Tuesday, December 29, 2009

محمد رفیع اور مدھو بالا کی یاد میں خوبصورت تقریب کا اہتمام

دہلی کے فلم ڈویژن میں فلمی دنیا کی دو عظیم شخصیات کی یاد میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دو عظیم شخصیات تھیں مایہ ناز گلوکار محمد رفیع اور یگانہ روزگار اداکارہ مدھوبالا۔ موقع تھا محمد رفیع کے یوم پیدائش کا اور مدھوبالا کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا۔

فلم ڈویژن آڈیٹوریم میں منعقدہ اس پروگرام میں دار الحکومت دہلی کی ادب نواز اور ثقافت پسند شخصیات موجود تھیں۔ تقریب میں محمد رفیع پرایک فلم دکھائی گئی جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 70منٹ کی اس فلم کا نام ہے ’رفیع تم بہت یاد آئے‘۔ اس کے ہدایت کار فلم ڈویژن کے سربراہ کلدیپ سنہا ہیں۔

اس موقع پر کلدیپ سنہا نے کہا کہ محمد رفیع کی زندگی پر فلم بنانا ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اوراب اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ 1980میں محمد رفیع کے انتقال کے بعد ہی سے وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے معروف موسیقار نوشاد سے بھی گفتگو کر رکھی تھی اور انھوں نے اس فلم کی تیاری میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر فلم نہیں بن سکی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں محمد رفیع کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کے مختلف پہلووں، ان کی جد و جہد، ان کی کامیابیوں، اہم گیتوں اور اس بارے میں فلمی دنیا سے متعلق اہم شخصیات کے خیالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

اس تقریب میں رفیع میمورئیل کی جانب سے محمد رفیع کے نغموں اور زندگی کے مختلف پہلووں پر ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں یادگار رفیع اور سکھا فاونڈیشن کے سربراہ امرجیت سنگھ کوہلی، دور درشن کے سابق ڈائریکٹر شرد دت اور متعدد ماہرین گلوکاری نے محمد رفیع کی زندگی اور ان کی گلوکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جبکہ مشرق کی وینس کہلانے والی ملکہ حسن اور یگانہ روزگاراداکارہ مدھوبالا کی سوانح حیات کی تقریب رونمائی ہوئی۔

کتاب ’ مدھوبالا: درد کا سفر‘ کی مصنفہ سشیلا کماری نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے اس کتاب کی تصنیف کا خیال دل میں پالے ہوئے تھیں اور اب جاکر انھوں نے مدھوبالا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھوں نے مایہ ٴناز اداکارہ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھوبالا نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر نہ صرف اپنے حسن کی بلکہ اپنی اداکاری کی بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ لیکن نہ تو ان کی زندگی میں ان کی قدر افزائی ہوئی اور نہ ہی دنیا سے جانے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ حالانکہ وہ اس کی حقدار تھیں۔ مدھو بالا کو ان کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ جب کہ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہورِ ِ زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کا جادو جگا چکی تھیں۔ لیکن اس فلم کے لئے بھی ان کی عزت افزائی نہیں کی گئی۔

جبکہ بھارتیندو ہریش چندر ایوارڈ یافتہ مصنفہ نے کہا کہ مدھو بالا کی ہوش ربا خوبصورتی اور ان کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور ان کی شوخیوں کو دیکھ کر ہر کوئی سوچتا تھا کہ ان کی دنیا بڑی خوبصورت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں اور پیار کی دولت سے کوسوں دورتھی۔ انھیں تو زندگی بھر دکھ درد، غم و الم، تنہائی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ان مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا درد پوشیدہ ہے۔

ا س تقریب میں رکن پارلیمنٹ راشد علوی نے مدھوبالا کی زندگی کو سامنے لانے کی کوشش کو ایک اہم واقعہ قرار دیا اورکہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مقبولیت عارضی اورلمحاتی جبکہ فنکاروں اور ادیبوں کی مقبولیت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مدھوبالا جیسے فنکار اعزازات سے محروم رہنے کے باوجود صدیوں تک عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

مدھوبالا نے انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان جیسا بے پناہ حسن اور ان کے اندر اداکاری کا جو جوہر تھا وہ صدیوں میں کہیں کسی کو ملتا ہے۔ مدھوبالا کی زندگی کے بیشتر پہلووں سے لوگ لاعلم ہیں اور انہی مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے۔

