Friday, February 27, 2009

Jade Goody to Die



اداکارہ کی موت کی لائیو ٹیلی کاسٹ: اخلاقیات کی دنیا کا نیا تنازعہ


ایک برطانوی اداکارہ کی عجیب و غریب خواہش کے بعد پوری دنیا میں بحث کا دروازہ کھل گیا ہے، جس نے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا کسی کی موت کی لائیو ٹیلی کاسٹ مناسب ہے یا نا مناسب، جائز ہے یا ناجائز، قانونی ہے یا غیر قانونی، اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی؟ اسی کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ کیا آج کے رئیلٹی شو واقعی رئیلٹی شو ہیں یا یہ محض بناوٹی شو ہیں۔

 ٹی وی سلیبریٹی کا نام ہے جیڈ گوڈی۔ وہ برطانیہ کی رہنے والی ہے اور اس کی عجیب و غریب خواہش ہے کہ وہ کیمرے کے سامنے مرنا چاہتی ہے۔ یعنی وہ اپنی موت کو بھی ایک ٹی وی رئیلٹی شو بنا دینا چاہتی ہے۔جیڈ گوڈی کو کینسر ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کی زندگی کے بس اب چند ہفتے ہی بچے ہیں۔27 سالہ جیڈ گوڈی دو بچوں کی ماں ہے اور ابھی اتوار کے روز اس کے منگیتر جیک ٹویڈ کے ساتھ اس کی شادی ہوئی ہے۔اطلاعات کے مطابق اس کی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ کے حقوق برطانیہ کے لیونگ ٹی وی نے بھاری قیمت دے کر خرید لیے ہیں۔اس کی شادی کی تصاویر OK میگزین نے سات لاکھ پونڈ میں خریدی ہیں،جبکہ ITV پروڈکشن کمپنی گریناڈا میڈیا نے شادی کی فلم بندی کی ہے۔ جیڈ گوڈی کے ایجنٹ میکس کلیفورڈ کے مطابق یہ رقوم جیڈ کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں کام آئے گی۔خیال رہے کہ جیڈ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ٹی وی سلیبریٹی کے طور پر کیمرے کے سامنے گزارا ہے۔

جیڈ کے بارے میں ہندوستانیوں کو پہلے کچھ پتا نہیں تھا۔ لیکن لندن کی ایک رئیلٹی شو Big Brother سے یہاں کے لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چلا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس شو میں ہندوستان کی اداکارہ شلپا شیٹی نے شرکت کی تھی اور اس شو کے دوران جیڈ نے شلپا کے خلاف ایک نسل پرستانہ فقرہ پاس کیا تھا، جس پر زبرد ست ہنگامہ ہوا اور بالآخر جیڈ کو اس شو سے جانا پڑا اور شلپا شیٹی شو کی فاتح قرار پائی۔

جیڈ کے ریمارکس نے اس وقت بھی ہندوستان میں ایک بحث چھیڑ دی تھی کہ کیا برطانیہ کے لوگوں کے دل و دماغ میں اب بھی نسل پرستانہ جذبات پہلے کی مانند موجود ہیں؟ اس کے بعد گذشتہ سال ہندوستان میں بھی ایک اسی قسم کا شو کیا گیا جو 90 دنوں تک چلا۔اتفاق دیکھئے کہ اس شو کی میزبان شلپا شیٹی تھی اور جیڈ گوڈی ایک فیملی ممبر کے طور پر اس میں شامل ہوئی تھی۔جیڈ کے بارے میں یہاں لوگوں کے خیالات اچھے نہیں تھے لیکن اس نے شلپا سے معافی مانگی اور پھر اپنے اخلاق سے بگ باس کے فیملی ممبران کے دل جیت لیے۔

لیکن اسی دوران، جب کہ جیڈ کو بگ باس کے گھر میں آئے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ اس کی زندگی میں ایک بھیانک طوفان آگیا اور بگ باس کے گھر والے بھی اس طوفان سے متاثر ہوئے۔طوفان کینسر کی شکل میں آیا۔ جیڈ کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اسے سروائکل کینسر ہے اور اس کے پاس اب زیادہ دن نہیں ہیں۔جیڈ واقعتا ٹوٹ گئی اور چند دنوں کے بعد بگ باس کا گھر چھوڑ کر برطانیہ چلی گئی۔جہاں اس کا علاج چل رہا تھا۔لیکن زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ عجیب و غریب خواہش نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اور پھر تقریباً پورا ہندوستان اس کے غم میں شریک ہو گیا اور سب کو اس سے ہمدردی ہو گئی۔

فلموں میں تو موت کے مناظر دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ نقلی اور بناوٹی ہوتے ہیں اس لیے ناظرین کے دل و دماغ پر اس کے منفی اثرات نہیں پڑتے۔ لیکن حقیقی موت کو ٹی وی پر دکھانا؟ ایک شخص کو لمحہ بہ لمحہ مرتے ہوئے ریکارڈ کرنا اور اس کو دنیا کو دکھانا، یہ عجیب و غریب معاملہ ہے۔فلموں میں موت کے مناظر اس لیے ناظرین کے دلوں پر کوئی دھچکا نہیں لگاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو شخص مر رہا ہے وہ حقیقتاً نہیں مر رہا ہے بلکہ وہ مرنے کی ایکٹنگ کر رہا ہے۔لیکن جیڈ تو حقیقتاً مرے گی۔ تو کیا اسے بھی لوگوں کو دکھایا جائے؟

