Sunday, March 29, 2009

Present Urdu Poetry

ادب ایک بہتا ہوا دریا ہے جو کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے:گوپی چند نارنگ


March 24, 2009


ادب پرانے ادوار کی نام نہاد مقصدیت اور لایعنیت دونوں سے آگے نکل آیا ہے اور غزل چونکہ رمزیہ و ایمائی شاعری ہے، اس لیے اس میں یہ تبدیلی نسبتاً تہہ نشین ہے۔البتہ نظمیہ شاعری میں بدلتے ہوئے نقوش واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ادب تو بہتا ہوا دریا ہے جو کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے۔‘

ان خیالات کا اظہار ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ساہتیہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں کیا ہے جو معاصر اردو شاعری کے موضوع پر منعقد ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ادبی منظر نامے میں بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔موجودہ عہد نظریوں کے رد کا دور ہے۔ مابعد جدیدیت ادب کو ایجنڈا یا لائحہ عمل دینے کے خلاف ہے۔تعجب ہے کہ وہی لوگ جو تنقید کی بالادستی کی شکایت کرتے ہیں تنقید سے پروگرام دینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ ادیب کو پروگرام دینا اس کی آزادی کو ختم کرنا ہے کیونکہ ہر نظریہ ادعائیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ بعینہی ایسا ہے جیسے ریشم کا کیڑا اپنے گرد جالا بنتا ہے اور بالآخر اسی میں گھٹ کر مر جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے اپنے افتتاحی خطبے میں کہا کہ نیا عہد ادیب سے فقط یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر خود اپنے ذہن و شعور سے سوچے اور دانشوری کی نئی فکریات کی روشنی میں اپنی اقداری ترجیحات خود طے کرے۔انہوں نے کہا کہ زبان و فن کے وسائل پر قدرت اور روایت سے آگہی ہمیشہ سے لازم رہی ہے۔ البتہ اجنبیت، بیگانگی، بے معنی علامیت اور اشکال پسندی کا زمانہ گزر گیا۔ادب پھر سے اپنے قاری سے جڑنے لگا ہے اور زندگی اور سماجی مسائل سے بے تعلقی بھی ختم ہو رہی ہے۔سماجی سروکار اور آئڈیا لوجی کا مطلب کسی دئے ہوئے ایجنڈے یا پارٹی لائن کی پیروی نہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ تخلیق کار سماجی بے انصافی کے خلاف آزادانہ اپنے منصب کا استعمال کرے اور ثقافتی تشخص یا تہذیبی جڑوں پر اصرار بھی اسی راہ سے ہے۔انہوں نے تخلیق کاروں کو تازہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے ولی کا یہ شعر پڑھا:

راہِ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن

اس موقع پر مہمان خصوصی اور معروف شاعر مظہر امام نے کہا کہ ادب کا مطالعہ دل جمعی کے ساتھ کیا جانا چاہئیے۔انہوں نے نئے اسالیب اور نئے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے نئی شاعری کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔

کینیڈا سے آئے ہوئے محقق، نقاد اور شاعر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے معاصر اردو شاعری کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ معاصر اردو شاعری کسی بھی نوع کی بالا دستی اور نظریاتی حصار کے خلاف ہے۔موجودہ ادبی منظرنامے میں جو شاعری پروان چڑھ رہی ہے وہ اپنی اقداری ترجیحات خود طے کر رہی ہے اور آج کی شاعری پوری طرح معیاری ہے۔تقی عابدی نے مزید کہا کہ ہمارے آج کے شعرا آزادانہ فکر و خیال کی ترجمانی میں یقین رکھتے ہیں اور تمام تر قیود بند سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ثقافتی تشخص اور تہذیبی جڑوں پر اصرار ان کا تخلیقی رویہ بن چکا ہے۔معاصر اردو شاعری سے جو لوگ مایوس ہیں انہیں اپنی رائے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

