Thursday, January 22, 2009

Drama Festival in Delhi: دہلی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے فن کاروں کا ڈرامہ فسٹیو ل


سہیل انجم

نئی دہلی

January 21, 2009


ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب دنیا بھر کے سرکردہ ڈرامہ گروپ ایک ہی اسٹیج پر جمع ہو جائیں۔ لیکن یہ سنہرا موقع گذشتہ دنوں دہلی کے ڈرامہ شائقین کو میسر آیا جب این ایس ڈی یعنی نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے 51ویں یوم تاسیس کے موقع پر ’بھارت مہوتسو‘ کا انعقاد کیا گیا۔اس گیارہویں جشن میں جو کہ سات جنوری سے انیس جنوری تک منایا گیا،بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش، جاپان اور جرمنی سمیت بارہ ملکوں کے ڈرامہ گروپوں نے شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔اس مہوتسو میں نئے عالمی نظام میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور عالمی سطح پر ڈرامہ کی صورت حال اور اس کے امکانات کو جاننے اور سمجھنے کا موقع لوگوں کو ملا۔اس میں کل 63ڈرامے پیش کیے گئے۔اس جشن کی افتتاحی تقریب میں بزرگ اداکارہ اور ’مادر تھٹیئر۔‘ زہرہ سہگل نے بھی شرکت کی اور حفیظ جالندھری کی طویل نظم ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اپنے سحر انگیز اور پرکیف انداز اور پاٹ دار آواز میں سنا کر لوگوں کو سحر زدہ کر دیا۔93سالہ زہرہ سہگل نے دیوانہ بنا دینے والی آواز اور پر اثر انداز بیان کے ساتھ نہ صرف ایک سماں باندھ دیا بلکہ شائقین کو جو کہ پہلے ہی ان کے دیوانے تھے، ایک بار پھر دیوانہ بننے پر مجبورہو گئے۔جب یہ بزرگ اداکارہ اور اسٹیج کی ملکہ انتہائی پرجوش انداز میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ کہتیں تو لوگوں پر ایسا جادو چھا جاتا کہ لوگ مدہوش ہو جاتے۔پاکستان کے گروپ ’تحریک نسواں‘ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ڈرامہ ’جنے لاہور نئیں ویکھیا‘ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔اس ڈرامے کی ڈائرکٹر شیما کرمانی نے بھارت مہوتسو میں شرکت پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے پروگراموں سے دونوں ملکوں کے عوام میں میل جول اور پیار محبت میں اضافہ ہوگا۔انھوں نے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کے وفود کے تبادلے پر زور دیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام جنگ نہیں دوستی چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے عالمی جشن میں شرکت ان کے لیے فخر کی بات ہے۔نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) کا اقیام 1958ءمیں ہوا تھا۔ اس کی تاسیس سنگیت ناٹک اکیڈمی نے ’دی ایشین تھئیٹر انسٹی ٹیوٹ، کے نام سے کی تھی۔لیکن 1962ءمیں اس کا نام نیشنل اسکول آف ڈرامہ کر دیا گیا۔اس اسکول سے اسٹیج اور فلم کی سرکردہ اور شہرہٴ آفاق شخصیات وابستہ رہی ہیں جو اب فلموں میں اپنا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہیں۔اس کے پروڈکٹس میں انوپم کھیر، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، پنکج کپور اور سیما بسواس وغیرہ متعدد فلمی ہستیاں شامل ہیں۔یہ ادارہ اپنی نوعیت کا واحد ڈرامہ اسکول ہے اور پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی سات سال تک اس کی مستقل چیرپرسن رہی ہیں۔1975میں اسے ایک خودمختار ادارہ بنا دیا گیا۔ڈرامہ اور اسٹیج کو اپنے لیے کیریئر اور پروفیشن کے طور پر اپنانے والے یہاں سے تین سال کا ڈپلومہ کورس کرتے ہیں۔
اس ادارے کے قیام کے پس پردہ ایک طویل کہانی ہے۔بھارت میں ڈراموں کا آغاز سنسکرت ڈراموں سے ہوا تھا۔لیکن دسویں صدی میں سنسکرت ڈراموں پر زوال آگیا اور لوگ ڈرامہ آرٹسٹوں کو گری نظر سے دیکھنے لگے۔بہر حال ڈرامہ اور اسٹیج سے دلچسپی رکھنے والوں نے ہندوستان میں اس کے احیا کی کوشش شروع کی اور پھر 1958ءمیں این ایس ڈی کا قیام عمل میں آیا۔فلمی دنیا کو اپنے کیریئر کے طور پر اپنانے والے بھی اس اسکول میں اداکاری کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔این ایس ڈی نے ڈرامے کے فن کو ایک باوقار مقام عطا کیا ہے اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلوائی ہے۔گیارہ سال قبل شروع کیے گئے بھارت مہوتسو نے بھی ڈرامے کے فن کو وقار عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب سے یہ جشن منایا جانے لگا ہے دنیا کے ڈرامہ آرٹسٹوں کی نظر دہلی کے این ایس ڈی کی جانب اٹھنے لگی ہے۔تقریباً دو ہفتے تک چلنے والے اس جشن میں نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے سے فنکار شرکت کرتے ہیں اور قومی زبان اردو اور ہندی کے علاوہ علاقائی زبانوں میں بھی ڈرامے پیش کرتے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ڈرامہ آرٹسٹ بھی شرکت کرتے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اب اس کے جشن میں مختلف ملکوں کے ڈرامہ گروپ بھی شریک ہوتے ہیں اور اسے اپنی خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔اس جشن میں شیکسپئیر، کالی داس، رابندر ناتھ ٹیگور، آغا حشر کاشمیری کے ساتھ ساتھ مقامی ڈرامہ رائٹروں کے ڈرامے بھی اسٹیج کیے جاتے ہیں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ڈرامہ شائقین کے جذبات کی تسکین بھی کی جاتی ہے۔گیارہویں بھارت مہوتسو کے دوران کناٹ پلیس اور بنگالی مارکٹ سے متصل منڈی ہاوٴس کا پورا علاقہ دنیا بھر کے فنکاروں کی آماج گاہ بنا رہا اور دہلی کے شائقین بھی اس میں بڑی تعداد میں جوش خروش کے ساتھ شریک ہوئے۔

