Tuesday, June 16, 2009

Raza Library Rampur: رضا لائبریری رامپور پر یادگاری ڈاک ٹکٹ

رامپور کی تاریخی رضا لائبریری ہندوستان کی ممتاز لائبریریوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق مرکزی حکومت نے اس پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے اس کی جد و جہد کی جا رہی تھی۔اس سلسلے میں اتر پردیش کے گوررنر ٹی وی راجیشور نے گذشتہ دنوں رضا لائبریری کا دورہ کیا تھا اور لائبریری میں تاریخی کتابوں کو بڑے اشتیاق کے ساتھ دیکھا تھا۔ جب انہیں اس کتب خانے کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔یادگاری ڈاک ٹکٹ اتر پردیش کے گورنر جلد ہی جاری کریں گے۔
اس تاریخی کتب خانے کی بنیاد ریاست مصطفی آباد عرف رامپور کے نواب فیض اللہ خاں نے 17ستمبر 1774ءکو رکھی تھی۔لیکن اس میں کتابوں کا ذخیرہ نواب کلب علی خاں نے جمع کیا۔اس ممتاز کتب خانے میں 20 ہزارمخطوطات،82ہزار مطبوعہ کتب،160مصور مخطوطات،پانچ ہزار چھوٹی پینٹنگز اور تین ہزار اسلامی خطاطی کے نمونے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔اس میں عربی، فارسی، ترکی اردو، پشتو،ہندی اور سنسکرت کی نادر و نایاب کتابیں موجود ہیں۔ہرن کی کھال پر خلیفہ چہارم حضرت علی کے دست مبارک سے لکھی کتاب کے علاوہ طلائی حروف میں تحریر کردہ قرآن پاک کا نادر نسخہ بھی ہے۔لکھنوٴ کے چار باغ کے مغل باغ کی طرز پر کتب خانے کے باہر بنے باغ کی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔
لائبریری کے قیام کے بعد نواب سید محمد سعید خاں بہادر نے اس کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا۔لکڑی کی الماریاں تیار کی گئیں اور ایک افغانی اسکالر آغا یوسف علی محوی کو لائبریری کی ترتیب و تنظیم کے لیے معمور کیا گیا۔کتابوں کے لیے فارسی میں ایک مہر بنوائی گئی جس پر یہ شعر کندہ تھا:ہست ایں مہر بر کتب خانہ
والیِ رامپور فرزانہ
لائبریری کو نوادرات سے مالامال کرنے کے لیے نواب کلب علی خاں کی کوششیں کم قابل ذکر نہیں ہیں۔انہوں نے نایاب مخطوطے اور اسلامی خطاطی کے نمونوں کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔مختلف ملکوں کا دورہ کیا اورانہی کی وجہ سے لائبریری کو قرآن کریم کا وہ نسخہ ملا جو چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی سے منسوب ہے۔
ان کے بعد نواب مشتاق علی خاں بہادر نے لائبریری کی ترقی و توسیع کے لیے بجٹ مختص کیا اور نئی عمارت کی تعمیر کی۔ان کے بعد نواب سر سید محمد حامد علی خاں (1875-1930)نے اپنے عہد میں عالی شان عمارتیں بنوائیں۔انہوں نے ہی خاص باغ میں قلعے کے اندر حامد منزل تعمیر کروائی۔اسی حامد منزل میں 1957ءمیں لائبریری منتقل کر دی گئی۔
ان کے فرزند نواب ڈاکٹر سر سید محمد رضا علی خاں (1906-1966)نے لائبریری کی تنظیم نو کی۔وہ ہندوستانی موسیقی کے دلدادہ تھے اس لیے انہوں نے موسیقی سے متعلق بہت سے نایاب مخطوطے خریدے۔1949ءمیں وفاق ہند میں رامپور ریاست کے الحاق کے بعد یہ لائبریری ٹرسٹ کے حوالے کر دی گئی اور یکم جولائی 1975ءکو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت یہ لائبریری مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔
نواب رضا علی خاں سے موسوم یہ لائبریری اب ایک خود مختار قومی ادارہ ہے جہاں ملک و بیرون ملک کے دانش ور آتے ہیں اور فیض یاب ہوتے ہیں۔نوادرات اور مخطوطات کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی شناخت ہے۔نواب لوہارو کے علمی ذخیرہ کی شمولیت سے اس کی افادیت میں اور اضافہ ہوا۔علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم اور مفکر نے جب اس لائبریری کی زیارت کی تو انہوں نے اعتراف کیا:’ہندوستان میں اس سے بہتر کوئی ذخیرہ نہیں۔میں نے شام، ترکی اور یورپ کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان تمام لائبریریوں سے زیادہ عمدہ ذخیرے کی حامل ہے۔‘
