Thursday, May 14, 2009

دہلی میں ایک شام ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے نام

سہ ماہی ادبی جریدہ ’ادب ساز‘ کے مدیر نصرت ظہیر کہتے ہیں:’ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن کی تفہیم اردو ادب میں ان کی اس انفرادیت کے سبب بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ پہلے انہوں نے اردو فکشن میں نام کمایا، اپنے عہد کے سبھی بڑے فکشن نگاروں سے اپنے فن کا لوہا منوایا اور پھر یک لخت اس تمام شہرت و مقبولیت کو دامن سے جھاڑ کر وادیِ شعر کی طرف ہجرت کر گئے کہ ہجرت چاہے زمینی ہو یا ادبی، ان کے لیے پہلے سے مقرر تھی۔۔۔اور اردو شاعری کی اس دنیا میں بھی جو پہلے ہی ضرورت سے زیادہ گنجان آباد تھی،وہ ایک نمایاں اور محترم مقام بنانے میں کامیاب رہے‘
اور جب گیارہ مئی کو دہلی کے غالب انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹرستیہ پال آنند کے نام ایک خوبصورت شام منائی گئی تو ان کے فکشن پر بھی جم کر بحث ہوئی، ان کی شاعری پر بھی ہوئی اور ان کی ہجرت پر بھی ہوئی۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جناب آنند نے فکشن میں خوب نام کمایا اور بڑے اور اپنے عہد کے قدآور فکشن نگاروں سے خراج تحسین وصول کیا۔ لیکن پھر جانے کیوں انھوں نے فکشن کی وادی کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کو افسانہ نگاری ترک کیے ہوئے کم و بیش بیس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج بھی ان کے افسانوں پر بحث ہوتی ہے اور ان کے کرداروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اس موقع پر ایک اہم بات اور سامنے آئی کہ گرچہ انھوں نے بیس سال قبل وادی نثرسے ہجرت کر لی تھی لیکن آج بھی وہ جب چاہیں اس وادی میں خرام ناز کر سکتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کا وہ افسانہ پیش کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اسی موقع کے لیے ایک روز قبل لکھا تھا اور جسے سنا کر انہوں نے مخصوص اور منتخب سامعین سے داد و تحسین کے پھول وصول کیے۔
اس افسانے میں انہوں نے اپنا ہی کردار پیش کیا ہے اور اپنی ہجرت اور اس کے کرب کو انتہائی خوبصورت کنائے میں پیش کیا ہے۔اس موقع پر جب انہوں نے اپنا کلام سنانے کا آغاز کیا تو اس کرب کا بھی ذکر کیا جو ان کی اہلیہ کے انتقال پر ان کو برداشت کرنا پڑا تھا۔وہی کرب اس افسانے میں بھی محسوس کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ہجرت کی اذیت میں دوسروں کو بھی غیر محسوس طریقے سے شامل کر لیا۔اور اسی کے ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔وہ جائیں گے اور ضرور جائیں گے۔ اس افسانے میں ان کا ماضی بھی موجود ہے اور حال بھی اور مستقبل کی نادیدہ شام بھی۔کیونکہ وہ بہت پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ’ میں کوٹ سارنگ (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے‘۔ لہذا ان کے لیے واپس اپنے ملک آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور وہ نہ بھی آئیں تب بھی رہتے اپنے ملک ہی میں ہیں۔
اس خوبصورت شام کا اہتمام غالب انسٹی ٹیوٹ اور ادب ساز لٹریری فورم نے کیا تھا اور اس میں شہر کی چنندہ ادب نواز شخصیات نے شرکت کی۔ڈاکٹر وسیم راشد کی خوبصورت نظامت میں مجلس کے صدر سید شاہد مہدی، سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے کلام پر جامع گفتگو کی اور کہا کہ ان کی نظم نگاری پر اتنا کام نہیں ہوا ہے جتنا کہ ہونا چاہئیے۔انہوں نے اسی کے ساتھ ادب کے تقابلی مطالعے پر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس موقع پر ستیہ پال آنند کی ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔
عہدِ حاضر کے ابھرتے ہوئے نقاد اور اردو استاد ڈاکٹر مولی بخش اسیر نے ستیہ پال آنند کی نظموں کے حوالے سے نظم نگاری کے مختلف پہلووٴں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر کی ابتدا صاحبِ شام کے افسانوں پر اظہار خیال سے کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند حقیقت کو افسانہ بنانے کے ہنر میں طاق ہیں۔کیونکہ حقیقت تفہیم سے بالاتر ہوتی ہے اور افسانہ بہت جلد سمجھ میں آجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کا افسوس نہیں ہونا چاہئیے کہ جناب آنند نے فکشن کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ اگر ایک طرف انہوں نے ایسا کیا تو دوسری طرف انہوں نے نظم نگاری کی وادی کو اپنا لیا۔ان کا کہنا ہے کہ نظموں کی طرف ان کی مراجعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ بات جان چکے تھے کہ نظم کیا ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔
مولی بخش اسیر نے نظم کو دیے کی لو قرار دیا اور کہا کہ نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ جناب آنند نے پہلے غزلوں کی وادی کی سیر کی،اس کے بعد وہ نظم کی طرف مڑے۔ بقول ان کے نظم کی ابتدا ثقافتی ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے نظیر اکبر آبادی کی مثال پیش کی اور کہا کہ انہوں نے بھی پہلے غزلیں کہی تھیں اور بعد میں نظم کی طرف مراجعت کی۔مولی بخش اسیر نے جناب آنند کے افسانوں اور نظموں میں اساطیری کرداروں پربھی کھل کر اظہار خیال کیا
۔ادبی تحریکات اور شخصیات کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرنے والے فاروق ارگلی نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر ایک مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ستیہ پال آنند کی تحریریں مغربی دنیا میں دور دور تک اپنی تابانی بکھیر رہی ہیں اور انہوں نے اجتہادی ادبی سفر میں اور فکر و فن کی وادی میں نئے راستے تلاش کیے ہیں اور نادر روزگار اسالیب و تراکیب سے ادب کو مالامال کیا ہے۔بقول ان کے اردو ادب میں ستیہ پال آنند نے بیش بہا اضافہ کیا ہے۔انہوں نے تخلیقی بصارتوں اور فکری بصیرتوں کے پھول کھلائے ہیں اور انہیں مغربی رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔بقول فاروق ارگلی ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنی طرز کے موجد بھی ہیں اور ابھی تک خاتم بھی ہیں۔وہ رجحان ساز ہیں اور کثیر الجہت فنکار ہیں۔
ماہر تعلیم، ادیب اور صحافی اطہر فاروقی، بلراج کومل دیویندر اسرّ اور شاہد ماہلی نے بھی ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان سے اپنے دیرینہ رشتوں کی لویں روشن کیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند 24اپریل 1931ءکو کوٹ سارنگ ضلع چکوال، پنجاب (اب پاکستان) میں پیدا ہوئے۔انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تقسیم کے وقت وہ ہندوستان آگئے۔ لیکن ان کی ہجرت یہیں ختم نہیں ہوئی۔1988ءمیں وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ستیہ پال آنند 1961ءسے1971ءتک پنجاب یونیور سٹی میں شعبہ انگریزی میں لیکچرر اور ریڈراور ہیڈ رہے۔ بعد میں وہ 1971ءسے 1983ءتک پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں ڈائرکٹوریٹ آف کارسپانڈنس کورسز کے ڈائرکٹر رہے۔اس کے علاوہ وہ سعودی عرب میں 1992ءسے1994ءتک بطور تعلیمی مشیر خصوصی و پروفیسر انگریزی رہے۔ان کے ایک درجن سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور تقریباً دس شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے تراجم کے کام بھی خوب کیے ہیں۔جبکہ مختلف انعامات اور اعزازات سے بھی مالامال ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند تقابلی ادب کے استاد ہیں اور انگریزی میڈیم سے اردو پڑھانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔انہیں اکثر و بیشتر مختلف ملکوں میں لیکچر کے لیے اور مختلف پروجکٹوں پر کام کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آنند کہتے ہیں کہ ان کے انہی اسفار کے سبب ان کے دوستوں نے انہیں ’ائیر پورٹ پروفیسر‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔’