دہلی یونیورسٹی میں سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر صادق نے کہا کہ اردو غزل مقبول ترین صنف ہے۔ آج ہندوستان کی تمام زبانوں میں غزلیں کہی جا رہی ہیں،حتیٰ کہ سنسکرت میں بھی غزلیں کہی جا رہی ہیں۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ اردو کے صدر پروفیسر ابو الکلام قاسمی نے معاصر اردو شاعری میں خواتین شعرا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاصر شاعرات مختلف جہات سے ادبی منظرنامے پر اپنے استحقاق اور شناخت کے لیے جہدِ مسلسل میں مصروف ہیں۔پرانی شاعرات نے حسن و عشق،دلکشی اور شمع محفل بنے رہنے کو پیش نظر رکھا تھا مگر آج کی شاعرات ساری دنیا میں اپنی حیثیت، سماجی، تہذیبی اور ادبی برابربی کے لیے ہر طرح سے کوشاں ہیں۔دراصل یہ فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ مابعد جدید رویوں سے مربوط ہے۔ اس لیے نظر انداز کیے جانے والے طبقات کو جو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان میں عرصے سے نظر انداز کی جانے والی عورت کو اب بدلتی ہوئی صورت حال میں اپنے رد عمل کا اظہار کیسے کرنا چاہئے، اسی باعث ان کے یہاں جارحیت بھی ہے، حق طلبی بھی ہے،احتجاج اور تلخی بھی ہے۔اس سے قبل انہوں نے ’اردو غزل کا جدید اور مابعد جدید منظرنامہ‘ پر عمدہ مقالہ پیش کیا۔

نظام صدیقی نے نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات کے موضوع پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کی شاعری معیاری ہے اور اس نسل سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

اس سہ روزہ سیمینار میں جو مقالے پیش کیے گئے ان کی تفصیل یوں ہے:

معاصر اردو غزل کے امتیازات(اجے مالوی) 80 کے بعد اردو غزل کا تنقیدی جائزہ(سیفی سرونجی)،معاصر اردو نظم ایک تنقیدی جائزہ(ڈاکٹر انور پاشا)، معاصر اردو نظم کے اہم نشانات(ڈاکٹر شہزاد انجم)،80 کے بعد کی نظم اور اس کا اسلوب(ڈاکٹر کوثر مظہری)،80 کے بعد اردو نظم کا منظرنامہ (ڈاکٹر خالد محمود)80کے بعد آزاد نظم (ارتضیٰ کریم)،80کے بعد نثری نظم( امتیاز احمد)،برصغیر کی معاصر خواتین: امتیازی نشانات(چودھری ابن انصیر)، تانیثیت اور معاصر اردو شاعری(حقانی القاسمی)،ہندوستان کی اہم معاصر خواتین شعرا اور ان کے مسائل(وسیم بیگم)،بر صغیر کی معاصر اردو شاعری اور عصری مسائل(شمیم طارق)،بر صغیر کی معاصر اردو شاعری میں دلت رجحان(محمد شاہد پٹھان)۔

اس سہ روزہ سیمینار میں ملک و بیرون ملک کی معتبر اردو شخصیات نے شرکت کی۔تینوں روز شام کے وقت مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا۔

Keywords: sahitya academy, seminar, gopi chand narang, abul ul kalam qasmi, urdu, literature

Publisged at VOAnews.com at http://www.voanews.com/urdu/2009-03-24-voa14.cfm 

Monday, March 9, 2009

Intezaar Husain


انتظار حسین ہند و پاک کے درمیان پل ہیں: دہلی میں تقریب


انتظار حسین کا فن کوئی پیچیدہ سائن بورڈ نہیں ہے۔وہ کسی نظریہ یا کسی فکر کی گرفت میں نہیں ہے۔ انتظار حسین نہ تو ترقی پسند ہیں اور نہ ہی غیر ترقی پسند۔وہ چونکہ افسانہ نگار ہیں اس لیے شب و روزان کے لکھنے کا عمل جاری ہے۔جب بھی اردو افسانوں کا ذکر ہوگا، انتظار حسین کا نام بھی ضرور آئے  گا۔ وہ ہند و پاک کے مابین ایک پل کا کام کر رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے ادیبوں،شاعروں اور افسانہ نگاروں کے لیے ایک بہت اہم رابطہ بنے ہوئے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار دہلی کے ممتاز ادیبوں نے کیا ہے۔ وہ ایک تقریب میں گفتگو کر رہے تھے جو ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین کے اعزاز میں ایوان غالب میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب استقبالیہ میں دہلی کے اردو حلقے کی کریم موجود تھی۔مختلف شخصیات نے انتظار حسین کے فن پر اظہار خیال کیا اورآخر میں صاحب تقریب نے اپنا ایک افسانہ سنایا جسے بے حد پسند کیا گیا۔