خیال رہے کہ مدھوبالا نے مغل اعظم، محل، ہاف ٹکٹ، امر، پھاگن، چلتی کا نام گاڑی اور ہوڑہ برج جیسی متعد دفلموں میں اپنی خوبصورتی اوراداکاری سے لوگوں کے دل جیتے تھے۔

مدھوبالا بچپن ہی سے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا تھیں اور 36سال کی کم عمری میں انھوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ لیکن ان کی اداکاری اس وقت تک شائقین پر اپنا جادو جگاتی رہے گی جب تک کہ فلمی دنیا قائم ہے۔

محمد رفیع اور مدھو بالا کی یاد میں خوبصورت تقریب کا اہتمام

دہلی کے فلم ڈویژن میں فلمی دنیا کی دو عظیم شخصیات کی یاد میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دو عظیم شخصیات تھیں مایہ ناز گلوکار محمد رفیع اور یگانہ روزگار اداکارہ مدھوبالا۔ موقع تھا محمد رفیع کے یوم پیدائش کا اور مدھوبالا کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا۔

فلم ڈویژن آڈیٹوریم میں منعقدہ اس پروگرام میں دار الحکومت دہلی کی ادب نواز اور ثقافت پسند شخصیات موجود تھیں۔ تقریب میں محمد رفیع پرایک فلم دکھائی گئی جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 70منٹ کی اس فلم کا نام ہے ’رفیع تم بہت یاد آئے‘۔ اس کے ہدایت کار فلم ڈویژن کے سربراہ کلدیپ سنہا ہیں۔

اس موقع پر کلدیپ سنہا نے کہا کہ محمد رفیع کی زندگی پر فلم بنانا ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اوراب اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ 1980میں محمد رفیع کے انتقال کے بعد ہی سے وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے معروف موسیقار نوشاد سے بھی گفتگو کر رکھی تھی اور انھوں نے اس فلم کی تیاری میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر فلم نہیں بن سکی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں محمد رفیع کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کے مختلف پہلووں، ان کی جد و جہد، ان کی کامیابیوں، اہم گیتوں اور اس بارے میں فلمی دنیا سے متعلق اہم شخصیات کے خیالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

اس تقریب میں رفیع میمورئیل کی جانب سے محمد رفیع کے نغموں اور زندگی کے مختلف پہلووں پر ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں یادگار رفیع اور سکھا فاونڈیشن کے سربراہ امرجیت سنگھ کوہلی، دور درشن کے سابق ڈائریکٹر شرد دت اور متعدد ماہرین گلوکاری نے محمد رفیع کی زندگی اور ان کی گلوکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جبکہ مشرق کی وینس کہلانے والی ملکہ حسن اور یگانہ روزگاراداکارہ مدھوبالا کی سوانح حیات کی تقریب رونمائی ہوئی۔

کتاب ’ مدھوبالا: درد کا سفر‘ کی مصنفہ سشیلا کماری نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے اس کتاب کی تصنیف کا خیال دل میں پالے ہوئے تھیں اور اب جاکر انھوں نے مدھوبالا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھوں نے مایہ ٴناز اداکارہ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھوبالا نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر نہ صرف اپنے حسن کی بلکہ اپنی اداکاری کی بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ لیکن نہ تو ان کی زندگی میں ان کی قدر افزائی ہوئی اور نہ ہی دنیا سے جانے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ حالانکہ وہ اس کی حقدار تھیں۔ مدھو بالا کو ان کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ جب کہ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہورِ ِ زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کا جادو جگا چکی تھیں۔ لیکن اس فلم کے لئے بھی ان کی عزت افزائی نہیں کی گئی۔

جبکہ بھارتیندو ہریش چندر ایوارڈ یافتہ مصنفہ نے کہا کہ مدھو بالا کی ہوش ربا خوبصورتی اور ان کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور ان کی شوخیوں کو دیکھ کر ہر کوئی سوچتا تھا کہ ان کی دنیا بڑی خوبصورت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں اور پیار کی دولت سے کوسوں دورتھی۔ انھیں تو زندگی بھر دکھ درد، غم و الم، تنہائی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ان مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا درد پوشیدہ ہے۔

ا س تقریب میں رکن پارلیمنٹ راشد علوی نے مدھوبالا کی زندگی کو سامنے لانے کی کوشش کو ایک اہم واقعہ قرار دیا اورکہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مقبولیت عارضی اورلمحاتی جبکہ فنکاروں اور ادیبوں کی مقبولیت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مدھوبالا جیسے فنکار اعزازات سے محروم رہنے کے باوجود صدیوں تک عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