ادب ساز‘ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند پر ایک قابل قدر گوشہ شائع کیا ہے جو ان کے فکر و فن کو سمجھنے میں معاونت کرے گا۔ اس گوشے میں ان کے فکشن کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کا بھی۔اس کے علاوہ روز نامہ جنگ میں شائع ان کا ایک انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بہت ہی عمدہ گفتگو کی ہے اور ادب کی مختلف تحریکوں اور رجحانات کے علاوہ اپنے ادبی نظریے پر بھی کھل کر بات کی ہے۔اسی انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:میں کوٹ سارنگ سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔میں اس کی فضا میں سانس لیتا ہوں اور اس میں جیتا ہوں اور اس کی یادوں کے سہارے یہ میرا ایک اٹوٹ انگ ہے۔۔۔اپنی زندگی کے اس حصے کو میں بتدریج بدلتے ہوئے ضرور دیکھتا ہوں۔لیکن ختم ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا۔اس لیے میں نے جلا وطنی کا کرب 1947میں تو محسوس کیا، بعد میں اس کی شدت کم ہوتی چلی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:مغربی طلبہ اردو کے رسم الخط سے ناواقف ہیں۔۔۔سبھی طلبہ انگریزی کی مدد سے دنیا کا ادب پڑھتے ہیں۔روسی، فرانسیسی، اطالوی، جرمن،جاپانی، چینی یا افریقی سبھی صرف اور صرف انگریزی کے توسط سے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کون سی اصناف ادب ترجمے کی زد میں آ سکتی ہیں۔ میرے خیال میں(اور میرے تجربے کی بنا پر)شعری ادب میں نظم ہے اور فکشن میں افسانہ۔میں نے وہاں انہی دو اصناف کے حوالے سے اردو ادب کو متعارف کروانے کی کوشش کی ہے اور میں اس کام میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔
غزل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:میں کون ہوتا ہوں یہ حکم صادر فرمانے والا کہ غزل جاری رہنی چاہئیے یا نہیں۔لیکن یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ غزل پر جتنا زور اس وقت صرف کیا جا رہا ہے یا گذشتہ دو تین صدیوں سے کیا جا رہا ہے،اسے Perspectiveمیں رکھ کر Hind Sightسے کچھEvaluationکریں تو بہتر رہے گا کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔بلکہ یوں کہئے کہ اگر یہ زور اس حد تک صرف نہ کیا جاتا تو ہم کیا کچھ پا سکتے تھے، جو ہم نے نہیں پایا اور اس لیے کھو دیا۔یہی ایک صنف ہے جو اسٹیج کی سب سے اونچی کرسی پر قابض ہے۔یہاں تک کہ دوسری اصناف سخن مثنوی، مسدس،رباعی، قطعہ، مخمس، شہر آشوب جیسی اصناف کو بھی غزل کھا گئی اور یہاں تک ہوا کہ اس کے اثرات نظم میں وارد ہو گئے۔میں غزل کو Literatureنہیں کہتا،Orature کہتا ہوں۔یعنی شاعر بھی اسے کلام یا سخن کہتا ہے، تحریر نہیں کہتا۔غزل کہی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہے،سنی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے۔یہ خود بخود بننے والی شے نہیں ہے، بنائی جانے والی چیز ہے۔اس میں آورد کا عنصر زیادہ ہے آمد کا کم ہے
۔اس گوشے میں وزیر آغا،بلراج کومل،آصف علی، شکیل الرحمن،گوپی چند نارنگ،فیصل عظیم،حقانی القاسمی،پریم کمار نظر،احمد سہیل،ریاض صدیقی، سید خالد حسین اوراعجاز راہی کی تخلیقات شامل ہیں جن میں ستیہ پال آنند کی نظم نگاری اور افسانہ نگاری پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔جب کہ ستیہ پال آنند کے نام کالی داس گپتا رضا مرحوم کا ایک خط شائع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جناب آنند کا منتخب کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔مزید براں فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، ملک راج آنند، خواجہ احمد عباس،کرشن چند، موہن راکیش، راجندر سنگھ بیدی،رام لال،جوگندر پال،دیویندر ستیارتھی،اختر انصاری اکبر آبادی اور وشنو پربھاکر وغیرہ جیسے مشاہیر کی آرا بھی اس میں شامل کی گئی ہیں۔Keywords: satyapal anand, urdu, poet, nazm, delhi, evening

