Sunday, April 4, 2010

نئی دہلی میں مخطوطات کے موضوع پر قومی سیمینار

قومی مخطوطات مشن کے زیر اہتمام نئی دہلی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ماہرین مخطوطات، علما اور دانش وروں نے کہا ہے کہ عربی و فارسی مخطوطات نہ صرف ملک کا عظیم قومی سرمایہ ہیں بلکہ مشترکہ تہذیب کے ناقابل تردید ثبوت بھی ہیں، اس لیے ان کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے اور اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنی چاہئیں۔

عربی و فارسی مخطوطات کے ماہر اور سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن میں طبی مخطوطات کے مشیر پروفیسر احمد اشفاق نے اپنے صدارتی خطبے میں عربی وفارسی مخطوطات کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے پندرہ لاکھ اسلامی مخطوطات ہیں اور ہندوستان عربی وفارسی مخطوطات کے نقطہٴ نظر سے ترکی اور ایران کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سارے نادر و نایاب مخطوطات مختلف مدارس، مساجد اور خانقاہوں میں موجود ہیں جنہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ علم اور معلومات کے نئے دروازے کھولے جا سکیں۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر چندرشیکھر نے کہا کہ فارسی اور عربی مخطوطات کی دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ یہ ملک کا عظیم سرمایہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ مخطوطات مشترکہ قومی ثقافت و ادب کے ناقابلِ تردید ثبوت بھی ہیں۔

پروفیسر چندرشیکھر نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں ایک اندازے کے مطابق پچاس سے ساٹھ لاکھ مخطوطات ہیں۔ قومی مخطوطات مشن نے ان میں سے تقریباً تیس لاکھ کو اپنے ڈیٹا بیس میں شامل کر لیا ہے۔ پندرہ لاکھ کے بارے میں اطلاع ہے اور پندرہ لاکھ کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔

قومی مخطوطات مشن کی ڈائرکٹرپروفیسر دیپتی ترپاٹھی نے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ فارسی زبان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان مخطوطات کو منظرِ عام پر لائے جانے سے ملک میں پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے گا۔

سیمینار میں شریک دیگر مقررین نے ملک بھر میں تمام زبانوں اور بالخصوص عربی و فارسی مخطوطات کے تحفظ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مخطوطات کو محفوظ کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مقررین نے مزید کہا کہ حالانکہ قومی مخطوطات مشن نے اپنے قیام کے بعد سے گذشتہ سات برسوں کے دوران مخطوطات کے حصول، ان کی زمرہ بندی، ان کے تحفظ اور ان کی اشاعت کے لیے قابل ذکر اقدامات کیے ہیں تاہم اسے کسی بھی صورت میں اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے والوں میں سابق سفیر اور اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس کے صدر چنمے گرے خان، وزارت ثقافت میں جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر کمار اور ایران کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر کریم نجفی قابل ذکر ہیں۔
Published on VOANews.com at http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/india-manusripts-conference-30mar10-89513837.html

Saturday, January 16, 2010

رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی: تاریخی روایت اور اہمیت

اس وقت برصغیر ہند و پاک سے لاتعداد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ یہ جرائد ادبی، نیم ادبی، سیاسی، مذہبی، سماجی ا ور دیگر موضوعات پر مشتمل ہیں۔ رسائل و جرائد کی اشاعت کی ایک طویل تاریخ ہے اور موضوعات کے اعتبار سے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اہمیت وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے کیونکہ آگے چل کر یہی رسائل و جرائد تاریخ نویسی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض رسائل و جرائد کی اہمیت تو کتابوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کا انتظار قارئین کو بے چین کیے رکھتا ہے۔

کتابوں میں کسی ایک موضوع پر ایک ہی قلم کار کے مضامین ہوتے ہیں اور بیشتر میں یکسانیت ہوتی ہے۔ لیکن رسائل و جرائد میں مختلف عنوانات پر مختلف ادیبوں کے خیالات پڑھنے کو ملتے ہیں۔اسی طرح رسائل و جرائد کے خصوصی شماروں کی بھی زبردست اہمیت ہے۔ جن میں متعدد ماہرین کے مضامین ہوتے ہیں جو بڑے متنوع اور جدا جدا اندازِ نگارش کے ساتھ انتہائی معلومات افزا ہوتے ہیں۔