مدھوبالا نے انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان جیسا بے پناہ حسن اور ان کے اندر اداکاری کا جو جوہر تھا وہ صدیوں میں کہیں کسی کو ملتا ہے۔ مدھوبالا کی زندگی کے بیشتر پہلووں سے لوگ لاعلم ہیں اور انہی مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے۔

خیال رہے کہ مدھوبالا نے مغل اعظم، محل، ہاف ٹکٹ، امر، پھاگن، چلتی کا نام گاڑی اور ہوڑہ برج جیسی متعد دفلموں میں اپنی خوبصورتی اوراداکاری سے لوگوں کے دل جیتے تھے۔

مدھوبالا بچپن ہی سے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا تھیں اور 36سال کی کم عمری میں انھوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ لیکن ان کی اداکاری اس وقت تک شائقین پر اپنا جادو جگاتی رہے گی جب تک کہ فلمی دنیا قائم ہے۔

مرزا غالب کے 212 ویں یوم پیدائش پردہلی میں متعدد تقریبات کا انعقاد

نابغہ روزگار شاعر مرزا غالب کے یوم پیدائش پر دار الحکومت دہلی میں دو روزہ تقریبات منائی گئیں۔ اس موقع پر چاندنی چوک سے غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ نکالا گیا۔ کتھک رقاصہ اوما شرما نے غالب کی غزلوں پر رقص پیش کیا۔ قلمکار اور دانشور پون ورما نے غالب پر مضمون پیش کیا اور ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے غالب کے انداز میں خطوط غالب کی قرآت کی۔
26اور27 دسمبر کو دوروزہ یوم غالب تقریبات کے دوران چاندنی چو ک کے ٹاون ہال سے گلی قاسم جان میں واقع غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ میں معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار، ڈائرکٹر وشال بھاردواج، ان کی اہلیہ اور گلوکارہ ریکھا بھاردواج، رقاصہ اوما شرما، قلمکار پون ورما اور بڑی تعداد میں دہلی کی ادب نواز اور غالب پسند شخصیات موجود تھیں۔

اس موقع پر گلزار نے کہا کہ غالب کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم شمع روشن کرکے غالب کی حویلی تک جاتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ روایت ہمیشہ زندہ رہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے مرزاغالب سیرئیل بناکر اسکرین پر غالب کی زندگی بنا دی لیکن میں کہتا ہوں کہ غالب نے میری زندگی بنا دی۔

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غالب کی حویلی کو ایک میوزیم میں تبدیل کیا جائے۔

پون ورما نے کہا کہ جس تہذیب و ثقافت سے غالب کا رشتہ تھا وہ ہماری شاندار روایت کا حصہ ہے اور غالب صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب اور طرز زندگی کی علامت ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس قوم نے اپنے ادیبوں اور فنکاروں کی قدر نہیں کی اسے کبھی ترقی نہیں ملی۔

وشال بھاردواج نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کینڈل مارچ کے توسط سے ہم نے غالب کے سفر کی دریافت نو کی ہے۔

چاندنی چوک سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ وجے گوئل نے غالب کی حویلی کی خستہ حالی پر رنج و غم کا اظہار کیا اور اس کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

مارچ کے شرکا نے غالب کی حویلی کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے تحفظ پر زور دیا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل غالب کی حویلی میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی جس کے سبب حویلی میںچاروں طرف گندگی پھیل گئی تھی۔ اس پر غالب نواز لوگوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

اس مارچ میں ایڈووکیٹ عبد الرحمن نے غالب کا لباس اور ان کے جیسی ٹوپی پہن کر شرکت کی اور اعلان کیا کہ وہ غالب پر ایک فلم بنائیں گے جس کو اگلے سال یوم غالب پر لندن میں ریلیز کیا جائے گا۔

ادھر دوسرے روز کی تقریبات کے دوران کتھک رقاصہ اوما شرما نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں غالب کی چنندہ غزلوں پر رقص پیش کرکے ناظرین کو محظوظ کر دیا۔

یہ پروگرام غالب میمورئیل موومنٹ کے زیر اہتمام انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، دہلی حکومت، ساہتیہ کلا پریشد، ایس جی فاونڈیشن اور بھارتیہ سرن سنگیت کے اشتراک سے منعقدہوا۔

اوما شرما نے ’شمع جلتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے، ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے، تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ‘ وغیرہ غزلوں کی رقص کے ذریعے تشریح کرکے تفہیم غالب کے نئے گوشے وا کیے۔