Friday, May 8, 2009

قمر رئیس کے انتقال سے ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا خاتمہ


پروفیسر قمر رئیس کے انتقال سے نہ صرف ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا حاتمہ ہو گیا ہے بلکہ دہلی کی علم و ادب کی فضا بھی سونی ہو گئی ہے۔وہ محتصر علالت کے بعد 29اپریل کو دہلی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 77سال تھی۔قمر رئیس کی پیدائش جولائی 1932ءمیں شاہجہان پور میں ہوئی تھی اور تدفین بھی وہیں ہوئی۔انہوں نے لکھنوٴ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا اور پھر مسلم یونیورسٹی سے 1959ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال وہ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں لیکچرر ہوئے اور پھر ریڈر،پروفیسر اور صدر شعبہ بنے۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔وہ ترقی پسند ادیبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور کم و بیش دودرجن کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کا بنیادی کام پریم چند پر تھا۔وہ گذشتہ تین سال سے دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین تھے۔انہوں نے نہ صرف ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے بلکہ اردو کے خادم کی حیثیت سے بھی کافی نام کمایا تھا۔ ان کی کوششوں کی بدولت ابھی حال ہی میں دہلی میں اردو کے 28اساتذہ کی تقرری کو مستقل کیا گیا ہے۔پروفیسر قمر رئیس تاشقند میں پانچ سال تک انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر رہے۔وہ پانچ بار انجمن اساتذہ اردو جامعات کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ انہوں نے 18سال تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی حدمات انجام دیں۔وہ اردو کے پہلے پروفیسر تھے جنہیں یو جی سی نے نیشنل لیکچرار کے اعزاز سے نوازا تھا۔اس کے علاوہ 2001ءمیں تاشقند یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی۔دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین کی حیثیت سے سابق ممبر پارلیمنٹ اور ترکمانستان میں ہند کے موجودہ سفیر جناب م افضل کے بعد اردو اکیڈمی کو سرگرم کرنے میں انہوں نے سب سے نمایاں رول ادا کیا تھا۔ان کے انتقال پر اردو حلقوں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے اور ان کی خدمات کو یاد کیا جا رہا ہے۔معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے قمر رئیس کے انتقال پر کہا ہے کہ ان کے اٹھ جانے سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔وہ ترقی پسندی کے سنہرے دور کی یادگار تھے اور ترقی پسندوں کے ہراول دستے کے سرگرم رکن بھی تھے۔قمر رئیس نے علی سردار جعفری کے بعد ترقی پسند تحریک کے لیے تاریخی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر نارنگ نے کہا کہ انہوں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دہلی یونیورسٹی آجائیں جس پر انہوں نے عمل کیا۔مرحوم تنظیمی طور پر نہایت فعال شصد تھے۔وہ دوسروں سے کام لینے کا ہنر بھی جانتے تھے۔دہلی اردو اکیڈمی میں ان کی خدمات تاریخی نوعیت کی رہیں۔ان کے انتقال سے جو ادبی خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پر نہیں ہوگا۔پروفیسر نارنگ نے مزید کہا کہ قمر رئیس ترقی پسندی سے وابستگی کے باوجود انتہا پسندی سے ہمیشہ دور رہے اور ترقی پسند افسانوی کے اولین مجموعے ’انگارے‘ پر اعتراض کے ذریعے انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا تھا،جس میں بعض اسلامی روایات پر تنقید ان کے نزدیک قابلِ تائید نہیں تھی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ قمر رئیس نہ صرف ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے بلکہ انہوں نے بیرون ملک اردو کی ترویج و ترقی میں بھی اہم رول ادا کیا تھا۔تاشقند میں انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔قمر رئیس جہاں بھی رہے، انہوں نے وہاں اپنی چھاپ چھوڑی اور اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے نمایاں کام کیے۔کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین نے بھی قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا قرار دیا ہے۔انجمن کے جنرل سکریٹری اور دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں ریڈر علی جاوید کے مطابق پروفیسر قمر رئیس آخری عمر تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہے اور ترقی پسند تحریک کی آبیاری کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قمر رئیس کو انجمن کے بانی سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، اعجاز حسین، احتشام حسین، رشید احمد صدیقی، اور آل احمد سرور جیسے ادیبوں اور دانشوروں کی سرپرستی حاصل رہی۔انہی اکابرین کی سرپرستی میں انہوں نے نہ صرف نظریاتی پختگی حاصل کی بلکہ ایک سرگرم تنظیم کار بھی بنے۔بقول علی جاوید قمر رئیس نے دہلی میں قیام کے دوران انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک فعال انجمن بنایا۔انہوں نے طلبہ کی ایک نسل کو نظریاتی تربیت دینے کا بھی کام انجام دیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ قمر رئیس اپنی زندگی اور فن کے حوالے سے انسانی اقدار کے نمائندہ تھے۔آپ کی صلاحیت کے معترف نہ صرف ہند وپاک کے دانش ور رہے بلکہ حکومت تاشقند نے بھی آپ کی گراں قدر خدمات کے لیے آپ کو اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔قومی کونسل برائے فرروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ نے کہا کہ قمر رئیس جس مکتب فکر کی نمائندگی کرتے تھے اس نے اردو ادب کو زندگی کا ترجمان بنانے کی بڑی موثر کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ قمر رئیس ایک بالغ نظر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ خوش فکر شاعر بھی تھے۔منشی پریم چند پر ان کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کچھ عرصہ قبل قمر رئیس کی شاعری کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا تھا جو اردو نظم کے سرمایے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر شمس الحق عثمانی کے مطابق قمر رئیس فرض شناسی کے پیکر اور طلبہ کے لیے رول ماڈل تھے۔ جب کہ سابق صدر شعبہ پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی کے مطابق وہ صرف ادیب ہی نہیں بلکہ سماجی مصلح بھی تھے اور بطور ادبی سفارتک ار ان کی نہایت غیر معمولی خدمات تھیں۔پروفیسر قمر رئیس کے انتقال پر جے این یو، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور متعدد کالجوں اور اردو کی ادبی تنظیموں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے۔جن میں پروفیسر قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا تصور کیا جا رہا ہے۔
Keywords: qamar rais, obituary, urdu, poet, critic, progressive writers movement, taraqqi pasand