مقررین کے مطابق انتظار حسین کسی ازم کے حلقہ بگوش نہیں ہیں۔ وہ نہ تو لیفٹسٹ ہیں اور نہ ہی رائٹسٹ۔ خود انہوں نے کہا کہ ان پر ان دونوں نظریات کا حامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا لیکن ان کا ان نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہیں رجعت پسند بھی کہا گیا اور یہ الزام انہوں نے تسلیم کر لیا۔ انتظار حسین ایک غیر جانب دار افسانہ نگار ہیں۔ وہ ایک صاف گو اور صاف دل شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ان کے افسانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بالکل سادہ ہوتے ہیں لیکن اس سادگی میں بھی ایک پرکاری ہوتی ہے جو قاری کو باندھے رکھتی ہے اور اس کی دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے۔انتظار حسین کا بیانیہ بھی بڑا سادہ مگر پر کشش اور دلچسپ ہے۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ ان کا ایک خاص اسلوب ہے اور اس اسلوب میں وہ طاق ہیں۔وہ ایک غیر جانبدار ادیب اور قلم کار کا کردار بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ان کے افسانے سیاسی موضوعات پر بھی ہیں مگر ان میں سیاست کہیں نظر نہیں آتی۔یہ ان کی بڑی خوبی ہے۔

 وہ خود ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے ایک دوست نے یہ شکایت کی کہ’ ان کے افسانوں میں عورت نہیں ہے‘۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ارے! میرے افسانوں میں تو اتنی ساری عورتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں عورتیں ہیں مگر ’عورت‘ نہیں ہے۔اسی طرح ان کے افسانوں میں سیاسی موضوعات بھی ہیں مگر ان میں کوئی سیاست نہیں ہے۔سیدھی سادی اور سچی باتیں ہیں اور بات کو آگے لے جانے کا خاص انداز ہے۔ہاں وہ اشارے کنائے ضرور دیتے ہیں۔ سمجھنے والا انہیں سمجھ جاتا ہے۔

ان کے افسانوں میں بعض اوقات بہت سی متضاد چیزیں بھی اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلاں بات بھی ممکن ہے اور فلاں بات کا بھی امکان ہے۔ان کے افسانوں کے تجربات کی مختلف اور متعدد سطحیں ہیں اور ہر سطح بھر پور اور مکمل ہے۔انہوں نے ادب کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں ممکنات واضح ہو جاتے ہیں۔وہ بہت وسیع بھی ہیں جنھیں نقادوں کے ساتھ ساتھ عام قاری بھی محسوس کر لیتا ہے۔
مقررین نے مزید کہا کہ انتظار حسین اتنے صاف گو ہیں اور اپنے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ وہی باتیں ان کے بارے میں ان کے بدترین ناقد بھی کریں گے۔ناصر کاظمی نے میر تقی میر پر لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہر بڑا شاعر مرنے کے بعد قبیلے چھوڑ جاتا ہے اور جس کے جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ اسے لے بھاگتا ہے۔ انتظار حسین کے یہاں بھی بہت سے قبیلے ہیں۔انتظار حسین نے اپنے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ان کا دہلی سے بھی ایک خاص ربط ہے اور اس کا ثبوت ان کی وہ کتاب ہے جس کا نام ہے ’دلی جو ایک شہر تھا‘ اور جو ایک یادگار تصنیف ہے۔

انتظار حسین کے افسانوں میں داستانوی کیفیت ہونے کے باوجود وہ اپنے عہد سے الگ نہیں ہیں اور ان میں ان کا پورا دور نظر آتا ہے۔ وہ اپنے عہد کو اپنے افسانے میں پیش کرتے ہیں۔انہوں نے مکمل طور پر ایک ادیب کی طرح خود کو اور سماج کو اور عہد کو دیکھا ہے اور برتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے افسانے عصر حاضر کا آئینہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔آج کے دور میں کچھ ہی ایسے لکھنے والے ہیں جو روح کو واقعی اپنے قبضے میں کر لینے کا ہنر جانتے ہیں اور انتظار حسین اسی فہرست میں شامل ہیں۔

