Sunday, December 28, 2008

LECTURE ON ISLAM IN MEDIA



LECTURE ON ISLAM IN MEDIA(April 11, 2008)Organised byInstitute of Objective Studies
Institute of Objective Studies, New Delhi organized a lecture on "Islam in Media" at its headquarters. Syed Liyaquat Husain, Senior Editor, Arab News, Jeddah, (Kingdom of Saudi Arabia, spoke on the said topic. His lecture was followed by live discussion in which many senior journalist and academician participated. This programme was chaired by Dr M.Manzoor Alam, the chairman of the IOS . While Mr AU Asif conducted this programme.

Speaking on the topic Janan Syed Liyaquat Husain put it that the basic reason of misrepresentation of Islam in the media was ignorance. However, he also said the misrepresentation with intention in some cases could not be ruled out. According to him, if it happened, only reporters and correspondents couldn't be held responsible. Because when the stories filed by reporters/ correspondents were finalized, it passed through various levels and in editing and subbing it was scrutinized. He said actually in this process it got heading and other finishing touches keeping the policy of the media house in view.
L-R: Parwaaz Rahmani, Liyaquat Husain and Dr Manzoor Alam
According to him, the role of the desk was very vital in shaping a news item. So far as some particular terms like "Islamic terrorism" or "political Islam" were concerned, they were generally added by the desk.Liyaquat Husain said despite many shortcomings, Arab News contributed a lot in developing an effective and constructive media. The group that published Arab News brought out Urdu News and Urdu Magazine in Urdu as well as Malayalam News in Malayalam, he added. He lauded the roles of late Dr Abdul Kader Tash and Khalid Al Maena in shaping the English daily.Agreeing with him, Akhbaar-e-Mashrique Editor Wasimul Haque said it was true that the desk had a very important role in shaping a news item, rather the entire newspaper. In his view, therefore, the need of the hour was participation of Muslims in a substantial number having knowledge about their religion and issues of the community, besides comprehensive general knowledge.Dr S Q R Ilyas, Editor, Afkaar-e-Milli, too stressed the need of paying attention by Muslims towards media. He also threw light upon media's coverage of Muslim issues.Dr Syed Abdul Bari 'Shabnam Subhani', Editor, Milli Ittehaad, lauded the roles of M J Akbar and Seema Mustafa and expressed his sadness over their ouster from Asian Age recently.Suhail Anjum, who covers for Voice of America from Delhi, said the issue of coverage of Islam and Muslim problems was of utmost importance because they got a little space and the issues that were covered were generally ill-informed and superficial. Author of a book on media in Urdu, Suhail Anjum said there was a dire need for the community to pay attention towards this important aspect. According to him, the reporters and correspondents were sometimes handicapped of facts and figures about the issues related to Islam and Muslims. So, here it was the responsibility of the community to manage a data bank on Islam and Muslim issues, he said.Journalist-turned research scholar Saad Bin Zia opined that M J Akbar's ouster from Asian Age was political, not on ground of his being a Muslim. Parwaaz Rahmani, Chief Editor, Sehroza Dawat, dwelt in detail the coverage of Islam and issues of Muslim in the media as a whole. He agreed with the earlier contention that ignorance was a major factor responsible for the misrepresentation of Islam in the media. He urged the Muslim community to keep in touch with what's coming in media and write rejoinders and letters to the editors of different newspapers and periodicals on the issues of concern.Parwaaz Rahmani said sometimes the coverage of events depended upon how the organizers of the programmes themselves perceived it. According to him, this happened in the coverage of Deoband Conclave and the emphasis changed from the main issue. So, the world only came to know through media that Muslims had now condemned terrorism. He made it clear that the Muslim community like any other community never supported terrorism and Islam had nothing to do with terrorism. In his view, the concept of Jihad meant 'struggle' against injustice but it had been mistaken as an armed war against non-Islam.IOS Chairman Dr M Manzoor Alam said the need was to pay attention on both sides---media and Muslim community. According to him, ignorance was, no doubt, responsible for misrepresentation of Islam in media. Therefore, it was the community's responsibility to have had a data bank on different issues related to it, he emphasized.The guest was presented a memento to mark the 20th anniversary of IOS observed recently.