Saturday, May 2, 2009

علامہ اقبال نے اردو زبان و ادبیات کو آفاقی وسعتوں سے ہم کنار کیا: ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق

پروفیسر عبد الحق ماہرینِ اقبالیات میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ دہلی یونیو رسٹی میں شعبہٴ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں اقبالیات پر لیکچر دینے کے لیے ملک و بیرون ملک میں مدعو کیا جاتا ہے۔

شاعر مشرق،حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی برسی ابھی ابھی گزری ہے۔ اس موقع پر دہلی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں اقبال پر لیکچر اور پرگراموں کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پرپروفیسر عبدالحق کو بھی مختلف شہروں میں اقبالیات پر لیکچر کے لیے مدعوکیا گیا۔اس مناسبت سے انہوں نے اردو وی او اے ڈاٹ کام کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں علامہ اقبال کی شخصیت،ان کے افکار و نظریات،فن و فلسفے اور شاعری پر کھل کر اظہار خیال کیا اور بہت سے مخفی گوشوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے علامہ اقبال کے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علامہ آزادی کے علم بردار، مزدوروں کے ہم نوا اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ انہوں نے جب 1904میں نظم ’تصویرِ درد‘لکھی تو وہ اردو ادب میں پہلی للکار تھی جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو خطراتِ افرنگ سے ہوشیار کیا تھا۔انہوں نے تحریک آزادی میں مختلف پہلوؤں سے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے گیت بھی گائے۔عوام کے درمیان اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لیے جھنجھوڑا بھی۔انگریزوں کو سب سے پہلے اقبال نے ہی چنگیز کہا تھا اور عوام کو مغرب کی فسوں کاری سے باخبر کیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ لکھتے:

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے 
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوٴگے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں


پروفیسر عبد الحق بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال نے حصول آزادی کے لیے تین محاذ قائم کیے تھے:

اول:ہند کی عظمت کا احساس دلانا۔
دوم:مختلف فرقوں کے درمیان محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنا۔
سوم:انگریزوں کے خلاف برسرپیکار ہونا۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1904ءمیں ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ لکھا۔ اس میں ملک کی عظمت کا بھی بیان ہے اور اخوت و محبت کا درس بھی ہے۔محبت کا جذبہ پروان چڑھانے کے لیے اقبال نے کہا:

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طورہوتا ہے

ڈاکٹرعبدالحق کے مطابق اردو ادبیات میں علامہ نے سب سے پہلے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے:اٹھو، جاگو، رست خیز، برخیز،انقلاب،از خواب گراں خواب گراں خواب گراں، کمر بستہ ہونا، کفن بدوش ہوناوغیرہ۔  اقبال کی شاعری احتجاجی پیغام کی شاعری ہے۔انگریزی اقتدار کے خلاف جتنی شدت سے جدوجہد اقبال کے یہاں ہے کسی اور کے یہاں نہیں ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے خلاف سب سے پہلے اردو ادبیات میں اقبال نے آواز اٹھائی۔

علامہ اقبال کی ادبی فکر پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علامہ صالح فکر کے طرف دار تھے اور کہا کرتے تھے کہ فکر کی گمراہی انسان کو حیوان بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے،جب کہ صحت مند فکرکی تازہ کاری سے ہی قوت عمل مرئی پیکر وجود میں نمودار ہوتی ہے۔ جہان تازہ کی تخلیق کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس بدیہی حقیقت کے بعد تدبیر یا فکر پر پابندی عائد کرنا مہلک ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا ہے :

ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے،ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب

انہوں نے مزید کہا کہ تصوراتی سطح پر فکر کے ساتھ ادب بھی وسعت طلب ہے۔کسی بھی تحریک کے زیر اثر تخلیق پانے والا ادب بھی اسی زمرے میں شامل ہے جو ادبی مطالبات بھی پورے کرتا ہے اور دین و دانش کی اقدار کی قندیل بھی روشن کرتا ہے۔دوسری طرف وہ ادب ہے جس کا حصہ اقدار کا حامل تو ہے مگر ادبی یا جمالیاتی انبسات سے خالی ہے۔اقبا ل نے اشارہ کیا ہے:
 
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی

بقول عبد الحق اقبال نے بار بار حوالوں سے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ شاعری، صورت گری اور داستان سرائی تمام فنون لطیفہ انسانیت کی تعمیر میں معاون ہوں تو قابلِ قبول ورنہ بصورتِ دیگر قابلِ نفریں ہیں۔فن کا مقصد دائمی انبساط و عرفان کی بخشش ہے۔وہ فن جو خواب آور ہو اور خیالات میں گم ہو جانا سکھاتا ہو مذموم ہے۔اقبال نے تاکید کی تھی کہ وہ فن زہرناک ہے جو:

روح کو کرتے ہیں خوابیدہ بدن کو بیدار
یا
جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا وہ ہنر کیا