 جیڈ کی خواہش پر برطانیہ میں بھی بحث شروع ہو گئی ہے اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی۔ ہندوستان میں بھی اس پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔خاص طور پر ٹی وی پر ایسی بحث ہو رہی ہے کہ کیا کسی کی موت کا لائیو ٹیلی کاسٹ ہونا چاہئیے۔اس معاملے میں قانون کیا کہتا ہے، اخلاقیات کا کیا تقاضہ ہے اور کیا یہ موت جیسی ایک اٹل اور تکلیف دہ حقیقت کو بیچنا نہیں ہے۔کیا اب موت کی بھی سوداگری ہوگی اور کیا آئندہ چل کر ایسے ٹی وی چینل بھی شروع ہو جائیں گے جو صرف حقیقی اموات کو دکھائیں گے؟

اس بحث میں نہ صرف ٹی وی سلیبریٹیز کو شامل کر لیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی اس میں حصے دار بنا لیا گیا ہے جو بگ بردر اور بگ باس جیسے شوز میں شریک ہوئے تھے۔اس کے ساتھ قانو ن دانوں اور میڈیا اداروں کے لیے ضابطہٴ اخلاق بنانے یا ان پر زور دینے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

بگ باس کے فیملی ممبران کے نزدیک جیڈ کی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ میں کوئی برائی نہیں ہے اور اگر یہ ٹیلی کاسٹ ہوا تو وہ اس کو ضرور دیکھیں گے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک فن کار ایک تلخ سچائی کو اور اس کی اذیتوں کو کیمرے کے سامنے ریکارڈ کروا کر دنیا کو دکھانا چاہتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے جو رقم حاصل ہوگی وہ جیڈ کے دونوں بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے کام آئے گی۔ اس طرح اسے اپنی اولاد کے تئیں ایک ماں کی قربانی کے طور پر بھی دیکھنا چاہئیے۔ 

دوسری طرف بعض ٹی وی اداکارروں کے خیال میں ا یسے شوز کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہئیے۔ان کے نزدیک یہ تو موت کو بیچنا ہے اور اگر جیڈ کے بچوں کے تعلق سے لوگوں کو فکر ہے تو انہیں، حکومت اور سماج کو چاہئیے کہ وہ ان کے مستقبل کی فکر کریں اور ان کے لیے کوئی انتظام کریں۔

بعض ماہرین قانون بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون اس بارے میں خاموش ہے کہ کسی کو اپنی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق ہے یا نہیں۔نہ تو برطانیہ میں اس سلسلے میں کوئی قانون ہے اور نہ ہی ہندوستان میں۔ہاں اگر کوئی خود کشی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون ہے۔ اگر خود کشی کرنے والا کامیاب ہو گیا تو ٹھیک، اور اگر ناکام ہو گیا تو اس کو اس جرم کی پاداش میں سزا ملے گی۔لیکن اپنی موت کو دنیا کو دکھانے کے بارے میں ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا۔اس لیے اس کو اس کی اجازت ہے۔ٹیلی ویژن پر صارفیت کو فروغ دینے کا الزام لگانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسی ٹی وی کلچر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔اب ہر چیز بیچی جائے گی اور ہر چیز کی قیمت لگے گی۔ 

اس بحث نے کافی طول پکڑ لیا ہے اور اب تو اس کا دائرہ بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دنیا میں جو رئیلٹی شوز ہوتے ہیں کیا واقعی وہ رئیل یا حقیقی ہوتے ہیں۔کیا وہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتے۔اور کیا واقعی دنیا میں رئیلٹی ٹی وی کا وجود ہے یا یہ محض بناوٹی ٹی وی ہے؟

میڈیا کی بعض سرکر دہ شخصیات کے مطابق رئیلٹی ٹی وی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ سب بناوٹی ہے۔یہ عوام کو بیوقوف بنانے کی چالیں ہیں۔رئیلٹی ٹی وی ہو یا نیوز ٹی وی ہو، ہر جگہ ناظرین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے۔وہ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ نہیں دکھایا جاتا اور جو کچھ دکھانے سے میڈیا اداروں کو مالی فائدہ ہوتا ہے وہی چیز دکھائی جاتی ہے۔بگ باس میں شریک ایک رکن سیاست داں، سابق ممبر پارلیمنٹ اور ممبئی کانگریس کے صدر سنجے نروپم کے خیال میں بگ باس میں چوبیس گھنٹے کیمرے آن رہتے تھے اور مسلسل شوٹنگ ہوتی رہتی تھی لیکن ٹی وی پر صرف چالیس منٹ کے مناظر دکھائے جاتے تھے اور وہ وہی مناظر ہوتے تھے جو پروگرام بنانے والوں کے مفادات کو سوٹ کرتے تھے۔

بہر حال جیڈ گوڈی کی عجیب و غریب خواہش نے پوری دنیا میں ایک بحث چھیڑ دی ہے جس کا دائرہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔توقع ہے کہ یہ بحث جیڈ کی موت کے بعد بھی جاری رہے گی۔ ادھر جیڈ کے ایجنٹ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جیڈ کی موت کا لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔یہ وعدہ پورا ہوگا یا نہیں اس کا فیصلہ جیڈ کی موت کے بعد ہی ہوپائے گا۔

