Friday, February 27, 2009

Jade Goody to Die



اداکارہ کی موت کی لائیو ٹیلی کاسٹ: اخلاقیات کی دنیا کا نیا تنازعہ


ایک برطانوی اداکارہ کی عجیب و غریب خواہش کے بعد پوری دنیا میں بحث کا دروازہ کھل گیا ہے، جس نے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا کسی کی موت کی لائیو ٹیلی کاسٹ مناسب ہے یا نا مناسب، جائز ہے یا ناجائز، قانونی ہے یا غیر قانونی، اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی؟ اسی کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ کیا آج کے رئیلٹی شو واقعی رئیلٹی شو ہیں یا یہ محض بناوٹی شو ہیں۔

 ٹی وی سلیبریٹی کا نام ہے جیڈ گوڈی۔ وہ برطانیہ کی رہنے والی ہے اور اس کی عجیب و غریب خواہش ہے کہ وہ کیمرے کے سامنے مرنا چاہتی ہے۔ یعنی وہ اپنی موت کو بھی ایک ٹی وی رئیلٹی شو بنا دینا چاہتی ہے۔جیڈ گوڈی کو کینسر ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کی زندگی کے بس اب چند ہفتے ہی بچے ہیں۔27 سالہ جیڈ گوڈی دو بچوں کی ماں ہے اور ابھی اتوار کے روز اس کے منگیتر جیک ٹویڈ کے ساتھ اس کی شادی ہوئی ہے۔اطلاعات کے مطابق اس کی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ کے حقوق برطانیہ کے لیونگ ٹی وی نے بھاری قیمت دے کر خرید لیے ہیں۔اس کی شادی کی تصاویر OK میگزین نے سات لاکھ پونڈ میں خریدی ہیں،جبکہ ITV پروڈکشن کمپنی گریناڈا میڈیا نے شادی کی فلم بندی کی ہے۔ جیڈ گوڈی کے ایجنٹ میکس کلیفورڈ کے مطابق یہ رقوم جیڈ کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں کام آئے گی۔خیال رہے کہ جیڈ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ٹی وی سلیبریٹی کے طور پر کیمرے کے سامنے گزارا ہے۔

جیڈ کے بارے میں ہندوستانیوں کو پہلے کچھ پتا نہیں تھا۔ لیکن لندن کی ایک رئیلٹی شو Big Brother سے یہاں کے لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چلا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس شو میں ہندوستان کی اداکارہ شلپا شیٹی نے شرکت کی تھی اور اس شو کے دوران جیڈ نے شلپا کے خلاف ایک نسل پرستانہ فقرہ پاس کیا تھا، جس پر زبرد ست ہنگامہ ہوا اور بالآخر جیڈ کو اس شو سے جانا پڑا اور شلپا شیٹی شو کی فاتح قرار پائی۔

جیڈ کے ریمارکس نے اس وقت بھی ہندوستان میں ایک بحث چھیڑ دی تھی کہ کیا برطانیہ کے لوگوں کے دل و دماغ میں اب بھی نسل پرستانہ جذبات پہلے کی مانند موجود ہیں؟ اس کے بعد گذشتہ سال ہندوستان میں بھی ایک اسی قسم کا شو کیا گیا جو 90 دنوں تک چلا۔اتفاق دیکھئے کہ اس شو کی میزبان شلپا شیٹی تھی اور جیڈ گوڈی ایک فیملی ممبر کے طور پر اس میں شامل ہوئی تھی۔جیڈ کے بارے میں یہاں لوگوں کے خیالات اچھے نہیں تھے لیکن اس نے شلپا سے معافی مانگی اور پھر اپنے اخلاق سے بگ باس کے فیملی ممبران کے دل جیت لیے۔

لیکن اسی دوران، جب کہ جیڈ کو بگ باس کے گھر میں آئے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ اس کی زندگی میں ایک بھیانک طوفان آگیا اور بگ باس کے گھر والے بھی اس طوفان سے متاثر ہوئے۔طوفان کینسر کی شکل میں آیا۔ جیڈ کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اسے سروائکل کینسر ہے اور اس کے پاس اب زیادہ دن نہیں ہیں۔جیڈ واقعتا ٹوٹ گئی اور چند دنوں کے بعد بگ باس کا گھر چھوڑ کر برطانیہ چلی گئی۔جہاں اس کا علاج چل رہا تھا۔لیکن زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ عجیب و غریب خواہش نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا اور پھر تقریباً پورا ہندوستان اس کے غم میں شریک ہو گیا اور سب کو اس سے ہمدردی ہو گئی۔

فلموں میں تو موت کے مناظر دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ نقلی اور بناوٹی ہوتے ہیں اس لیے ناظرین کے دل و دماغ پر اس کے منفی اثرات نہیں پڑتے۔ لیکن حقیقی موت کو ٹی وی پر دکھانا؟ ایک شخص کو لمحہ بہ لمحہ مرتے ہوئے ریکارڈ کرنا اور اس کو دنیا کو دکھانا، یہ عجیب و غریب معاملہ ہے۔فلموں میں موت کے مناظر اس لیے ناظرین کے دلوں پر کوئی دھچکا نہیں لگاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو شخص مر رہا ہے وہ حقیقتاً نہیں مر رہا ہے بلکہ وہ مرنے کی ایکٹنگ کر رہا ہے۔لیکن جیڈ تو حقیقتاً مرے گی۔ تو کیا اسے بھی لوگوں کو دکھایا جائے؟