چونکہ رسائل و جرائد تاریخ نویسی اور تحقیق نگاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لیے ان کی اشاریہ سازی (Indexing) کا فن بھی وجود میں آیا اور اہم ادبی و معلوماتی رسائل کی اشاریہ سازی کا کام شروع ہوا۔ اشاریہ سازی کی بڑی افادیت ہے۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کسی ایک موضوع پر کام کر رہے ہوں اور ان کو مختلف رسائل و جرائد کو کھنگالنے کی ضرورت پیش آ گئی ہو۔

ماہانہ رسائل کے خصوصی شمارے کے مرتب ضیااللہ کھوکھر کے مطابق اردو رسائل کی باضابطہ اور کتابی صورت میں اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کا ادراک سب سے پہلے اورینٹل کالج میگزین کے فاضل مدیر مولوی محمد شفیع مرحوم کو ہوا، ان ہی کی تحریک پر اس کے 1925ء سے1941ء تک کے تمام شماروں کا اشاریہ محمد ابراہیم اور ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے مرتب کیا جو مئی1942ء کے شمارے میں شائع ہوا “۔ بعد میں’ مخزن ‘لاہور کے ایڈیٹر شیخ عبدالقادر نے بھی اس کا احساس کیا اور پھر انھوں نے مخزن کی اشاریہ سازی شروع کر دی۔ مخزن کی جلد چھ شماروں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور جلد کے اختتام پر اس کے شماروں کی مکمل فہرست مضامین کے اعتبار سے دے دی جاتی تھی۔

بہر حال رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور آج اہم رسائل کی اشاریہ سازی کا عمل باقاعدگی سے جاری ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ کام ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی۔

ضیاءاللہ کھوکھر گوجرانوالہ لاہور کے ایک معروف تاجر ہیں۔ لیکن ان کو تاجر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک علمی شخصیت کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔انھوں نے اپنے والد کے نام پر عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری قائم کی ہے۔ جس میں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں کتابیں جمع کرنے کا شوق دیوانگی اور جنون کی حد تک ہے اور یہی دیوانگی ان سے بہت بڑے بڑے کام کروا لیتی ہے۔ان کی لائبریری میں پندرہ سو سفرنامے ہیں جو مشاہیر کے قلم کی پیداوار ہیں۔

انھوں نے حال ہی میں ایک کتاب ’ماہانہ رسائل کے خصوصی شمارے‘ مرتب کی ہے جس میں 1902ء سے لے کر2005ء تک کے رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کی گئی ہے۔ضیاءاللہ کھوکھر ایک ایسے تاجر پیشہ ادیب و صحافی ہیں جو بڑے بڑے ادیبوں اور صحافیوں پر بھاری ہیں۔

اس سے قبل انھوں نے ”’فہارس الاسفار‘ کے نام سے 1300 سفرناموں کی اشاریہ سازی اور بچوں کی صحافت کے سو سال“کے نام سے سو سالہ ادب اطفال کی اشاریہ سازی کی تھی۔ ان دونوں تصنیفات کو حلقہٴ علم و ادب میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اب اسی نوعیت کی یہ تیسری تصنیف اردو دان حلقے میں موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔

زیر نظر کتاب کے آغاز میں انھوں نے کتاب کا تعارف لکھا ہے جو تعارف کی بجائے ایک بہت ہی وقیع اور مفصل مضمون بن گیا ہے جو رسائل و جرائد کی تاریخ اور اشاریہ سازی کے فن و روایت سے تفصیل کے ساتھ بحث کرتا ہے۔

ضیاءاللہ کھوکھر کہتے ہیں کہ اورینٹل کالج میگزین کے 1925سے1967کے شماروں کا اشاریہ 1970میں اورینٹل کالج میگزین کے سائز اور انداز پر منظر عام پر آیا، اسے اردو رسائل کا ایسا اولین اشاریہ کہنا چاہیے جو کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1985میں معروف کتابی وضع قطع اور سائز اپنا کر سامنے آنے والا اشاریہ ماہنامہ ترجمان القرآن“ حیدرآباد دکن، پٹھان کوٹ لاہور کا تھا۔ یہ اشاریہ 1932ء سے1976ء کے شماروں کو محیط ہے۔

ان کے بقول 1970ء سے تاحال اشاریوں کی کس قدر تعداد کتابی صورت میں شائع ہوئی ہے، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔تاہم ان کی لائبریری میں موجود اشاریوں کے حوالے اور تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2000ء سے 2006ء کا دور کتابی صورت میں شائع شدہ اشاریوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔

ماہانہ رسائل کی بہ نسبت ہفت روزہ رسائل کی اشاریہ سازی زیادہ دقت طلب کام ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال نے جلد کے آخر میں اشاریہ مرتب اور شائع کرنے کی روایت قائم کی تھی۔اس کے بعد ہفت روزہ ”الحدیث“ امرتسر ہی ایسا ہفت روزہ ہے جس کی کسی جلد کا اشاریہ ضیاءاللہ کھوکھر کی لائبریری میں موجود ہے۔

اس وقت برصغیر ہند و پاک سے اگرچہ متعدد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں اور ان کو باکمال مدیروں کی خدمات حاصل ہیں۔ لیکن پہلے کے مدیروں میں غضب کی جدت طرازی اور کام کرنے کی لگن اور دھن ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے اپنی ذہانت، بصیرت اور ندرت فکر سے رسائل و جرائد کی صحافت کو بلند مقام عطا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تحقیق کاروں اور محققوں کو بھی قدیم رسائل و جرائد سے استفادے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

در اصل قدیم مدیروں نے اس فن کو ایک نیا اسلوب دیا تھا اور ان کے خیال انگیز افکار کے بطن سے انتہائی تاریخی رسائل نے جنم لیا تھا۔ ان جریدوں کے مدیر تعلیم یافتہ اور جدید ادبی تصورات و رجحانات سے بھی آگاہ تھے۔ بقول ضیااللہ کھوکھر انہیں ادب برائے زندگی کا نظریہ مرغوب نہیں تھا وہ ادب برائے ادب یا جدیدیت کے قائل تھے۔ انھوں نے ادبی اقدار سے بغاوت کر کے جدت پسندی کا راستہ اختیار کیا۔

ان مدیروں میں مخزن کے ایڈیٹر شیخ عبدالقادر، دلگداز کے ایڈیٹر مولانا عبدالحلیم شرر، زمانہ کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن نگم، ماہنامہ زبان کے مائل دہلوی، ماہنامہ تمدن کے مولانا راشد الخیری، ماہنامہ اردو کے فتح محمد خاں، ماہنامہ نگار کے علامہ نیاز فتح پوری، ماہنامہ ادبی دنیا کے مولانا تاجور نجیب آبادی، ماہنامہ ساقی کے شاہد احمد دہلوی ، ماہنامہ آج کل کے جوش ملیح آبادی، جگن ناتھ آزاد اور عرش ملسیانی اور ماہنامہ شاعر کے سیماب اکبر آبادی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ضیاءاللہ کھوکھر کہتے ہیں کہ مخزن لاہور 1901ء سے لے کر ”سب رس حیدرآباد دکن جنوری 1938ء تک کا دورانیہ ایسا روشن اور تاب ناک ہے کہ اسے اردو صحافت کا دور زریں کہا جا سکتا ہے “۔

انھوں نے اردو صحافت کے ارتقائی منازل کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مدیروں کے ادبی ذوق اور رسالوں کے مابین جاری چشمک اور ا دبی آویزشوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔در اصل یہ پورا مضمون ایک صدی کی اردو صحافت بالخصوص ادبی صحافت کا بھرپور جائزہ پیش کرتا ہے اور ایسے گوشوں کو اجاگر کرتا ہے جن سے عام طور پر اہل اردو بے خبر ہیں۔

اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوا کہ رسائل و جرائد کے سب سے زیادہ خصوصی شمارے جو شائع ہوئے ہیں وہ ہیں اقبال نمبر، افسانہ نمبر، سیرت النبی یا رسول نمبر،غالب نمبر اور قرآن مجید نمبر ۔ ان میں سب سے زیادہ سیرت نمبر شائع ہوئے ہیں۔

ان کے علاوہ شاعری نمبر، غزل نمبر، فیض نمبر، حج نمبر، رمضان المبارک نمبر، جگر نمبر، جوبلی نمبر، گولڈن جوبلی نمبر، سید ابو الاعلٰی مودودی نمبر، کہانی نمبر، کشمیر نمبر، ناول اور ناولٹ نمبر وغیرہ وغیرہ شائع ہوئے ہیں ۔ زیر نظر کتاب اشاریہ سازی کے ساتھ ساتھ سو سال کے ادبی سفر کا بھرپور جائزہ پیش کرتی ہے اور یہ ریسرچ اسکالروں اور تحقیق نگاروں کے لیے انتہائی مفید ہے۔