Saturday, February 21, 2009

Translation Mechanism:مشینی ترجمہ: تہذیبی شناخت اور لفظ و معنی کا پیچیدہ رشتہ

سہیل انجم
نئی دہلی
February 20, 2009
کیا مشین ہر کام کر سکتی ہے؟ کیا ٹیکنالوجیکل ترقی کے اس دور میں وہ مختلف زبانوں کا آپس میں اس طرح ترجمہ کر سکتی ہے کہ لفظ ومعنی کا پیچیدہ رشتہ اور تہذیبی شناخت مجروح نہ ہو اور کیا وہ بین السطورمیں پوشیدہ انسانی جذبات و احساسات کی بھی ترجمانی کے فرائض انجام دے سکتی ہے؟
اس بحث کا آغاز نئی دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں ہوا اور بحث اس نتیجے پر ختم ہوئی کہ مشینی ترجمہ نگار یا خودکار مترجم ترجمے کے عمل میں آسانیاں تو فراہم کر سکتا ہے لیکن وہ لسانی و تہذیبی پیچیدگیوں سے نہ توبہ آسانی گزر سکتا ہے اور نہ ہی ان میں باہمی فرق کو واضح ہی کر سکتا ہے۔
اس موضوع پر کلیدی خطبہ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ لسانیات کے چئیرمین اور استاد پروفیسر اے آر فتیحی نے پیش کیا۔ انھوں نے انتہائی بلیغ انداز میں ترجمے کے تاریخی پس منظر، مختلف زبانوں میں ترجمے کی روایت اور بھارت میں ترجمے کی تاریخ پر اظہار خیال کیا۔جبکہ دوسرے لوگوں نے بھی مذہبی ترجمے، تہذیبی ترجمے اور ادبی ترجمے پر اپنے خیالات رکھے اور کہا کہ ہندوستان میں ادبی ترجموں سمیت دوسرے ترجموں کی بھی توانا اور جامع روایت رہی ہے اور اس روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔سیمینار میں فکشن کے ترجمے میں عملی مسائل کا بھی ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر مترجم زبان کی باریکیوں اور اس کے تاریخی پس منظر سے واقف نہیں ہے تو وہ اچھا ترجمہ نگار نہیں بن سکتا۔مختلف زبانوں سے ترجمہ کے عمل کے دوران مترجم کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے جب نہ صرف زبان و ادب کی پوری معلومات ہو بلکہ مترجم اس زبان کی تہذیبی روایات سے بھی واقف ہو۔ورنہ اصل متن کا مفہوم کچھ اور ہوگا اور ترجمہ شدہ متن کا مفہوم کچھ اور ہوگا۔اگر مترجم تہذیبی علم نہیں رکھتا تو ترجمہ کے ساتھ زبردست ناانصافی ہوگی۔
مثال کے طور پر انگریزی زبان گرچہ ایک زبردست لسانی قوت رکھتی ہے لیکن ’سندور‘ یا ’سہاگن‘ جیسے بعض تمدنی الفاظ کے اظہار میں انتشار کا شکار ہو جاتی ہے اور پروفیسر فتیحی کے مطابق ان الفاظ کی لسانی منتقلی میں وہ ترسیلی جہتیں ابھر کر سامنے نہیں آپاتیں جو ان الفاظ سے وابستہ ہیں۔
محاورات، تشبیہات، استعارے اور تمثیلی پیکر کے ترجمے بعض دفعہ مسائل کا سبب بنتے ہیں اور بعض صورتوں میں ان کی براہ راست لسانی منتقلی نہیں ہو پاتی،کیونکہ مختلف زبانوں میں ایسی لفظ بہ لفظ مماثلت نہیں ملتی جو با معنی بھی ہو اور درست بھی ہو۔
ایک مقرر نے میر کے اس شعر کی مثال پیش کی، نازکی اس کے لب کی کیا کہئے۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کا ترجمہ کرتے وقت ہر لفظ کا ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن لفظ ’سی‘ کا کیا ترجمہ کیا جائے؟
اسی طرح پروفیسر فتیحی نے انگریزی کے لفظ ڈومیسٹک(Domestic) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ایک لفظ سے انگریزی میں کئی مفہوم نکلتے ہیں۔ لیکن جب ہم اردو میں اس کا ترجمہ کریں گے تو جملوں کے حساب سے الگ الگ مفاہیم نکلیں گے۔اگر یہ لفظ Catیعنی بلیّ کے لئے استعمال ہوگا تو اس کا مطلب ہوگاپالتو۔ اگر مسائل یعنی Problemکے ساتھ اس کا استعمال ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا خانگی۔ اگر امور یا Issuesکے ساتھ ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا داخلی اور اگر پرواز یعنی Flightکے ساتھ ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا گھریلو۔
گویا لفظ و معنی کا رشتہ ہمیشہ پیچیدہ رہا ہے۔مترجم ترجمے کے دوران لفظ ومعنی کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ادراک کی گہرائیوں میں اترتا ہے اور لفظ و معنی کی وحدت کو تلاش کرتا ہے کیوں کہ لغت لفظ کے معنوی پہلو کو تو اجاگر کرتی ہے لیکن ثقافتی اور تمدنی حرکیات کا ترجمہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مترجم ادراک کی گہرائیوں میں اترنے اور مصنف کے تجربے تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ڈاکٹر فتیحی کے خیال میں مصنف اور مترجم کے مابین ذہنی روابط میں کمی مترجم کو متن کے ظاہری معنی تک محدود کر دیتا ہے اور اس طرح ترجمہ لسانی ترجیحات کے جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس تناظر میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جب انسانی مترجم جو کہ ذہن و دماغ بھی رکھتا ہے لسانی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی پس منظر سے عدم واقفیت کی بنیاد پر فن ترجمہ کی گہرائیوں میں غوطے کھانے لگتا ہے تو پھر مشین اس پیچیدہ عمل سے بہ کمال کامیابی کیسے گزر سکتی ہے؟
اس کے علاوہ مشین انسانی جذبات و احساسات سے بھی عاری ہوتی ہے لہذا وہ ترجمے کی باریکیوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ترجمے کے دوران مترجم کے تجربات بھی کام آتے ہیں اور وہ تجربات صداقت کی توسیع میں ایک نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔اور پھر اس طرح ترجمہ شدہ متن میں سچائیوں کی نئی پرتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
بقول ڈاکٹر فتیحی ترجمے کے ایسے نمونوں میں مصنف اور مترجم ایک دوسرے سے ابلاغ کرتے ہیں اور ترجمہ ذہنی رد و قبول کے مراحل سے گزر کرایک ایسے فکری ساختیے کو ترتیب دیتا ہے جو سکہ بند معنویت سے آزاد ہوتا ہے۔ ایسے ترجموں میں توجہ لفظی مماثلت سے زیادہ فکری مماثلت پر ہوتی ہے تاکہ متن کی معنویت کا نظام رواں دواں رہے۔
ہندوستان میں ترجموں کی روایت بہت قدیم ہے۔مغلیہ دور میں بھی ترجمہ نگاری کو اہم سمجھا گیا تھا اور سنسکرت کی، علمی،ادبی اور مذہبی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ترجمے کی روایت کا دوسرا اہم دور برٹش دور حکومت میں فورٹ ولیم کالج کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔اس دور میں ادبی ترجمے بھی خوب ہوئے۔
مشینی ترجمے پر پاکستان میں کافی کام ہوا ہے لیکن ہندوستان میں اتنا نہیں ہوا ہے۔یہاں پونے میں واقع سینٹر فار ڈیولپمنٹ آف ایڈوانسڈ کمپیوٹر نے اس سلسلے میں کچھ کام کیا ہے۔لیکن اردو کا معاملہ بہت پچھڑا ہوا ہے۔کمپیوٹر دیوناگری رسم الخط کا ترجمہ اردو رسم الخط میں کر تو دیتا ہے لیکن بات بنتی نہیں۔کیونکہ کمپیوٹرترجمہ نہیں کرتا صرف Translitration کرتا ہے۔گویا اگر ہم مشینی ترجمے پر زور دیں گے تو لسانی اور تہذیبی و تمدنی خصوصیات متاثر ہو ں گی۔ہندوستان میں اسکرپٹ سے متعلق دشواریاں ہیں جنہیں ابھی دور نہیں کیا جا سکا ہے۔جبکہ پاکستان میں بہت حد تک کامیابی مل گئی ہے۔
ڈاکٹر فتیحی کا مزید کہنا ہے کہ مشینی ترجمے کا مقصد ترجمے کے عمل کو کمپیوٹر کی مدد سے آسان بنانا ہے، تاکہ تعلیمی، تکنیکی اور معلوماتی مواد تیار کیا جا سکے۔جب اس سلسلے میں ایک خودکار مترجم تیار کرنے کی کوشش شروع ہوئی تھی تو انتہائی جوش و ولولہ کے ساتھ یہ توقع کی گئی تھی کہ جلد ہی ایک ایسا سافٹ ویر ایجاد ہو جائے گا جس میں اگر کسی زبان کا متن داخل کیا جائے تو مطلوبہ زبان کا ترجمہ آسانی کے ساتھ مل جائے گا۔لیکن لسانی تحقیق سے یہ اندازہ ہوا کہ مشینی ترجمہ بھی آسان کام نہیں ہے۔تاہم انھوں نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ مکمل طور پر کوئی خود کار مترجم نہ بھی تیار ہو تب بھی مشینی ترجمے سے ترجمے کے عمل میں آسانی فراہم ہو جائے گی۔