علوم و معارف کے اس قدیم خزینے کو دیکھ کر کویت میوزیم کے سابق ڈائرکٹر نے کہا تھاکہ کویت میوزیم سے زیادہ نایاب اور قیمتی مخطوطات یہاں ہیں۔تاریخ، فلسفہ، مذاہب، سائنس، آرٹ، ادب، طب، فلکیات، نجومیات، ریاضیات، طبقات الارض اور فنون لطیفہ سے متعلق مخطوطات یہاں ہیں،جن کی تفصیلات مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی چھ جلدوں پر محیط عربی مخطوطات کی فہرست، حافظ احمد علی شوق کی مرتب کردہ فہرست اور حکیم محمد حسین خاں شفا کی مخطوطات رامپور میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ راجکمار منوہر اور راجکماری مدھو مالتی کی داستان عشق پر مبنی ملک منجن کی ’مد مالتی‘ اور ملک محمد جائسی کی اودھی زبان میں مشہور عشقیہ داستان ’پدماوت‘ کی مکمل کاپی صرف یہیں محفوظ ہے۔یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں اونٹ کے چمڑے پر لکھا ہوا کوفی رسم الخط میں قرآن کریم کا ایک نسخہ محفوظ ہے جو حضرت علی سے منسوب ہے۔ بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی صرف یہاں ہے اور کہیں نہیں۔مولانا امتیاز علی عرشی کے بقول، جو اس لائبریری کے ناظم تھے
:تاریخی کتابوں کے مطابق ابو علی محمد بن علی بن حسن بن عبداللہ بن مقلہ بیضاوی 272ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ تین عباسی خلفا مقتدر باللہ، قاہر باللہ اور راضی باللہ کے دور میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔حاسدین کی سازشوں کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور وہیں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے گئے۔مگر اس کے باوجود وہ اپنے بازو کے ساتھ قلم باندھ کر خطاطی کرتے تھے۔ثلث، ریحان، محقق، توقیع، نسخ اور رقع انہی کی ایجاد ہے۔ابجد کی نئی ترتیب بھی انہی کی دین ہے۔راضی باللہ کے عہد میں اس نابغہ روزگار کو قتل کر دیا گیا۔انہوں نے ہی کوفی خط کو ایک موڑ دے کر موجودہ نسخ خط بنایا تھا۔
تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی صرف دو کاپیاں تیار کی تھیں۔ان میں سے ایک نسخہ رضا لائبری میں موجود ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ صرف یہی ایک نسخہ ہزارہا پونڈ قیمت کا ہے۔اس کے علاوہ قرآن مجید کی سب سے پرانی تفسیر امام سفیان ثوری کی تفسیر ہے جس کا واحد نسخہ یہاں موجود ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر لائبریری نے حکومت ہند کی مدد سے اسے شائع کر دیا ہے۔اس لائبریری میں شاہنامہ فردوسی، دیوان حافظ، سنسکرت کے پنج تنتر کا عربی ترجمہ اور کلیلہ و دمنہ کے مصور نایاب مخطوطے ہیں۔فارسی نستعلیق میں رامائن کا مصور نسخہ دیکھ کر ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر نے کہا تھا کہ انہوں نے رنگین تصویروں والی ایسی قدیم کتاب نہیں دیکھی ہے۔
رضا لائبریری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں مغل، ترک، راجپوت، پہاڑی، اودھی اور فارسی منی ایچرز کے نایاب نمونے موجود ہیں۔خاص طور پر جلال الدین محمد اکبر کے بیٹے نور الدین سلیم جہاں گیر کی وہ پینٹنگ ہے جس میں وہ جھروکے سے باہر دیکھ رہے ہیں۔یہاں مصور مخطوطوں اور فارسی پینٹنگ کے بارے میں 276صفحات پر مشتمل ایک کتاب بھی ہے۔اس لائبریری سے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں، حافظ احمد علی خاں شوق، علامہ نجم الغنی خاں اور ممتاز محقق مولانا امتیاز علی عرشی جیسی عظیم ہستیاں وابستہ رہی ہیں۔حکومت ہند نے اس عظیم الشان کتب خانے پر یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کرکے قابلِ مبارکباد کام کیا ہے۔بلا شبہہ اس سے لائبریری کی نہیں بلکہ یادگاری ٹکٹ کی شان میں اضافہ ہوتا ہے۔