غالب کا یومِ پیدائش: دہلی میں تقریبات کا آغاز


سہیل انجم نئی دہلی

December 19, 2008

یوں تو مرزا غالب کی پیدائش 27دسمبر کو ہوئی تھی۔ لیکن اس تاریخ کے آنے سے قبل ہی دہلی میں غالب تقریبات شروع ہو جاتی ہیں اور ’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور‘ کی دھوم مچ جاتی ہے۔غالب کے اشعار گنگنائے جانے لگتے ہیں اور ان کی حویلی اور مزار پر میلے لگنے لگتے ہیں۔مرزا نے کہا تھا کہ:ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نے غرق دریانہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا لیکن اگرایسا ہوا ہوتا تو ذرا سوچئیے کہ عاشقان غالب فاتحہ خوانی کہاں کرتے اور دہلی کی کون سی حویلی جھاڑ پونچھ کر سجائی جاتی۔ ساہتیہ کلا پریشد کی کنوینر اوما شرما کس کی غزلوں پر رقص پیش کرکے لوگوں کو اپنا دیوانہ بناتیں اور ادباء و شعراکس کے مزار پر گل پوشی کرتے۔ اگر غالب اردو کو نہ ملے ہوتے تو اتنے سارے ماہر غالبیات کہاں سے پیدا ہوئے ہوتے اور دنیا بھر میں گھوم گھوم کر کس’ فاقہ مست‘ شاعر کی شان میں قصیدے پڑھتے اور ’لذت کام و دہن‘ سے سرفراز ہوتے۔بر صغیر کے ممتاز طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین غالب صدی تقریبات کے موقع پر اپنے ایک خاکے میں مرزا سے سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ کو دوبارہ دنیا میں آنے کا موقع ملے تو کیا آپ پھر غالب کی حیثیت سے آنا چاہیں گے؟ اس پر مرزا کہتے ہیں کہ ’ میں غالب کی حیثیت سے تو نہیں ہاں ماہر غالبیات کی حیثیت سے ضرور آنا چاہوں گا‘۔
مجتبیٰ حسین کا مکمل مضمون، جو دراصل غالب کے خط کی شکل میں ہے، یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے
اسے مرزا اور مجتبیٰ کی ظرافت قرار دے کر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال غالب بحیثیت غالب سال بہ سال دہلی آتے ہیں اور اپنی تقریبات کے مزے لوٹتے ہیں۔ہاں کبھی کبھی وہ آج کے مشاعروں میں بھی غلطی سے چلے جاتے ہیں اور پھر آج کے غیر معیاری اشعار پر ٹوکتے ہیں تو آج کے شعرا کے ہاتھوں رسوا ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں کہ:غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیںروئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوںساہتیہ کلا پریشد کی کنوینر اوما شرما کئی سال سے فصیل بند شہر کے ٹاوٴن ہال سے بلی ماراں میں واقع غالب کی حویلی تک مشعل بردار جلوس نکالتی ہیں جسے آج کی زبان میں کینڈل مارچ کہا جاتا ہے اور راستے بھر غالب کے مداح و معتقد اس میں شامل ہو کر اس کی رونق دوبالا کرتے ہیں۔امسال بھی 16 دسمبر کو انھوں نے کینڈل مارچ نکالا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ٹاوٴن ہال چاندنی چوک سے نکلنے والا یہ شمع بدست قافلہ بلی ماراں کے گلی قاسم جان تک گیا اور غالب کی حویلی میں اس جشن کا اختتام ہوا۔اس پروگرام کا نام رکھا گیا تھا’آؤ چلیں شمع جلا کر غالب کی حویلی۔‘اس کا افتتاح معروف شاعر اور نامور فلمی شخصیت گلزار نے کیا اور اس میں فصیل بند شہر کی بے شمار شخصیات کے علاوہ ان کے دو غیر ملکی عاشقوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ ہیں جرمنی کے میتھس اور سویڈن کی لیزا ایڈوئیر۔میتھس غالب کے مداح ہی نہیں ہیں بلکہ انھوں نے کلام غالب پر کچھ کام بھی کیا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرزا غالب خود انھیں اپنی حویلی دکھانے لے جا رہے ہیں۔