Wednesday, February 18, 2009

Indian Media & Urdu Language: بھارتی میڈیا اور اردو زبان کی ایک نئی شکل: تحقیقی مضمون

سہیل انجم
نئی دہلی
February 16, 2009

یہ ٹوئنٹی فور آور نیوز چینلوں کا زمانہ ہے۔آپ شب و روز کے کسی بھی لمحے میں ٹی وی آن کریں تو تازہ ترین خبریں آپ کے استقبال کو موجود ملیں گی۔خبروں کی کئی اقسام ہوتی ہیں اور عام خبریں کسی خاص طبقے یا مذہب کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے لیے ہوتی ہیں۔گویاآپ کہہ سکتے ہیں کہ خبریں اپنی فطرت کے اعتبار سے سیکولر ہوتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ خبر دینے والا انہیں فرقہ پرستی کا لباس پہنا دے یا دہشت گردی کا۔ جب یہ خبریں عام طبقات کے لیے ہوتی ہیں تو ضروری ہے کہ وہ سب کی سمجھ میں بھی آئیں۔اگر وہ سب کی سمجھ میں نہیں آتیں یا ان کو کچھ خاص طبقات ہی سمجھ پاتے ہیں تو وہ اپنے مقصد کی تکمیل کی منزل تک پہنچنے سے قاصر ہوتی ہیں اور اگر ایسا ہے تو ان خبروں کا یا خبر دینے والے کا سب سے بڑا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

جب ہم الیکٹرانک میڈیا میں اردو سے استفادے پر غور کرتے ہیں تو اس کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔اول،اردو الیکٹرانک میڈیا میں اردو کی صورت حال اور دوم، غیر اردو الیکٹرانک میڈیا میں اردو کی صورت حال۔اردو الیکٹرانک میڈیا میں ہم موٹے طور پر ٹی وی اور ریڈیو کو رکھ سکتے ہیں۔اس وقت اردو ٹی وی کے دوٹوئنٹی فور آور چینل ہمارے سامنے ہیں۔ ایک ای ٹی وی اردو اور دوسرا ڈی ڈی اردو۔ 