Wednesday, June 3, 2009

’برانڈ راہل‘بکتا ہے بازار میں


آج کل ہندوستانی منڈی میں صرف ایک ہی برانڈ بک رہا ہے اور وہ ہے’راہل برانڈ۔‘ کیا سیاست، کیا صحافت، کیا تجارت اور کیا محبت،یا تو راہل گاندھی چرچا میں ہیں یا پھر ان کا کرشمہ۔

نوجوانوں اور تجربہ کاروں پر مشتمل وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی کابینہ اور حکمراں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کا بھی اگر ذکر ہوگا تو راہل گاندھی کے حوالے سے ہی ہوگا۔ راہل نے یو پی میں جو کرشمہ دکھایا ہے اس کے آگے آج کل سارے کرشمے فیل ہیں۔سیاست دانوں میں چرچا ہے کہ راہل نے اتر پردیش میں کانگریس کو زندہ کر دیا۔ عوامی حلقوں میں چرچا ہے کہ اتنی زبردست کامیابی کے باوجود راہل نے منسٹری کیوں ٹھکرا دی۔ من موہن سنگھ کہتے ہیں کہ میں نے راہل کو وزیر بنانے کی پیشکش کی تھی اور سونیا کہتی ہیں کہ میں نے ان کو بہت منایا مگر اس معاملے میں وہ میری بات ہی نہیں مانتے۔ کانگریسی لیڈروں کا خیال ہے کہ چونکہ راہل کو آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اس لیے ان کو کابینہ میں شامل ہو جانا چاہئیے تاکہ وہ اسرار و رموز حکم رانی سے واقف ہو جائیں۔

ادھر اخباری کالموں میں بھی یہ نوجوان چھایا ہوا ہے۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی راہل راگ بجایا جا رہا ہے۔انتخابی نتائج آنے کے بعد کئی چینلوں نے راہل گاندھی اور ورون گاندھی کا موازنہ کیا اور بتایا کہ ورون صرف گفتار کے گاندھی ہیں جب کہ راہل کردار کے گاندھی ہیں۔انتخابی مہم کے دوران ورون گاندھی نے اپنی ایک تقریر میں راہل گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نام کے گاندھی نہیں کام کے گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ وہ صرف خاندانی رشتوں کی بنیاد پر گاندھی کہلانا نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام اور خدمات کی بنیاد پر گاندھی کہلانا پسند کریں گے۔

لیکن راہل کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، وہ اپنی انتخابی مہم میں جی جان سے جٹے رہے اور لفاظی کے بجائے کام کرتے رہے۔انہوں نے کبھی بھی اندارا گاندھی یا راجیو گاندھی کے وارث ہونے پر فخر کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انتہائی انکساری اور خاک ساری کا مظاہرہ کرتے رہے۔

انتخابی مہم سے قبل بھی انہوں نے ایسے کام کیے جو عوام کے دلوں میں بیٹھ گئے۔مزدوروں کی کسی بستی سے گزرتے وقت سر پر مٹی رکھ کر ڈھونا،کسی دلت کے گھر جانا، وہاں کھانا کھانا اور دلت کی چارپائی پر رات گزارنا۔یہ ایسی باتیں ہیں جو مزاج کا حصہ ہوتی ہیں اور مزاج کے مطابق ہی انسان کام کرتا ہے۔حالانکہ یو پی کی وزیر اعلی مایا وتی نے راہل کے دلت پریم کو ایک دکھاوا اور ریاکاری قرار دینے کی کوشش کی اور ایک تقریر میں یہ کہتے ہوئے ان کی اس خاک ساری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ یہ یووراج جب دلت کے گھر کھانا کھا کر یا دلتوں سے مل کر واپس اپنے گھر جاتا ہے تو اس کا شدھی کرن کیا جاتا ہے اور گنگا جل سے اسے پاک کیا جاتا ہے۔لیکن ان کی اس دلیل کو کسی نے بھی لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور الیکشن کے دوران رائے دہندگان نے مایاوتی کے اس الزام کو عملاً مسترد کر دیا۔
انتخابی نتیجہ آنے کے بعد ہر آنکھ اگر کسی کو ڈھونڈ رہی تھی تو وہ راہل گاندھی تھے۔سب سے پہلے من موہن سنگھ نے سونیا گاندھی کے گھر جا کر ان کو جیت کی مبارکباد دی اور راہل کو کابینہ میں لینے کی پیش کش کی۔اس کے بعد راہل نے کانگریس وار روم میں نوجوان ممبران پارلیمنٹ کو چائے پر بلایا۔ اس وقت بھی وہی سب کے منظورِ نظر رہے۔اس دوران منسٹری تشکیل دینے کا عمل جاری رہا اور ہر شخص یہ سوال کرتا رہا کہ راہل گاندھی وزیر بنیں گے یا نہیں۔پہلی حلف برداری میں بھی یہ تجسس برقرار رہا اور اس کے بعد بھی۔ البتہ جب دوسری توسیع ہوئی اور اس میں کئی نوجوان تو لیے گئے لیکن راہل نہیں لیے گئے تب جاکر یہ تحیر دور ہوا۔