انہوں نے اردو افسانے کو نئے فنی اور معنیاتی امکانات سے آشنا کرا یا ہے اور اردو افسانے کا رشتہ بیک وقت داستان، حکایت، مدہبی روایات، قدیم اساطیر اور دیو مالا سے ملا دیا ہے۔داستانوں کی فضا کو انہوں نے نئے احساس اور نئی آگہی کے ساتھ کچھ اس طرح برتا ہے کہ افسانے میں ایک نیا فلسفیانہ مزاج اور نئی اساطیری و داستانی جہت سامنے آگئی ہے۔وہ فرد و سماج، حیات و کائنات اور وجود کی نوعت اور ماہیت کے مسائل کو رومانی نظر سے نہیں دیکھتے، نہ ہی ان کا رویہ محض عقلی ہوتا ہے۔بلکہ ان کے فن میں شعور اور لا شعور دونوں کی کارفرمائی ملتی ہے اور ان کا نقطہ نظر بنیادی طور پر روحانی اور ذہنی ہے۔وہ انسان کے باطن میں سفر کرتے ہیں۔روح کے اندرون میں نقب لگاتے ہیں اور زمانے کے مسائل کو، افسردگی کو اور کشمکش کو تخلیقی انداز میں پیش کر دیتے ہیں۔وہ پیچیدہ سے پیچیدہ خیال اور نازک سے نازک بات کو بھی انتہائی سادگی اور حسن کاری کے ساتھ بیا ن کر دیتے ہیں۔وہ احساسات کے بوجھل پن کو اور بوجھل نہیں بناتے بلکہ اس کو اور سرل اور آسان کر دیتے ہیں۔جب ان کے افسانے دیو مالائی انداز اختیار کرتے ہیں تو ان کی زبان اور لب و لہجہ بھی بدل جاتا ہے جس سے افسانے میں ایک اوریجنلٹی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے واقعہ کو اپنے انداز میں بیان کر رہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا انداز بیان اور طرز نگارش واقعات میں ایک نیا پن پیدا کر دیتا ہے۔جو قاری کو بور ہونے سے نہ صرف بچاتا ہے بلکہ اس کی دلچسپی کو بھی بدرجہ اولی قائم کر دیتا ہے۔

انتظار حسین کے نزدیک آدمی صرف اتنا ہی نہیں ہے جتنا وہ نظر آتا ہے بلکہ اس کے رشتے خارج سے زیادہ اس کے باطن میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے زیادہ تر افسانے ان چہروں اور ان لمحوں کو یاد کرنے کے عمل سے وابستہ ہیں جنھیں وقت نے دور کر دیا ہے۔ان کی دانست میں یادداشت انفرادی اور اجتماعی تشخص کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ نظروں سے اوجھل لوگوں کو انتظار حسین بلا بلا کر اپنے افسانوں کے شہر خیال میں بساتے چلے جاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ یادداشت نہ ہو تو ماضی بھی نہیں رہتا اور ماضی نہ ہو تو بنیاد اور جڑیں کچھ بھی نہیں رہتا۔

وہ خود اپنے کرداروں کے بارے میں کہتے ہیں:’یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں نے ابھی ابھی افسانہ لکھنا شروع کیا تھا۔جو لوگ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے وہ مجھے بے طرح یاد آرہے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں نے اپنی بستی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔مگر پھر وہ لوگ بھی یاد آتے تھے جو منوں مٹی میں دبے پڑے تھے۔میں اپنی یادوں کے عمل سے ان سب کو اپنے نئے شہر میں بلا لینا چاہتا تھا کہ وہ پھر اکٹھے ہوں اور میں ان کے واسطے سے اپنے آپ کو محسوس کر سکوں‘۔

اس استقبالیہ تقریب میں اظہار خیال اور شرکت کرنے والوں میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، ڈاکٹر خلیق انجم، سعودی سفارت خانہ کے کلچرل اتاشی ابراہیم بن محمد، ضمیر احمد دہلوی، ڈاکٹر شاہد ماہلی، مجتبیٰ حسین، ولی عالم شاہین کناڈا، امیر جعفر ،ڈاکٹر ارتضی کریم، ڈاکٹر ابن کنول، پروفیسر صادق، ڈاکٹر اسلم جاوید،ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر رضا حیدر، فصیح اکمل قادری، ڈاکٹر شاہینہ تبسم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس پروقار تقریب میں انتظار حسین نے اپنا افسانہ ’پچھتاوا‘ سنایا اور خوب داد وصول کی۔ افسانے کا ہیرو گھیسو پیدا ہونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے شکم مادر ہی میں ماں سے گفتگو کے دوران یہ معلوم کر لیا تھا کہ سکھ صرف ماں کے پیٹ میں ہے۔ جیون تو سارا دکھ ہی دکھ ہے۔لیکن باپ کے سوالوں اور ماں کی باتوں کے آگے وہ مجبور ہو گیا اور بقول اس کے اس نے ماں کے بھرّے میں آکرپیدا ہونے کی غلطی کر دی اور جیون بھر دکھ جھیلتا رہا۔