ہندوستان میں سب سے پہلے اردو ٹی وی شروع کرنے کا سہرا حیدرآباد کے اناڈو ٹی وی کے مالک راموجی راوٴ کے سر جاتا ہے جو اردو کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر زبانوں میں بھی چینل چلا رہے ہیں۔ای ٹی وی اردو کا آغاز اگست 2001ءمیں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک کی اس قلیل مدت میں اس نے مقبولیت کے معیار پر خود کو کھرا ثابت کیا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ای ٹی وی اردو اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔غالباً اس کی سب سے بڑی وجہ اردو داں طبقے کو بہتر انداز میں ٹارگٹ کرنا ہے۔اس کے بعض پروگرام کافی مقبول ہیں،جن میں خاص بات،عالمی منظر، آپ کے مسائل، ای ٹی وی کشمیر، اردو مشاعرہ اور کسی حد تک گفتگو کے نام لیے جا سکتے ہیں۔یہ ٹوئنٹی فور آور چینل تو ہے لیکن مکمل طور پر ٹوئنٹی فور آور نیوز چینل نہیں ہے،اس پر دوسرے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں۔ تاہم خبروں کا حصہ خاصا ہے۔ہر گھنٹے پر نیوز پیش کی جاتی ہے۔ 


اس کی خبریں اردو زبان ہی میں ہوتی ہیں۔نیوز ریڈرز کا تلفظ بھی ٹھیک ٹھاک ہے اور خبروں کا معیار بھی پست نہیں ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہر جگہ اس کے اردو نامہ نگار موجود نہیں ہیں۔اسی لیے ہندی نامہ نگاروں سے ہی اردو میں بھی کام چلایا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر اردو خبروں میں ہندی رپورٹنگ ہونے لگتی ہے۔اگر ہم اس سے الگ ہٹ کر خبروں کی اسکرپٹ پر غور کریں تو پائیں گے کہ وہ قطعی غیر معیاری نہیں ہوتیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ عام فہم اردو کے ساتھ ساتھ معیاری اردو بھی استعمال کی جائے۔مذکورہ پروگراموں کے علاوہ دوسرے پروگرام بھی آتے ہیں اور ان میں مختلف طبقات کے ناظرین کے ذوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔اب چونکہ اردو زبان تقریباً ًاور عملاً مسلمانوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے لہذا مسلمانوں کی دلچسپی کی دوسری چیزیں بھی وقت اور موسم کے اعتبار سے پیش کی جاتی ہیں اور یہ سارے پروگرام عام فہم اردو میں ہوتے ہیں۔

ای ٹی وی اردو کے مقابلے میں ڈی ڈی اردو کم مقبول ہے۔چونکہ یہ سرکاری چینل ہے اس لیے اس کا انداز ذرا مختلف ہے اور اس پر جو چیزیں آتی ہیں وہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ اردو داں طبقے کو سامنے رکھ کرپیش کی جاتی ہیں۔ڈی ڈی اردو سے پہلے دور درشن پر اور اس سے پہلے ڈی ڈی نیوز پر اردو میں خبریں آتی تھیں۔ یو پی اے حکومت میں اردو کے سرکاری چینل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا او ر 15 اگست 2006ء کو دوردرشن کا اردو چینل قائم ہوا جو پہلے سات گھنٹے کا تھا پھر اسے 14 نومبر2007 ءکو چوبیس گھنٹے کا کر دیا گیا۔

 اس پر خبروں کے دو بلیٹن آتے ہیں۔ ایک صبح ساڑھے نو بجے اور دوسرا رات نو بجے جو امروز کے نام سے آتا ہے۔ جبکہ صبح والا بلیٹن ڈی ڈی نیوز پر بھی آتا ہے۔خبروں میں زبان کسی حد تک ٹھیک ہوتی ہے لیکن اسے معیاری نہیں کہا جا سکتا۔اس پر زیادہ تر قسط وار ڈرامے یا کبھی کبھار ادبی پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس سے اردو حلقے کی وابستگی زیادہ نہیں ہے۔اس کے تفریحی  پروگراموں میں عام بول چال کی زبان استعمال ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے ڈرامے بھی دکھائے جاتے ہیں جن میں ہندی زبان استعمال ہوئی ہو۔

اگر ہم ہندی کے نیوز چینلوں کا جائزہ لیں اور یہ پتا لگائیں کہ ان میں کیسی زبان استعمال ہوتی ہے اور اس میں اردو کا حصہ کتنا ہے توکہنا پڑے گا کہ ان میں استعمال ہونے والی زبان نہ ہندی ہے،نہ اردو اور نہ ہی انگریزی۔ان میں جو زبان استعمال ہو رہی ہے وہ ہندی، اردو، انگریزی اور مقامی بولیوں کا آمیزہ ہے۔گویا ان چینلوں نے ایک لسانی ملغوبہ تیار کر لیا ہے جس کا ذائقہ آپ کو ہر چینل پر مل جائے گا۔

کچھ دنوں قبل ایک پروگرام میں بھارت میں اردو اور ہندی کے مستقبل پر ہو رہی بحث کے دوران ہندی کے سرکردہ ادیب و دانشور اشوک واجپئی نے اردو والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندی کی حالت بہت اچھی ہے تو آپ غلط فہمی کے شکار ہیں۔ ہندی کی حالت بھی اردو سے بہتر نہیں ہے۔ان کا یہ تجزیہ کم از کم نیوز چینلوں پر تو کسی نہ کسی حد تک ضرور صادق آتا ہے۔کہنے کو تو وہ ہندی نیوز چینل ہیں لیکن ان پر ہندی کے کتنے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہم اردو والوں کا یہ شکوہ ہے کہ ہندی چینل اردو کے الفاظ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کو بگاڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ہندی والے بھی ان چینلوں کی زبان سے خوش نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہندی نیوز چینلوں سے شدھ ہندی غائب ہو گئی ہے۔ان چینلوں پر اردو سمیت دوسری زبانوں کا مثلاً انگریزی اور مقامی زبانوں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اردو والوں کا ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے الفاظ بھرپور انداز میں استعمال ہوتے ہیں لیکن جب الیکٹرانک میڈیا کی زبان پر بحث ہوتی ہے تو اسے ہندی ہی کہا جاتا ہے۔ یا کم از کم ان چینلوں کو اردو ہندی چینل یا بائی لنگوَل چینل نہیں کہا جاتا۔ہندی چینلوں کے ذمے داران بھی پوری فیاضی کے ساتھ اردو کے الفاظ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی اشعار بھی جڑ دیتے ہیں، لیکن اگر ان سے گفتگو کیجئے تو ان کا اصرار ہوگا کہ ہم تو وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو عام لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ اردو زبان عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آجاتی ہے اس لیے ہم اس کا استعمال کرتے ہیں۔وہ اسے اردو کے بجائے ہندوستانی کہیں گے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ہم غور کریں تو پائیں گے کہ ہندی رسم الخط میں اردو زبان کے مزے لیے جا رہے ہیں یا اردو سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔اسے ہندی والوں کی وسیع القلبی بھی کہہ سکتے ہیں اور ان کی خود غرضی بھی۔وہ اس لیے کہ دھڑلے سے اردو الفاظ کے استعمال کا مقصد آسان زبان میں عوام تک اپنی بات پہنچانا ہے۔

