Thursday, October 29, 2009

تاج محل ہند ایران مشترکہ فن تعمیر کی علامت ہے: دہلی میں بین الاقوامی سیمینار

دنیا کی خوب صورت ترین عمارات میں سے ایک تاج محل ہند ایران مشترکہ فن تعمیر کی علامت ہے اور دنیا کی ثقافت میں اپنی ایک علاحدہ اور انفرادی شان رکھتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دہلی یونیورسٹی میں ایک دوروزہ بین الاقوامی سیمینار میں کیا گیا جو کہ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوری ایران اور دہلی یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ تاج محل ہند ایران ہندوستان مشترکہ طرزِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاج محل کی تعمیر پر ایران کے اثرات ہیں۔ موریہ عہد میں ہندوستان میں فن وثقافت کا فروغ ایران کے زیر اثر ہوا۔ تاج محل مغل طرز تعمیر کا حصہ ہے لیکن اس پر ایران کے اثرات ہیں۔ اس دور میں بہت سی چیزیں ایران سے ہندوستان آچکی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاج محل کی اپنی ایک جدت ہے۔یہ مختلف طرز ہائے تعمیر کا مجموعہ ہے، تاہم یہ عمارت اپنی نوعیت کی الگ عمارت ہے، خواہ اس میں قدیم ہندوستانی فن تعمیر ہو یا ایرانی طرز یا وسطی ایشیا کے آرٹ کے نمونے، دنیا کے کلچر میں تاج محل کی اپنی حیثیت ہےاور یہ منفرد شناخت کا حامل ہے۔

سیمینار میں اسلامی جمہوری ایران کے سفیر مہدی نبی زادہ نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے تاج محل کو ہند ایران مشترکہ ثقافت کی علامت قرار دیا اور کہا کہ ایرانی فن تعمیر ہندوستان میں بہت مقبول ہے۔ یہ تاریخ دانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تاج محل سے متعلق تحقیق میں ہند ایران روابط تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

ایران کلچر ہاؤس میں کلچرل کونسلر ڈاکٹر کریم نجفی نے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد ہندوستان اور ایران کے پانچ ہزار سال پرانے روایتی، تہذیبی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سیمینار تاج محل کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔

انہوں نے تاج محل کی تعمیر کے بارے میں بتایا کہ اس عمارت کے چیف آرکیٹکٹ ایران کے محمد عیسی شیرازی تھے، جنھوں نے اس کا نقشہ تیار کیا اور آخر تک اس کی تعمیر میں مصروف رہے۔ تاج محل کی دیواروں پر فن خطاطی کے جو نمونے ہیں وہ امانت خاں شیرازی کی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تاج محل کی عمارت دونوں ملکوں کی مشترکہ تہذیب کی علم بردار ہے۔

پروفیسر سید ظہور حسین جعفری صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی نے شرکا کا استقبال کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہندوستان اور ایران کے ثقافتی مراسم اور تہذیب و تمدن کی وراثت مشترک اور یکساں ہے۔

ڈاکٹر محمود اعضی مشیر صدر سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی، جمہوری اسلامی ایران نے بطور خاص سیمینار میں شرکت کی اور کہا کہ اس قسم کے سیمینار قدیم تہذیب کو محفوظ رکھنے اور ہند ایران رشتوں کو مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اس دوروزہ بین الاقوامی سیمینار میں، جو کہ 24اکتوبر کو ختم ہوا،ایران کی تیس یونیورسٹیوں کے نمائندوں اور ہندوستان کے کم از 40 تاریخ دانوں اور دانش وروںنے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کیے، جن میں پروفیسر عرفان حبیب، پروفیسر شیریں موسوی، ڈاکٹر یونس جعفری، ڈاکٹر شریف حسین قاسمی، پروفیسر اختر مہدی، پروفیسر چندر شیکھراور پروفیسر نین جوت قابل ذکر ہیں۔

Tuesday, October 6, 2009

لکھنو میں فلمی نغموں کے قدیم گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ

اگر کسی کو قدیم اور تاریخی فلمی نغموں سے دلچسپی ہو اور وہ ان سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو تو اسے لکھنو کی سلطنت منزل کی زیارت کرنی چاہئیے، جہاں بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر اواخر تک کے قدیم فلمی نغموں کے گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ موجود ہے۔ یہ نادر ذخیرہ رائل فیملی آف اودھ کی کاوشوں کا مرہون منت ہے اور اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے میں کئی نسلوں کی خدمات شامل ہیں۔

نوابی دور میں گرامو فون کا بہت چلن تھا اور ان نغموں سے مہمانوں کی آؤ بھگت بھی کی جاتی تھی۔اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے کا آغاز خان بہادر نواب سید حامد حسین خان نے کیا تھا۔وہ برطانوی حکومت میں لائف مجسٹریٹ اور لکھنو میونسپلٹی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ان کے بعد اس روایت کو لکھنو کے اسپیشل مجسٹریٹ نواب سید مہدی حسین اور پلے وے ہائی اسکول لکھنو کے بانی نواب سید رضا حسن خان نے آگے بڑھایا اور انہوں نے انتہائی جاں فشانی کے ساتھ اس ذخیرے میں چار چاند لگا دیے۔

موجودہ دور میں یہ ذمے داری پروفیسر سید علی حامد اور ایڈوائزری بورڈ رائل فیملی آف اودھ کے وائس چیئرمین سید معصوم رضا ایڈووکیٹ انجام دے رہے ہیں اور اس ذخیرے میں بھرپور اضافہ کر رہے ہیں۔

سید معصوم رضا ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ کم و بیش ایک صدی پر محیط اس کلیکشن میں ریکارڈوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے۔ بیشتر ریکارڈ اپنی اصل صورت میں ہیں اور اردو اور انگریزی میں لکھے اوریجنل کور میں آج بھی موجود ہیں۔یہاں ایسے متعدد ریکارڈ ہیں جن کے صرف ایک سائڈ میں ریکارڈنگ ہے۔سلیٹ اور لاٹ کے بنے ہوئے یہ ریکارڈ 78پی ایم پر بجتے ہیں۔ریکارڈ بجانے والا ہز ماسٹر وائس یا ایچ ایم وی آج بھی پہلے کے سے انداز میں بج رہا ہے۔

سلطنت منزل کے اس ذخیرے میں مجرے، ٹھمری، دادرا، غزلیں، شاستریہ سنگیت، سوگم سنگیت، فلمی گانے اور انگریزی کے گانے بھی شامل ہیں۔یہاں ہز ماسٹر وائس اور دمدم کولکتہ کے علاوہ پرانے ہندوستانی اور غیرملکی ریکارڈ بھی موجود ہیں۔

نواب حامد حسین خاں کے نام سے موسوم حامد روڈ پر واقع طلعت منزل میں ایسے قدیم گلوکاروں کے ریکارڈ بھی موجود ہیں، جن کے نام آج کے دور میں بہت سے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہوں گے۔جیسے کہ ملکہ جان، علی بخش، مس دلاوری، بے بی اندرا، نسیم بانو، مس سروجنی، پیارا صاحب، نسیم اختر، مس کملا، وحیدن بائی، امیر بائی کرناٹکی اور اختری بائی کے ریکارڈ قابل ذکر ہیں، جنھوں نے بعد میں بیگم اختر کے نام سے شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ معروف گلوکاروں میں کے۔ ایل۔ سہگل، شمشاد بیگم، نور جہاں، لتا منگیشکر، طلعت محمود، محمد رفیع اور مکیش قابل ذکر ہیں۔
سید معصوم رضا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ریکارڈوں کے اس کلیکشن کا تحفظ بہت مشکل کام ہے۔سلیٹ اور لاکھ کے بنے ان ریکارڈوں کے ٹوٹنے کا بہت خطرہ رہتا ہے۔البتہ اب پلاسٹک کے ریکارڈ بننے لگے ہیں جس سے ان کے رکھ رکھاؤ اور تحفظ میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ پروفیسر سید حامد علی اور سید معصوم رضا کا کہنا ہے کہ ان ریکارڈوں کی چمک دمک کو بچانا ایک دشوار ترین مرحلہ ہے تاہم وہ ان کے تحفظ کی پوری کوشش کرتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے تو پرانے گانوں کو سن کر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