تقریب کے صدر معروف ہندی کہانی کار ریوتی شرن شرما تھے۔ جب وہ صدارتی تقریر کرنے آئے تو انہوں نے کہا کہ میں بھی بھرّے میں آگیا اور صدر بن گیا لیکن میں وہ غلطی نہیں کروں گا جو گھیسو نے کیا تھا۔جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ دکھ سہتا ہے اور میں نہ بولوں گا نہ دکھ سہوں گا۔اور پھر شکریہ کہہ کر ڈائس سے اتر آئے۔

Wednesday, March 4, 2009

Personal & Knowledgable Litrature in India after Independence

آزادی کے بعد ہند وپاک میں شخصی اور معلوماتی ادب میں قابلِ ذکر فروغ

خود نوشت سوانح، سفرناموں، انشائیوں اور خاکوں کو غیر ادبی صنف نہیں سمجھنا چاہئے، یہ اردو ادب کا حصہ ہیں اور آزادی کے بعد ان اصناف کو خاصا فروغ حاصل ہوا ہے۔انہیں گرچہ ذیلی اصناف کہا جاتا ہے لیکن ادب میں ان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اور ان میں بھی اسالیب کا تنوع پایا جاتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دہلی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام28فروری اور یکم مارچ کو ایک دوروزہ نیشنل سیمینار میں ملک و بیرون ملک کے ادیبوں، محققوں اور شاعروں نے کیا۔سیمینار کا عنوان تھا ’آزادی کے بعد شخصی اور معلوماتی ادب: خود نوشت سوانح، سفرنامہ، انشائیہ اور خاکہ۔‘

دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین پروفیسر قمر رئیس نے سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں خود نوشت اور سوانح نگاری نے خاصی ترقی کی ہے اور بڑے لوگوں نے اعلیٰ معیار کی آپ بیتیاں لکھی ہیں۔اس سلسلے میں قدرت اللہ شہاب سمیت کیے لوگوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سفر نامہ ایک دلچسپ صنف ادب ہے۔ انہوں نے شبلی نعمانی، سرسید اور دیگر سفرنامہ نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انیسویں صدی سے ہی یہ روایت چلی آرہی ہے اور بیسویں صدی میں اسے کافی فروغ ملا ہے۔انہوں نے ان اصناف کو غیر ادبی یا غیر تخلیقی اصناف ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بڑی شخصیات جب اپنی زندگی کا حساب کتاب پیش کرتی ہیں تو وہ بڑا کارنامہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے انشائیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس کی کوئی جامع تعریف نہیں ہے اور انشائیہ متنازعہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے جوش ملیح آبادی، آل احمد سرور اور وامق جونپوری کا ذکر کیا۔تاہم یہ بھی کہا کہ بہت سی انشاپرداز تحریروں میں سچائیاں بھی ہوتی ہیں۔انشائیہ نگاری کے طفیل میں بہت رنگا رنگ نمونے بھی سامنے آئے ہیں۔ قمر رئیس نے وزیر آغا کا خاص طور پر ذکر کیا تاہم یہ بھی کہا کہ وہ اپنے انشائیوں کو آخری انشائیہ مانتے ہیں۔انہوں نے خاکو ں کے حوالے سے مولوی عبد الحق اور رشید احمد صدیقی کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی تحریریں اپنے پورے عہد پر محیط ہوتی ہیں اور حالات و واقعات کو الگ نظر سے دکھاتی ہیں۔