ہندی کے ایک سینئر صحافی کے خیال میں اردو اور ہندی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ بس درمیان میں ایک باریک سی چلمن پڑی ہوئی ہے۔اختلافات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب مسلمان کہتے ہیں کہ اردو کے ساٹھ فیصد الفاظ فارسی کے اور باقی ہندی کے ہیں۔اور ہندی لابی کہتی ہے کہ ہندی کے ساٹھ فیصد الفاظ سنسکرت کے ہیں اور چالیس فیصد ہندی کے۔بقول ان کے ہندی اور اردو کا جھگڑا فطری نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ہندی اور اردو دراصل جڑواں بہنیں ہیں۔

ہندی چینل والے اردو زبان کی طرف بس ایک ہی کھڑکی کھولتے ہیں اور وہ کھڑکی اردو الفاظ کے استعمال کے لیے کھلتی ہے اور اس کے بعد بند کر دی جاتی ہے۔اسے ہندی والوں کی خود غرضی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اردو الفاظ کے بھرپور استعمال کے باوجود وہ اردو کے تئیں مخلص اور سنجیدہ نہیں ہیں۔اگر اردو کو اس کا حق دینے کی بات آئے گی تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ مخالفت ہی کریں گے اور اس مخالفت میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنے سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔ویسے ہندی نیوز چینلوں پر خبریں ہوں یا تجزیے یا مباحثے، ان میں اردو الفاظ کا استعمال تو ہوتا ہی ہے،اب یہ الگ بات ہے کہ وہ کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہندی کے بعض نیوز ریڈر یا رپورٹر کوشش کرکے اردو بولتے ہیں۔ کبھی وہ صحیح اردو ہوتی ہے تو کبھی غلط۔ غلط اردو وہ لوگ بولتے ہیں جو اردو سے واقف نہیں ہیں۔یعنی وہ لاعلمی کی بنیاد پر غلط اردو بولتے ہیں، جان بوجھ کر نہیں۔لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ہندی والے جان بوجھ کر غلط اردو بولتے ہیں تاکہ وہ اردو کے الفاظ کو زیادہ سے زیادہ خراب کر سکیں۔ کچھ لوگ ممکن ہے کہ ایسا کرتے ہوں لیکن سبھی ایسا نہیں کرتے۔ 


ہندی والوں کی لاعلمی کی ایک مثال میں اپنے ایک ہندی صحافی دوست کی ایک بات سے دینا چاہوں گا۔ ایک بار وہ کہنے لگے کہ اردو والے ایک لفظ بہت غلط بولتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون سا؟ تو انھوں نے کہا کہ حواس فاختہ۔کہنے لگے کہ فاختہ پرندے کی مانند جب ہوش اڑ جاتے ہیں تو اس کو حواس فاختہ کہتے ہیں، لیکن اردو والے حواس باختہ لکھتے ہیں،جو کہ سراسر غلط ہے۔

یہاں مزید چند مثالیں دینا بروقت ہوگا۔ہندی چینلوں میں لفظ مہارت کو ’مہا رتھ‘بولا جاتا ہے(رتھ یاترا والا رتھ) اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کو فلاں کام میں بڑی مہارتھ حاصل ہے۔لفظ قواعد کا بھی تیاّ پانچہ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح خلافت بمعنی مخالفت کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔بارش ہونے کو برسات ہونا کہتے ہیں۔ ہندی کے بعض رپورٹر کہتے ہیں کہ دہلی میں خوب برسات ہوئی اور اب برسات بند ہو گئی ہے۔الفاظ کے جمع الجمع کا تو دھڑلے سے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: جذباتوں، احساساتوں،خیالاتوں، الفاظوں اور علماوٴں وغیرہ۔بعض چینلوں کے رپورٹروں اور نیوزریڈروں کا تلفظ تو انتہائی خراب ہے۔ جیسے کہ’آج تک‘ چینل اور ’اسٹار نیوز‘ وغیرہ کا۔ لیکن این ڈی ٹی وی کے لوگوں کا تلفظ قدرے بہتر ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر اردو زبان سے یا تو واقف ہیں یا اردو والوں سے ان کا زیادہ ربط ضبط ہے۔اسی طرح انڈیا ٹی وی پر بہت ہی سنسنی خیز انداز میں اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ ایسے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں جن کے نام خالص اردو میں ہوتے ہیں۔جیسے: احساس، واردات،ذائقہ،سنسنی،سلام زندگی، وغیرہ وغیرہ۔