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر عبد الحق نے کہا کہ مطالعہ اقبال کی مختلف اور متنوع تعبیریں ہمیں سرشار کرتی ہیں اور ہماری حیرتوں میں اضافے کا موجب بھی بنتی ہیں۔ہم اپنی سہولتوں اور سوچ کے مطابق اقبال کو زمان ومکان میں رکھ کر تفہیم کو آسان بنا لیتے ہیں۔اقبال بھی استفہامیہ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ کبھی شاعرِ مشرق تو کبھی شاعرِ فردا پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ نغمہ سرایانِ ہند ہیں مگر آہنگ حجازی کی ترجمانی کرتے ہیں۔وہ خیابان کشمیر کے پروردہ ہیں مگر روئے زمین کے کسی بھی حصے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ہماری نظر صرف ایشیا تک گئی، حقیقت یہ ہے کہ وہ ان حدود سے آزاد ہیں۔ امروزو فردا یا ایشیا بلکہ اس خاک داں سے کنارہ کشی کا وہ اعلان بھی کرتے ہیں اور حوروں اور فرشتوں کو اسیر کرتے ہیں:

یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

پروفیسر عبد الحق کا کہنا ہے کہ ہم نے اقبال کی بیکراں بصیرت سے چشم پوشی کی ہے۔یہ نہ جانا کہ اقبال کی فکر و نظر پردہٴ وجود کو چیر کر تقدیر عالم کو بے حجاب دیکھتی ہے۔ان کی دروں بینی کائنات کے ماہ و سال کی تقویم ساز قوت رکھتی ہے اور ارض و سما کی پراسرار کیفیات کی رازدار ہی نہیں نگہ داری بھی کرتی ہے۔ اقبال روئے زمین کے تمام باشندوں کو خطاب کرتے ہیں۔ اس عمومی آواز میں کسی تفریق کو دخل نہیں۔  انقلابی آواز کے مخاطب تمام انسان اور سبھی آفاقی جہات ہیں:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ

اقبال کی شعری خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جس کی نظیر عالمی ادب میں شایدہی ملے۔ان کا کلام عصری واقعات و حادثات کا جام جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں۔دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔اردو زبان آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی۔ جبکہ دوسرے ادب محدود تصورات میں پابند زنجیر رہے۔

ڈاکٹرعبد الحق نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کی تخلیقات میں تیرہ سو سے زائد آثار و اماکن کے حوالے ہیں۔ ان کے کلام میں ایشیائی ملک و ملت کے علاوہ دوسرے ممالک کے نام بھی موجود ہیں۔ جیسے امریکہ، اندلس،انگلستان، جاپان، جرمنی، فرانس،مصر، ولایت، ہسپانیہ،یورپ اور یونان وغیرہ۔ان ملکوں اور شہروں کی تاریح و تحریک پر اور عصری کوائف پر اقبال کی نظر ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ان کے بیانات کا یہ عالمی منظرنامہ ان کی بصیرت کے یقین کے لیے کافی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کے قلب و نظر کو اس بر اعظم سے جو شیفتگی ہے وہ کسی دوسرے خطہ ارض سے نہیں ہے۔اقبال اور ان کے اسلاف کا مسکن و مدفن ہونے کے ساتھ ان کی تاریخ و تہذیب کا عروج و زوال بھی اسی خاک وخمیر سے وابستہ رہاہے۔ان کے سوز و ساز میں یہی ایشیا ہے جو روح جان وتن ہے:

سوز و ساز و درد و داغ از آسیاست
ہم شراب و ہم ایاغ از آسیاست

لیکن اقبال کو یورپ کے ہاتھوں ایشیا کا استحصال برداشت نہیں۔یورپ میں تین سال کے مختصر قیام نے ان کو ایک نئی آگہی بخشی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی اقوام کے ساتھ مغربی فکر و فسوں کی عیاری کے دل خراش مشاہدات سے بھی اقبال متنفر ہوئے تھے۔ ہندوستانی ادبیات میں یورپ کے خلاف اقبال کا یہ پہلا اعلانیہ تھا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