سیمینار میں افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرپروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اردو میں نثر کا سرمایہ بہت بڑا ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر نہ لکھا گیا ہو۔ انیسویں صدی میں مغرب میں جو کچھ چھپتا تھا اس کا ترجمہ چند سالوں میں کتابوں کی شکل میں یہاں شائع ہو جاتا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی رسائی زیادہ لوگوں تک نہیں ہو پاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ علم کا ذخیرہ غیر فکشن تحریروں میں بہت ہے۔مضمون نگاری اور رپورتاژ وغیرہ میں بہت معلوماتی اور کارآمد باتیں ہیں۔ان میں اسالیب کا تنوع بھی بہت ہے۔ سرسید سے لے کر اب تک متعدد اسالیب معرض وجود میں آئے ہیں، ان میں رومانیت بھی ہوتی ہے اور سیدھی سادی زبان میں عالمانہ باتیں بھی ہوتی ہیں۔سجی ہوئی زبان بھی دکھائی دیتی ہے۔ سادہ نثر میں رنگینی بھی ہوتی ہے اور رنگین نثروں میں دوسری چیزیں بھی ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولوی محمد حسین آزاد کی تحریریں اتنی سادہ نہیں ہیں جتنی کہ حالی وغیرہ کی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افسانوی اور غیر افسانوی ادب کا ذخیرہ اتنا وقیع ہے کہ اگر اس کی فہرست مرتب ہو تب جا کر اس کی اہمیت کا احساس ہوگا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ادیبوں کو تحریکوں اور رجحانات میں تقسیم نہیں کرنا چاہئیے۔پروفیسر قدوائی نے کہا کہ مشرقی زبانوں نے مغرب سے بھی گہرا اثر قبول کیا ہے اور یہاں کے مصنفین نے وہاں کی کلاسکس سے فائدہ اٹھایا ہے۔انہوں نے سنگ تراشی، مصوری، آثار قدیمہ، تعلیم تربیت وغیرہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادب اور فنون لطیفہ نے مغرب سے استفادہ کیا ہے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ مذکورہ اصناف ادب کی ذیلی اصناف ہیں اور یہ بیانیہ کے تحت آتی ہیں۔ان میں Narationذیلی طور پر قائم رہتا ہے جس سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔انہوں نے دلچسپ پیرایہ بیان اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کے بغیر خاکہ، سفرنامہ یا سوانح کولکھا ہی نہیں جا سکتا۔ادب میں سچائیوں کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور مبالغہ بھی ضروری ہے۔ خود نوشت نگاروں نے بہت جھوٹ بولا ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لکھی ہی نہیں جا سکتیں۔انہوں نے کہاکہ سنجیدہ نقادوں نے بڑے محققوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بھی جھوٹ اور مبالغہ آرائی کا راستہ اختیار کیا۔انہوں نے اس پر زور دیا کہ بنیادی اصناف کا ایک ادارہ قائم کیا جانا چاہئیے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے مزید کہا کہ سوانح دو قسم کی ہوتی ہیں۔ مردوں کی الگ اور خواتین کی الگ۔خواتین جب تحریر پر آتی ہیں تو ان کی آواز بہت بلند ہو جاتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے رشید جہاں، عصمت چغتائی اور کشور ناہید کا نام لیا اور کہا کہ انہوں نے جن چیلنجوں کا سامنا کیا ہے ویسا منٹو نے بھی نہیں کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ محققوں، ناقدوں، پروفیسروں اور شاعروں کی خود نوشتوں میں فرق ہوتا ہے۔مستنصر حسین تارڑ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کہ یہاں بیانیہ حاوی رہتا ہے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں اعترافی ادب نہیں ہے۔البتہ خود نوشتوں میں عصمت اور کشور ناہید کے یہاں یہ چیز موجود ہے۔کچھ کچھ ندا فاضلی اور زبیر رضوی کے یہاں ہے۔جوش ملیح آبادی کے یہاں بھی بہت کچھ اعترافات ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم ادیبوں کو سچ بولنے کا یارا نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب روزنامچوں کی روایت نہیں ہے۔ حالانکہ ادیبوں کو روزنامچے لکھنے چاہئیں۔

سیمینار میں شرکت کے لیے کناڈا سے آئے مہمان خصوصی شاعر، ادیب اور افسانہ نگار ولی عالم شاہین نے مذکورہ موضوع پر سیمینار کے انعقاد پر دہلی اردو اکیڈمی کو مبارکباد دی اور کہا کہ شاید اس موضوع پر یہ پہلا سیمینار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر تخلیق کار بنیادی طور پر خود نوشت نگار ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بارے میں اور اپنے عہد کے بارے میں لکھتا ہے۔انہوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ بہت سی خودنوشتیں فرمائشی ہوتی ہیں اور لکھوائی جاتی ہیں۔اختر حسین رائے پوری کی کتاب ’گردِ راہ‘ فرمائشی خودنوشت ہے۔عبادت بریلوی، ادا بدایونی وغیرہ سے بھی خود نوشتیں لکھوائی گئی ہیں،لیکن ان میں بہت سارا علم محفوظ ہے۔خود نوشت تاریخ بھی ہوتی ہے اور بہت سی خود نوشتیں یادگار بھی ہوتی ہیں۔لیکن ان میں کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں اور لکھنے والا ان میں اپنے تعصبات کو بھی شامل کر لیتا ہے۔