انھوں نے اس قافلے میں شرکت کو اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کیا اور کہا کہ ابھی تک وہ کتابوں میں غالب کی تصویریں ہی دیکھا کرتے تھے مگر آج پہلی بار وہ مرزا کی حویلی بھی دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مرزا کی غزلوں سے بہت متاثر ہیں اور یہ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ ان کے کلام کے اتنے دیوانے کیوں ہیں۔سویڈن کی باشندہ لیزا ایڈوئیر نے بھی اس یادگار غالب قافلے میں شرکت پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کینڈل مارچ میں حصہ لے کر ان کو بہت اچھا لگ رہا ہے۔پیشے سے وکیل لیزا غالب کی حویلی دیکھ کر حیران رہ گئیں اور انھوں نے اس عظیم شاعر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی جس کو لوگ آج بھی بے حد محبت سے یاد کرتے ہیں۔غروبِ آفتاب کے بعدٹاوٴن ہال میں شہر کے شعرا اور ادبا کا بھی اجتماع ہوا اورشمع کی روشنی میں کھڑے کھڑے شعرا نے اپنا کلام سنا کر غالب کو خراج عقیدت پیش کیا۔اسے ایک ایستادہ شعری نشست بھی کہہ سکتے ہیں۔دہلی کے ادبی حلقوں کے معروف شاعر متین امروہوی‘ شہباز ندیم ضیائی اورافضل منگلوری نے اپنے کلام سے لوگوں کو محظوظ کیا اورغالب کو خراج پیش کیا۔متین امروہوی دہلی کے واحد ایسے شاعر ہیں جنھوں نے غالب کی زمین میں سب سے زیادہ غزلیں کہی ہیں۔ابھی حال ہی میں ان کا ایک شعری مجموعہ’گلہائے سخن‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ 280صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں غالب کی 116غزلوں پر کہی ہوئی غزلیں شامل ہیں اور مصرعہٴ طرح لگائے گئے ہیں۔ یہ مجموعہ غالب کے شایان شان انتہائی خوبصورت انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے پہلے غالب کے اور پھر اس زمین میں اپنے اشعار سنائے۔ قارئین کے تفننِ طبع کے لیے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:بے خودی بے سبب نہیں غالبکچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے(غالب)سر میں سودا ہے قلب جاری ہےان سے ملنے کی بے قراری ہےجان جانی ہے جان جائے گی یہ امانت کہاں ہماری ہےہے ازل سے حریم ناز میں وہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے(متین امروہوی)سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہےبس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے(غالب)دل پریشاں ہے ہمارا جان بھی مشکل میں ہےکیوں نہیں چلتا وہ خنجر جو کف قاتل میں ہے(متین امروہوی)ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلےبہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے(غالب)یہ کہنے کو سبھی کہتے ہیں کعبے سے صنم نکلےہمارے دل سے وہ نکلے نہ ان کے دل سے ہم نکلےستارے جن کو سمجھا تھا مری چشم بصیرت نے جب ان کو غور سے دیکھا ترے نقش قدم نکلےتمنا‘ آرزو‘ ارمان‘ حسرت کے علاوہ بھیبہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے(متین امروہوی)ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی(غالب)ہم ترے ناز اٹھائیں گے سبھیبے نیازی تری عادت ہی سہی(متین امروہوی)تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزےدیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا(غالب)رقص بسمل یہ سنا تھا سر مقتل ہوگادیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا(متین امروہوی)واضح رہے کہ مرزا غالب کے مصرعوں پر ہندوستان میں مشاعرے بھی ہوتے ہیں، لیکن جس طرح غالب کی غزلوں اور ان کے مصرعوں پر متین امروہوی نے با لقصدغزلیں کہی ہیں اور مصرعِ طرح لگائے ہیں شاید اس طرح کسی اور شاعر نے کام نہیں کیا ہے۔