پروفیسر عبدالحق کا کہنا ہے کہ روسی انقلاب کو آفریں کہنے والے اقبال ہندوستانی ادبیات میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی بصیرت سے محکوم ایشیائی اقوام کے لیے اسے نوید صبح آزادی سمجھا۔لیکن وہ ایک طرف جہاں مغرب کی فسوں کاری سے مضطرب تھے وہیں مصطفی کما ل پاشا کے سیاسی نظریات سے د ل گرفتہ بھی تھے۔ جبھی تو انہوں نے کہا:

اگر عثمانیوں پرکوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

ڈاکٹر عبد الحق نے افغانستان اور فلسطین کے بارے میں بھی اقبال کے نظریات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ اقبال یہ کہنے پر مجبورہوئے:

خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

انہوں نے عرب و عجم کے حوالے سے اقبا ل کے نظریات پربھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی بصیرت آج کی صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی۔انہیں اس کا شکوہ تھا کہ امیر عرب صرف نام و نسب کا حجازی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ حجازی ہے نہ غازی۔یہی شیخ حرم ہے جو گلیمِ بوذر اور چادرِ زہرا کو بیچ کھاتا ہے۔انہوں نے امت عربیہ کے ضمیر کو بھی للکارا تھا اور انگریزوں کی فسوں ساز حکمت عملی سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923ءمیں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا:

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی

انہوں نے عربوں کی لوحِ تقدیر بھی پڑ ھ لی تھی اور بقول عبد الحق سرزمین عرب اقبال کے فیض نظر سے محروم رہی۔ مغربی آقاوٴں کی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔البتہ تھوڑی جنبش ضرور پیدا ہوئی اور اقبال کے اشعار کے تراجم اور مختلف تحریروں نے ایک تحریک پیدا کی اور پھر 1933ءمیں طارق بن زیاد کی دعا مستجاب ہوئی:

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

عراق و حجاز کی طرح اقبال کو ایران سے بھی ایک گہری جذباتی وابستگی تھی۔وہ مطمئن تھے کہ ان کا پیغام ایران میں پہنچ چکا ہے۔علامہ اقبال عالمی امن کی خاطر جنیوا میں اقوام متحدہ کے قیام سے مطمئن نہ تھے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا:

تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہٴ ارض کی تقدیر بدل جائے

اقبال کو افغانستان اور کشمیر سے بھی جذباتی وابستگی تھی۔وہ کابل کو دہلی پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ دہلی محکوم تھا اور کابل آزاد۔افغانستان اور وہاں کے جیالے نوجوانوں کے بارے میں اقبال نے متعدد اشعار اور نظمیں کہی ہیں۔

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
 کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا:

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں، ابھی خودی پہچان
ابھی خودی پہچان
او غافل افغان 

ادھر کشمیر کی تحریک آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کو شروع سے ہی دخل رہا ہے۔اقبال کو آتش چنار کی تمازت سے بڑی امیدیں تھیں:

جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

پروفیسر عبدالحق کہتے ہیں کہ علامہ نے 1936ءمیں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب یہودی نظام فکر و عمل کی صورت میں ہر محاذ پر حاوی ہوگا۔سب سے پہلے عیسائی اس کی زد میں ہوں گے، کلیساوٴں کے متولی یہودی ہوں گے اور مقتدی عیسائی ہاتھ باندھ کر ان کی امامت قبول کریں گے۔ساحل چین سے بحر روم تک انسانوں کی ہئیت اجتماعیہ کا تصور انہیں اکثر تڑپاتا رہا۔یہ اضطراب کسی نہ کسی حد تک موثر ہوا اور 1947ءکے بعد ترکی، ایران اور پاکستان کے علاقائی تعاون کی تنظیم نے جنم لیا۔ مسلم ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے متحدہ اداروں کے قیام میں بیداری کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔سارک ممالک کا اتحاد وجود میں آیا۔جنوب مشرقی ممالک میں تعاون کی انجمن قائم ہوئی۔ روس نے اپنے حلیف ملکوں کی دولت مشترکہ بنائی اور افرو ایشیائی ممالک کے باہمی اتحاد کی صورت بھی پیدا ہوئی۔

 Keywords: allama iqbal, urdu, poet, professor abdul haq, iqbaliologist, iqbal