خبروں کی زبان کیسی ہوگی، الفاظ کیسے ہوں گے، کس زبان کے زیادہ اور کس زبان کے کم ہوں گے، اس کا بہت کچھ انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ خبرساز کا ذوق کیسا ہے۔وہ خالص ہندی والا ہے یا اردو سے بھی واقفیت رکھتا ہے۔اس کا تلفظ ٹھیک ہے یا زہر کو جہر اور شانتی کو سانتی بولنے والا ہے۔عوام تک پہنچنے کے تعلق سے اس کا نظریہ کیا ہے۔وہ خبروں کے معیار پر توجہ دیتا ہے یا صرف عوام تک پہنچنے کو۔مثال کو طور پر اگر این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کوئی پروگرام لے کر آئیں گے تو اس میں کوئی نہ کوئی نظریہ، کوئی نہ کوئی مقصدپوشیدہ ہوگا اور اسی کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب کیا جائے گا۔وہ عام فہم زبان کا استعمال تو کریں گے لیکن اس میں ہندی کے الفا ظ زیادہ ہوں گے۔لیکن عارفہ اور نغمہ کا پروگرام ہوگا یا ونود دوا کا بنایا ہوا پروگرام ہوگا تو اس میں عام فہم اردو الفاظ کا استعمال قدرے زیادہ ہوگا۔اسی طرح اس کے رپورٹر کمال خان اشعار کے ذریعے اپنی بات پہنچانے کی کوشش کریں گے۔اسی طرح اسٹار نیوز کے دیپک چورسیا ‘ جو کہ پہلے ’آج تک‘ میں تھے اور منورنجن بھارتی کے یہاں اردو کے الفاظ تو کم ہوں گے ہی اور جو ہوں گے بھی وہ ان کو غلط تلفظ کے ساتھ ادا کریں گے۔در اصل یہ ان کی مجبوری ہے۔ چاہتے تو وہ بھی ہیں کہ اردو بولیں اور صحیح تلفظ کے ساتھ بولیں لیکن اردو سے مکمل ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے۔

لیکن’ آج تک‘ کے شمس طاہر خان کا پروگرام ہوگا تو اس کا نام بھی اردو میں ہوگا اور رپورٹوں میں اردو کے الفاظ کی کثرت بھی ہوگی۔اسی کے ساتھ ان کا تلفظ بھی بہتر ہوگا۔ ان کا خاندانی بیک گراوٴنڈ اس میں کام آتا ہے۔اسی نہج پر دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

راقم الحروف نے ہندی کے نیوز چینلوں میں اردو الفاظ کے استعمال پر ایک چھوٹا سا نمائندہ سروے کیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ہندی چینلوں پر غیر محسوس طریقے سے اردو کے بے شمار الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ان کی تعداد پندرہ بیس اور پچیس فیصد تک ہوتی ہے۔لیکن ٹی وی دیکھنے والے کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ روز مرہ استعمال کے الفاظ بن گئے ہیں اور ہماری یومیہ بول چال کی زبان میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو ان کواس سے الگ نہیں کر سکتے۔یا پھر ہم نیوز چینلوں کی اس زبان کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ ہم یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ اردو کے الفاظ ہیں یا ہندی کے۔اگر ان الفاظ کو خبروں سے نکال دیا جائے تو جو زبان بچے گی وہ کچھ اس قسم کی ہوگی:

 پریہ پرانیشوری!یدی آپ ہمیں آدیش کریں تو پریم کا ہم شری گنیش کریں۔

 یا پھر اس طرح : ہے پرمان پتر وترک مہودیے! لکشمن پور سے کوشلیہ پور جانے والی لوہ پتھ گامنی کس وشرام استھل پر آکر گتی شونیہ ہوگی کرپیہ بتانے کا کشٹ کریں آپ کی اسیم انو کمپا ہوگی۔

اور ظاہر ہے کہ یہ زبان نہ سبھی ہندی والے سمجھ پائیں گے اور نہ ہی اردو والے اور نہ ہی ناخواندہ اور عام لوگ۔اس نمائندہ سروے کی روشنی میں ایک اور بات کھل کر سانے آئی کہ سرکاری چینل دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کی ہندی خبروں میں عام فہم اردو الفاظ پر عام فہم ہندی الفاظ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ پرائیوٹ چینلوں پر اسی زبان کا استعمال ہوتا ہے جو آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ وہ ہندی کے الفاظ ہوں یا اردو کے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میں یہاں کچھ مثالیں دینا چاہوں گا۔این ڈی ٹی کے ایک دس منٹ کے نیوز بلیٹن میں جسے رویش کمار نے پیش کیا،50 مرتبہ اردو کے الفاظ کا استعمال ہوا۔جبکہ آج تک کے دس منٹ کے پروگرام میں جسے شمس طاہر خان نے پیش کیا، 75 مرتبہ اردو کے الفاظ استعمال ہوئے۔لیکن دوردرشن کی 15 منٹ کی ہندی خبروں میں اردو الفاظ 50 بار آئے اور آل انڈیا ریڈیو کی 15 منٹ کی ہندی خبروں میں اردو کے الفاظ 30 مرتبہ آئے۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سرکاری میڈیا میں اردو کے الفاظ کا استعمال بمقابلہ پرائیویٹ چینلوں کے کم ہے۔