اس تقریب میں غالب کے کلام پر انگریزی میں کام کرنے والے پون کمار شرما نے بھی حصہ لیا اور اپنے خیالات کا اظہار کر کے غالب کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔گاجے باجے اور موسیقی کے دلکش و دلنواز آہنگ کے درمیان یہ شمع بدست قافلہ غالب کی حویلی میں پہنچا اور وہاں یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مرزا غالب عالم ارواح سے کہہ رہے ہوں:وہ آویں گے مرے گھر‘ وعدہ کیسا‘ دیکھنا غالبنئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی آزمائش ہےاورہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہواجبکہ وہاں موجود شرکا جیسے کہہ رہے ہوں:یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتاکچھ تو کہیئے کہ لوگ کہتے ہیںآج غالب غزل سرا نہ ہواہوئی مدت کہ غالب مر گیا ‘پر یاد آتا ہےوہ ہر یک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتاادھر غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ایوان غالب میں نظیر اکبرآبادی پر منعقدہ بین الاقوامی غالب سیمینار کے موقع پر ڈراما ’غالب کی واپسی‘ پیش کیا گیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ہم سب ڈراما گروپ کی جانب سے اے آر کاردار کی ہدایت میں پیش کیا جانے والا یہ ڈراما دراصل قدیم اور جدید عہد کے مابین نمایاں فرق اور شاعری کے گرتے معیار پر ایک تازیانہ ہے۔ساڑھے تین گھنٹے تک مسلسل جاری اس ڈراما میں دو مشاعرے ہوتے ہیں۔ ایک غالب کے عہد میں اور دوسرا موجودہ عہد میں۔ اس کا مقصد شائد یہ دکھانا تھا کہ کس طرح آج کے مشاعروں کا معیار پست ہو گیا ہے۔ شروعات یوں ہوتی ہے کہ مرزا غالب عالم ارواح سے عالم ہست و بود میں آتے ہیں اور فصیل بند شہر میں ادھر سے ادھر مارے مارے پھرتے ہیں لیکن کوئی ان کو پہچان نہیں پاتا۔ اگر کسی سے وہ اپنا تعارف کراتے ہیں تو وہ ان کو کوئی ڈراما آرٹسٹ سمجھتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ اسی چہل قدمی اور خود کو پہچوانے کے درمیان ان کی ملاقات ایک گائڈ سے ہو جاتی ہے جو ان کو پہچان لیتا ہے اورانھیں عہد قدیم اورعہد جدید کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ دہلی اب وہ نہیں رہ گئی جو آپ چھوڑ کر گئے تھے بلکہ اب بہت حد تک بدل گئی ہے۔ وہ ایک مشاعرے میں بھی پہنچ جاتے ہیں اور انہیں صدر مشاعرہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن آج کے غیر معیاری کلام پر ان کا دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔اس وقت تو حد ہو جاتی ہے جب مرزا بحیثیت صدراپنا کلام سنانے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک شاعر ان سے کہتا ہے کہ حضور اگر میں کہتا تو اس شعر کو یوں کہتا۔ اس پرغالب بھڑک جاتے ہیں اورعالم ارواح کی جانب یہ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ یا اللہ مجھے اس دنیا سے واپس بلا لے۔ اے آر کاردار خود غالب کے رول میں ہوتے ہیں اور اس رول میں جان ڈال دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے فلم مرزا غالب میں بھارت بھوشن نے اور سیریل مرزا غالب میں نصیر الدین شاہ نے جان ڈال دی تھی۔ساڑھے تین گھنٹے تک جاری اس ڈراما میں کاردار کی ٹیم نے خاصی محنت کی جس کی وجہ سے سامعین کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈراما شروع ہوا اور کب ختم ہو گیا۔

(published on Website of Voice of America At www.voanews.com/urdu