اس موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ انہوں نے راہل کو منانے کی بہت کوشش کی لیکن اس معاملے پر وہ ان کی بات نہیں سن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس تنظیم کو زندہ اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں،لہذا وہ وزارت میں شامل نہیں ہوں گے۔کانگریس کے بعض حلقوں سے اس سے پہلے انہیں وزیر اعظم بنانے کا مطالبہ اٹھتا رہا۔ لیکن اس معاملے پر سونیا گاندھی کا فیصلہ اٹل رہا اور انہوں نے الیکشن کے دوران ہی اعلان کر دیا تھا کہ من موہن سنگھ ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ دراصل سونیا گاندھی ایک تجربہ کار اور سنجیدہ سیاست داں بن گئی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ خود عہدے کی لالچی نہیں ہیں، اس لیے اپنے بچوں کو بھی لالچی بنانا نہیں چاہتیں اور تیسری بات یہ کہ وہ جب چاہیں گی یا تو خود وزیر اعظم بن جائیں گیا یا راہل گاندھی کو بنا دیں گی، اس راہ میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔

انہوں نے جس طرح کانگریس کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کانگریس تو ختم ہو گئی تھی،اس کی تدفین کی تیاری چل رہی تھی کہ سونیا گاندھی جیسا مسیحا اس کو مل گیا جس نے اسے ایک نئی زندگی عطا کردی۔وہ جب چاہیں اس احسان کی قیمت حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہی بہت بڑی بات ہے کہ بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بنی رہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اس کردار میں ان کو جو عزت اور وقار حاصل ہے وہ وزیر اعظم بننے یا راہل کو وزیر اعظم بنانے میں نہیں ہے۔

شہرت و مقبولیت کے اوج ثریا پر فائز ہونے کے باوجود نہ تو سونیا گاندھی میں کبر و غرور آیا ہے اور نہ ہی راہل کے مزاج میں تکبر پیدا ہوا ہے۔بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح پھل آنے پر شاخ جھک جاتی ہے اور دوسروں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا مشکل نہیں رہ جاتا، کچھ ایسا ہی ان دونوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

آج اگر سب سے زیادہ موضوع گفتگو کوئی ہے تو وہ راہل گاندھی ہیں۔ لیکن یہ نوجوان انتہائی خاک ساری سے لوگوں سے ملتا ہے اور عاجزی کے ساتھ اپنی خوش احلاقی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔حالانکہ گذشتہ الیکشن میں جب راہل اور پرینکا نے انتخابی مہم چلائی تھی تو عوام نے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور انہیں طفل مکتب قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اس بار لوگوں نے انہیں نووارد میدان سیاست نہیں سمجھا، بلکہ ان کی باتوں کو سنا اور ان پر عمل بھی کیا۔بی جے پی کے ترجمان سدھارتھ ناتھ نے ان کو بچہ سمجھنے کی غلطی کی تھی اور کہا تھا کہ جو بچے الیکشن میں کلکاریاں بھر رہے ہیں وہ نتیجہ آنے کے بعد خاموش ہو جائیں گے۔ لیکن انہی کلکاری بھرنے والے بچوں نے بی جے پی اور پوری آر ایس ایس کو چپ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔

اب ذرا راہل کی پرکشش شخصیت کے ایک غزلیہ پہلو کا ذکر ہو جائے۔راہل گاندھی صرف سیاست دانوں یا عوام ہی میں مقبول نہیں ہیں بلکہ بہت سی دوشیزائیں بھی ان پر اپنی جان چھڑکتی ہیں۔ کلاسیکی شاعری میں ’چاہِ ذقن ‘ کی جسے انگریزی میں ’ڈمپل‘ کہتے ہیں، بڑی اہمیت رہی ہے اور شعرا اپنے محبوب کے رخساروں یا ٹھوڑی میں پڑنے والے گڈھے پر اپنی جان دیتے رہے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور آج بھی اسے حسن کی اضافی خاصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔راہل گاندھی بھی اس خاصیت کے مالک ہیں اور یونیورسٹی اور کالج کی بہت سی طالبات ان کے حسن پر اور بالخصوص ’چاہِ ذقن‘ پر فدا ہیں۔شائد ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں راہل نے اس خوبی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