اردو الفاظ کا استعمال صرف نیوز چینلوں پر ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ خبروں کی ویب سائٹ پر بھی یہی صورت حال ہے۔بھارت کے ایک مسلم اور اردو مخالف اور کم از کم ایک درجن مقامات سے شائع ہونے والے ایک بڑے ہندی روزنامہ دینک جاگرن کی ویب سائٹ جاگرن ڈاٹ کام پر تقریباً 200الفاظ کی ایک خبر میں کم از کم 20 مرتبہ اردو کے الفاظ آتے ہیں۔این ڈی ٹی وی کی ہندی ویب سائٹ این ڈی ٹی وی خبر ڈاٹ کام پر یہ شرح کچھ زیادہ ہے۔یعنی 200 الفاظ کی خبر میں کم از کم 30 مرتبہ اردو کے الفاظ آتے ہیں۔جبکہ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ہندی ویب سائٹ پی ٹی آئی بھاشا میں ہمیں150 الفاظ کی خبر میں 20 مرتبہ اردو کے الفاظ نظر آئے۔عام طور پر جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:فرمان، گرفتار، خلاف، سازش، منصوبہ، ظاہر، ثابت، تباہی، نیست ونابود، انجام، قائم، مقصد، مسئلہ، قبضہ، موجودگی، دہشت، دہشت گرد، خطرہ، ذریعے، مطابق، خفیہ، تعداد، طاقت ور، ماحول، منظوری، فیصلہ، امید، قریب، ذمے داری، قیمت، تحت، طرز، ضروری، سلسلہ، شروعات، ملکیت، شاندار، فتوی، بحث، زندگی، صدیاں، نیت، اعتراض، زمانہ، غصہ، ہاضمہ، معلومات، ملاقات، مضبوط، تازہ ترین، مسودہ، خبریں، سرخیاں، راحت، صفائی، باقاعدہ، شرط، پسندناپسند، دستاویز، نتیجہ، سوال، جواب، تاریخ، ناراضگی، بیان، صورت حال، عملی جامہ، منشا، بے نقاب وغیرہ وغیرہ۔ 

یہ جائزہ صرف نیوز چینلوں کا ہے۔ یہی صورت حال انٹرٹینمنٹ چینلوں کی بھی ہے۔ ان پر جو ڈرامے  آتے ہیں ان میں اردو نام والے بھی مل جائیں گے اور اردو کے الفاظ تو ہوتے ہی ہوتے ہیں۔ایک ہندی قلم کار کا کہنا ہے کہ جب ہندی ڈراموں میں اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو وہ سونے پر سہاگہ کا کام دیتے ہیں۔ وہ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ ڈراموں میں اور دوسرے پروگراموں میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کیے جانے چاہئیں، کیوں کہ ان سے اسکرپٹ کی زبان کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے۔

ایسے کئی سیاست داں بھی ہیں جو اپنی باتوں میں وزن اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ شتروگھن سنہا جیسے لوگ جو کہ بی جے پی میں ہیں، انشاء اللہ اور ماشاء اللہ کے بغیر جملہ مکمل نہیں کرتے۔ٹی وی اور ریڈیو کی مانند ایف ایم ریڈیو پر بھی جہاں ذرا زیادہ آزادی ہے، اردو کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہوتے ہیں۔

فلمیں بھی الیکٹرانک میڈیا کا حصہ ہیں اور وہاں تو اردو کا زبردست چلن ہے۔ اسکرپٹ ہو یا نغمے یا مکالمے اردو کے بغیر کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی۔لیکن ان فلموں کو سرٹی فکیٹ ہندی کے دیے جاتے ہیں یا لیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں فلم سازوں کا کہنا ہے کہ وہ سرٹی فکیٹ اردو کا لینا چاہتے ہیں لیکن ان کو مجبوراً ہندی کا لینا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں فلم فئیر ایوارڈ دینے والوں نے یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف انہی فلموں کو ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے گا جو ہندی سرٹی فکیٹ کی ہوں گی۔ تاہم اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ فلمیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں جن میں ہندی کے بجائے اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔جن مکالموں یا جن نغموں میں اردو الفاظ کی کثرت ہوتی ہے وہ سننے میں اچھے لگتے ہیں۔ 

بہر حال، اس وقت ہندی چینلوں کے طفیل میں ایک ایسی زبان پیدا ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے جس کا ابھی کوئی نام نہیں ہے۔اسے گرچہ ہندی کہا جارہا ہے لیکن وہ خالص ہندی نہیں ہے۔ایک کھچڑی زبان ہے جو چوبیس گھنٹے ہم سے روبروہوتی ہے اور ہمیں غیر محسوس طریقے سے متاثر بھی کر تی ہے۔کیونکہ جس زبان سے ہمارا واسطہ زیادہ ہوگا، ظاہر ہے ہم لاشعوری طور پر اس کے اثرات بھی قبول کریں گے۔حالانکہ ٹی وی پر نشر ہونے والی زبان فوری طور پر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ وہ تحریری شکل میں موجود نہیں رہتی۔ اس کے باوجود وہ معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

دوسری طرف اردو اخباروں کو اٹھا کر آپ دیکھ لیں تو اکثر خبروں میں ایسا لگے گا کہ انہیں چینلوں پر خبریں دیکھ کر بنایا گیا ہے۔وہی غیر مہذب اور غیر معیاری زبان اور وہی ناپسندیدہ لب و لہجہ۔ اب بعض اردو اخباروں میں بھی لفظ قواعد کو غلط انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور ’فلاں کے چلتے‘ اور ’فلاں بات کو لے کر‘ جیسے ٹکڑے بھی پڑھنے پڑتے ہیں جو اردو اخباروں کے معیار کو پست بناتے ہیں، لیکن اردو صحافیوں کو اپنی زبان کے اس غلط استعمال کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔جب پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال ہے تو عام لوگوں کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

لیکن بہر حال جہاں ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہندی چینلوں پر اردو کے الفاظ استعمال تو ہوتے ہیں لیکن ان کو ہندی کہا جاتا ہے، وہیں ہمیں اس لحاظ سے ان چینلوں کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہر وہ لفظ استعمال کر لیتے ہیں جس سے ترسیل کا مقصد حل ہوتا ہو۔ انہیں اردو کے یا انگریزی کے عام بو ل چال کے الفاظ کے استعمال میں کوئی عار نہیں اور شاید ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

 PUblished on VOA website at http://www.voanews.com/urdu/2009-02-16-voa24.cfm