انہوں نے ’ورودِ مسعود‘ اور ’خواب باقی ہیں‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ولی عالم شاہین نے کہا کہ آزادی کے بعد سفرنامے بہت لکھے گئے،لیکن سفر نامہ نگار خود کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے جو بڑی خامی ہے۔لیکن انہوں نے مختار مسعود کے بارے میں کہا کہ ان کے سفرنامے اس عیب سے پاک ہیں،جبکہ مستنصر حسین تارڑ بہک جاتے ہیں۔اس میں ان کی غلطی نہیں کیونکہ اس میں بہکنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے، تاہم اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔

انشائیہ پراظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے وزیر آغا کا بالخصوص ذکر کیا اور کہا کہ ان کی سرکردگی میں انشائیہ نگاروں کا ایک گروپ قائم ہے جو مسلسل کتابیں لکھتا رہتا ہے۔انہوں نے اس پر زور دیا کہ انشائیہ کے ایک اچھے انتخاب کی ضرورت ہے اور کئی انتخاب سامنے آسکتے ہیں۔

خاکوں کے ضمن میں انہوں نے خواجہ حسن نظامی اور منٹو کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ خاکہ، سفرنامہ یا سوانح کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔آپ بیتی صرف آپ بیتی نہیں ہوتی بلکہ تہذیب و ثقافت کی عکاس ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی انہوں نے کناڈا میں اردو کی صورت حال پر بھی تفصیل سے گفتگو کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہٴ اردو کے سابق صدرپروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ بغیر تخلیقیت کے خاکہ، انشائیہ اور سفرنامہ نہیں لکھا جا سکتا۔الہٰ آباد یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردوپروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ ساری اصناف مغرب سے مستعار ہیں۔غزل کی تہذیب جاگیردارانہ تہذیب ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدرپروفیسر شمس الحق عثمانی نے کہا کہ خاکہ میں کتھا کو سمجھے بغیر ہم افسانہ نگاری کو نہیں سمجھ سکتے۔جے این یو سے وابستہ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہا کہ فن پاروں میں زندگی کی حقیقت کو گرفت میں لینا چاہئیے۔زندہ قومیں اعلی ادب اس لیے تخلیق کرتی ہیں کہ وہ زندگی جینے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔معروف ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے مذکورہ موضوع پر سیمینار کا اہتمام کرنے پر اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین پروفیسر قمر رئیس کو مبارکباد دی، جبکہ اکیڈمی کے سکریٹری مرغوب حیدر عابدی نے اکیڈمی کی ادبی خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا۔

اس سیمینار میں کم از کم پندرہ مقالے پیش کیے گئے۔بعض موضوعات یہ ہیں:آزادی کے بعد انشائیہ نگاری کے رجحانات، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی خاکہ نگاری، پروفیسر رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری، مرزا محمود بیگ کی خاکہ نگاری، اردو خاکوں میں دہلوی تہذیب کی عکاسی، جوش کی خود نوشت یادوں کی بارات کا تنقیدی جائزہ، وامق جونپوری کی خود نوشت گفتنی نا گفتنی کا تنقیدی جائزہ،قرة العین حیدر کے سفرنامہ ’کوہِ دماوند‘ کا تنقیدی جائزہ،خواتین کی خود نوشتوں کا تنقیدی جائزہ،اختر الایمان کی خود نوشت ’اس آباد خرابے‘ میں کا تنقیدی جائزہ،کشمیر کے چند معروف ادیبوں کے سفرناموں کا تنقیدی جائزہ،پاکستانی سفرناموں کا تنقیدی جائزہ،برصغیر میں خود نوشتوں کے غالب رجحانات،حالیہ خود نوشتوں کا تقابلی مطالعہ،اردو خود نوشت اور ثقافت وغیرہ۔