پروفیسر عبدالحق کہتے ہیں کہ علامہ نے 1936ءمیں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب یہودی نظام فکر و عمل کی صورت میں ہر محاذ پر حاوی ہوگا۔سب سے پہلے عیسائی اس کی زد میں ہوں گے، کلیساوٴں کے متولی یہودی ہوں گے اور مقتدی عیسائی ہاتھ باندھ کر ان کی امامت قبول کریں گے۔ساحل چین سے بحر روم تک انسانوں کی ہئیت اجتماعیہ کا تصور انہیں اکثر تڑپاتا رہا۔یہ اضطراب کسی نہ کسی حد تک موثر ہوا اور 1947ءکے بعد ترکی، ایران اور پاکستان کے علاقائی تعاون کی تنظیم نے جنم لیا۔ مسلم ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے متحدہ اداروں کے قیام میں بیداری کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔سارک ممالک کا اتحاد وجود میں آیا۔جنوب مشرقی ممالک میں تعاون کی انجمن قائم ہوئی۔ روس نے اپنے حلیف ملکوں کی دولت مشترکہ بنائی اور افرو ایشیائی ممالک کے باہمی اتحاد کی صورت بھی پیدا ہوئی۔

 Keywords: allama iqbal, urdu, poet, professor abdul haq, iqbaliologist, iqbal