اوما شرما کے شاگردوں نے غالب کی نظم ”چراغ دیر“ (بنارس کو خدا محفوظ رکھے چشم بد بیں سے) کی خوبصورت پیشکش کے ذریعے غالب کی مذہبی رواداری کو اجاگر کیا۔

اس پروگرام میں پون ورما نے اپنی تصنیف ’غالب، شخصیت اور فن‘ کے بعض اقتباسات پیش کیے ۔

دوسرے روز کی آخری تقریب غالب اکیڈمی میں منعقد ہوئی جس میں معروف ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے خطوط غالب کو ڈرامائی انداز میں پڑھ کرلوگوں کے دل جیت لیے۔

انھوں نے 1852سے1868تک کے خطوط غالب کو اس انداز میں پیش کیا کہ اس دور کا پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔

انیس اعظمی نے منشی ہرگوپال تفتہ، تفضل حسین خاں، پیارے لال آشوب، گوبند سہائے، نواب امین الدین احمد خاں، میر مہدی مجروح، عزیز الدین ، خواجہ غلام غوث خاں اور رامپور کے نواب میر حبیب نواب کو لکھے خطوط کی اس انداز میں قرات کی کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے غالب خود آکر اپنے خطوط پڑھ رہے ہیں۔

ان خطوط سے اس دور کی تاریخ پر بھی اجمالاً روشنی پڑتی ہے۔

خیال رہے کہ انیس اعظمی ملک کے مختلف شہروں میں سو سے زائد مرتبہ خطوط غالب کی بہ زبان غالب قرات کرکے تفہیم غالب کو ایک نئی جہت دے چکے ہیں۔

اس موقع پر غالب اکیڈمی کے صدر خواجہ حسن ثانی نظامی نے کہا کہ غالب نے حضرت علی کی شان میں جو قصائد لکھے ہیں وہ بے مثال ہیں اور اگر غالب کسی دوسرے مذہب کے پیرو ہوتے تو مولا علی ان کے دیوتا ہوتے۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ غالب کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ 1857کی لڑائی ہے۔ ان کے بعد کوئی ایسا شاعر موجود نہیں جو پہلی جنگ آزادی کے حالات قلمبند کرتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ غالب اپنے خطوط کو چھپوانا نہیں چاہتے تھے تاہم ان کی زندگی ہی میں ’عود ہندی‘ اور ’اردوئے معلی‘ کی اشاعت ہو گئی تھی۔

Saturday, December 12, 2009

مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی ناقابل فراموش خدمات

ہندوستان میں ہمدرد دواخانہ کے بانی حکیم عبد الحمید غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں نمایاں کوششیں کی تھیں ۔ انھوں نے ہی مزار سے متصل ایک بڑا قطعہ اراضی خرید کر اس پر غالب اکیڈمی کی تعمیر کروائی۔ غالب پر ان کی مرتب کردہ تین کتابیں ’حالات غالب‘ ’مطالعات خطوط غالب‘ اور ’مطالعات کلام غالب‘ شائع ہوئی ہیں۔جبکہ غالب اکیڈمی میں ان کی کوششوں سے قائم غالب میوزیم لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے ہے۔

دارالسلطنت نئی دہلی کے علاقے بستی حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی میں گذشتہ روز ’مطالعات غالب میں حکیم عبد الحکیم کی خدمات‘ کے زیر عنوان ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشین خواجہ حسن ثانی نظامی نے، جو کہ حکیم عبد الحکیم کے ایک قریبی دوست رہے ہیں، کلیدی خطبہ پیش کیا اور مطالعات غالب میں حکیم صاحب کی خدمات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ اسی لئے انھوں نے مزار غالب سے متصل غالب اکیڈمی قائم کی تاکہ غالب کی تفہیم و ترویج میں مدد مل سکے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے چندے کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح بہت سے لوگوں نے ان کے مزار کے لیے چندے جمع کیے اور ہضم کر گئے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں فلم ساز سہراب مودی کے تعاون سے متعلق پھیلی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں کوئی تعاون نہیں دیا تھا۔ ان کا تعاون بس اتنا تھا کہ انھوں نے مزار غالب پر چادر چڑھائی اور وہاں کھڑے ہو کر تصویر بنوا ئی۔ اور اس طرح ایک غلط فہمی پھیل گئی۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے غالب سے حکیم عبد الحمید کی محبت اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غالب اکیڈمی کے قیام کا منصوبہ انھوں نے 1935ہی میں بنا لیا تھا۔ اسی سال انھوں نے مطالعات غالب کی خاطر غالب اکیڈمی قائم کرنے کے لیے مزار غالب سے متصل ایک قطعہ اراضی خریدا۔ بعد میں اس پر ’غالب اکیڈمی‘ کے نام سے ایک تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی اور غالب صدی تقریبات کے دوران 22فروری 1969کو اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔اسی موقع پر یوسف حسین مرحوم کی کتاب ’غالب اور آہنگ غالب‘، ہندی میں ’سرل غالب‘ اور انگریزی میں ’نوائے سروش‘ کے نام سے غالب پر تین کتابیں غالب اکیڈمی سے شائع کی گئیں۔غالب اکیڈمی کی جانب سے غالب پر اب تک دو درجن سے زائد کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔

ڈاکٹر عقیل نے مزید بتایا کہ حکیم صاحب کے ذاتی ذخیرے سے غالب اکیڈمی کی عمارت میں میوزیم اور لائبریری بھی قائم کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ حکیم صاحب نے غالب کے کلام کو موسیقی کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی اور انہی کی کوششوں سے موسیقی کے ساتھ کلام غالب گانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کئی سالوں سے اب بھی جاری ہے۔ حکیم صاحب نے غالب کی غزلوں کے کیسٹ اور فلاپی بھی بنوائی تھی (اس وقت سی ڈی کا رواج شروع نہیں ہوا تھا)۔اس طرح انھوں نے موسیقی کی مدد سے غالب کی غزلوں کو پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔

حکیم صاحب 1935سے ہی غالب پر لکھی گئی تحریریں یکجا کرتے رہے اور ان کو مختلف عنوانات کے تحت فائلوں میں محفوظ کرتے رہے ہیں۔انہی فائلوں کے مضامین کے انتخاب سے تین کتابیں غالب کی سوانح، غالب کی نثر اور غالب کی شاعری ترتیب پائی تھیں۔پہلی کتاب 1999میں ’حالات غالب‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد دوسری کتاب ’مطالعات خطوط غالب‘ حکیم صاحب کے سوویں یوم پیدائش پر شائع کی گئی اور اب تیسری کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ غالب اکیڈمی نے شائع کی ہے۔

ہمدرد آرکائیوز ریسرچ سینٹرکے ڈائرکٹر سید اوصاف علی نے بھی، جنھوں نے چالیس سال تک حکیم عبد الحمید کے ساتھ کام کیا ہے، غالب سے حکیم صاحب کی عقیدت و محبت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب میوزیم قائم کرنے کے سلسلے میں بہت پرجوش تھے۔انھوں نے غالب کی پسندیدہ اشیاکو یکجا کرواکر میوزیم میں رکھوایا۔ یہاں تک کہ غالب کو بخارہ کی خمیری روٹی بہت پسند تھی ،لہذا جب میں ایک پروگرام کے تحت بخارا گیا تو حکیم صاحب نے مجھ سے وہاں کی روٹی منگوائی اور وہ روٹی آج بھی میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔

اس میوزیم میں غالب کے پسندیدہ کھانوں کے علاوہ غالب کے لباس بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کا ایک قد آدم مجسمہ اور یہاں تک کہ اس ڈومنی کا بھی مجسمہ نصب ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غالب کی محبوبہ تھی۔ اس کے علاوہ ایک مصور برجیندر سیال نے غالب کے اشعار کے مفہوم کو سنگ ریزوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر :

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اس شعر کے مفہوم کو اجاگر کرنے کے لئے ایسے سمندری پتھر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے رکھے ہوئے ہیں جو انسانی شبیہ کا تصور اور مذکورہ شعر کا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔

اس پروگرام میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے بھی مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی خدمات پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر غالب اکیڈمی سے شائع کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ کی رسم رونمائی بھی ہوئی، جس میں خواجہ حسن ثانی نظامی، گلزار دہلوی، سید اوصاف علی، ڈاکٹر عقیل احمد اور دوسرے لوگ شامل تھے۔

اس کتاب میں کل چالیس مضامین ہیں جو 1953سے لے کر 1998تک کے دوران مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ مضمون نگاروں میں پروفیسر سید احتشام حسین، ماہر غالبیات مالک رام، ظ۔ انصاری، پروفیسر آل احمد سرور، سید عابد علی عابد، وحید قریشی، فرمان فتح پوری، کالی داس گپتا رضا، گیان چند جین، جگن ناتھ آزاد اور سید مسعود حسین رضوی ادیب جیسے نامور قلمکار اور ماہرین غالبیات شامل ہیں۔