 جیڈ کی خواہش پر برطانیہ میں بھی بحث شروع ہو گئی ہے اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی۔ ہندوستان میں بھی اس پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔خاص طور پر ٹی وی پر ایسی بحث ہو رہی ہے کہ کیا کسی کی موت کا لائیو ٹیلی کاسٹ ہونا چاہئیے۔اس معاملے میں قانون کیا کہتا ہے، اخلاقیات کا کیا تقاضہ ہے اور کیا یہ موت جیسی ایک اٹل اور تکلیف دہ حقیقت کو بیچنا نہیں ہے۔کیا اب موت کی بھی سوداگری ہوگی اور کیا آئندہ چل کر ایسے ٹی وی چینل بھی شروع ہو جائیں گے جو صرف حقیقی اموات کو دکھائیں گے؟

اس بحث میں نہ صرف ٹی وی سلیبریٹیز کو شامل کر لیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی اس میں حصے دار بنا لیا گیا ہے جو بگ بردر اور بگ باس جیسے شوز میں شریک ہوئے تھے۔اس کے ساتھ قانو ن دانوں اور میڈیا اداروں کے لیے ضابطہٴ اخلاق بنانے یا ان پر زور دینے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

بگ باس کے فیملی ممبران کے نزدیک جیڈ کی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ میں کوئی برائی نہیں ہے اور اگر یہ ٹیلی کاسٹ ہوا تو وہ اس کو ضرور دیکھیں گے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک فن کار ایک تلخ سچائی کو اور اس کی اذیتوں کو کیمرے کے سامنے ریکارڈ کروا کر دنیا کو دکھانا چاہتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے جو رقم حاصل ہوگی وہ جیڈ کے دونوں بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے کام آئے گی۔ اس طرح اسے اپنی اولاد کے تئیں ایک ماں کی قربانی کے طور پر بھی دیکھنا چاہئیے۔ 

دوسری طرف بعض ٹی وی اداکارروں کے خیال میں ا یسے شوز کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہئیے۔ان کے نزدیک یہ تو موت کو بیچنا ہے اور اگر جیڈ کے بچوں کے تعلق سے لوگوں کو فکر ہے تو انہیں، حکومت اور سماج کو چاہئیے کہ وہ ان کے مستقبل کی فکر کریں اور ان کے لیے کوئی انتظام کریں۔

بعض ماہرین قانون بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون اس بارے میں خاموش ہے کہ کسی کو اپنی موت کے لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق ہے یا نہیں۔نہ تو برطانیہ میں اس سلسلے میں کوئی قانون ہے اور نہ ہی ہندوستان میں۔ہاں اگر کوئی خود کشی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون ہے۔ اگر خود کشی کرنے والا کامیاب ہو گیا تو ٹھیک، اور اگر ناکام ہو گیا تو اس کو اس جرم کی پاداش میں سزا ملے گی۔لیکن اپنی موت کو دنیا کو دکھانے کے بارے میں ابھی تک کوئی قانون نہیں بنا۔اس لیے اس کو اس کی اجازت ہے۔ٹیلی ویژن پر صارفیت کو فروغ دینے کا الزام لگانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسی ٹی وی کلچر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔اب ہر چیز بیچی جائے گی اور ہر چیز کی قیمت لگے گی۔ 

اس بحث نے کافی طول پکڑ لیا ہے اور اب تو اس کا دائرہ بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دنیا میں جو رئیلٹی شوز ہوتے ہیں کیا واقعی وہ رئیل یا حقیقی ہوتے ہیں۔کیا وہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتے۔اور کیا واقعی دنیا میں رئیلٹی ٹی وی کا وجود ہے یا یہ محض بناوٹی ٹی وی ہے؟

میڈیا کی بعض سرکر دہ شخصیات کے مطابق رئیلٹی ٹی وی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ سب بناوٹی ہے۔یہ عوام کو بیوقوف بنانے کی چالیں ہیں۔رئیلٹی ٹی وی ہو یا نیوز ٹی وی ہو، ہر جگہ ناظرین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے۔وہ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ نہیں دکھایا جاتا اور جو کچھ دکھانے سے میڈیا اداروں کو مالی فائدہ ہوتا ہے وہی چیز دکھائی جاتی ہے۔بگ باس میں شریک ایک رکن سیاست داں، سابق ممبر پارلیمنٹ اور ممبئی کانگریس کے صدر سنجے نروپم کے خیال میں بگ باس میں چوبیس گھنٹے کیمرے آن رہتے تھے اور مسلسل شوٹنگ ہوتی رہتی تھی لیکن ٹی وی پر صرف چالیس منٹ کے مناظر دکھائے جاتے تھے اور وہ وہی مناظر ہوتے تھے جو پروگرام بنانے والوں کے مفادات کو سوٹ کرتے تھے۔

بہر حال جیڈ گوڈی کی عجیب و غریب خواہش نے پوری دنیا میں ایک بحث چھیڑ دی ہے جس کا دائرہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔توقع ہے کہ یہ بحث جیڈ کی موت کے بعد بھی جاری رہے گی۔ ادھر جیڈ کے ایجنٹ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جیڈ کی موت کا لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔یہ وعدہ پورا ہوگا یا نہیں اس کا فیصلہ جیڈ کی موت کے بعد ہی ہوپائے گا۔

No comments:

Post a Comment