Published on VOA News.Com at http://www.voanews.com/urdu/2009-01-21-voa22.cfm

Tuesday, January 20, 2009

Mushaira Lal Quila لال قلعے کے اردو مشاعرے: روایت و حکایت


سہیل انجم نئی دہلی
January 19, 2009

اردو مشاعرے ہماری ادبی و تہذیبی روایت کے امین اور ہماری لسانی بیداری کے عکاس ہیں۔ مشاعروں کی ایک الگ تہذیب ہے، ایک الگ رنگ ڈھنگ ہے۔یہ تہذیب ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی زبان اور شعری سرمائے کا تحفظ عزیز ہے تو ہمیں معیاری مشاعروں کے انعقاد اور ان میں شرکت سے گریز نہیں کرنی چاہئے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور تلخ حقیقت ہے کہ اب عوامی مشاعروں کا معیار انتہائی پست ہو تا جا رہا ہے اور ایسے ایسے لوگ بھی شاعر کی حیثیت سے ان میں شرکت کرنے لگے ہیں جو نہ تو اردو زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی شعری روایت سے اور نہ ہی انہیں شاعر ہی کہا جا سکتا ہے۔بہر حال آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں جہاں اردو کے لوگ موجود ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اب توشاعروں کو معقول نذرانے بھی ملنے لگے ہیں اور بعض شاعروں نے مشاعرہ پڑھنے ہی کو اپنا مستقل ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔
ہندوستان میں مشاعروں کے انعقاد کی ایک تاریخی روایت موجود ہے۔ہاں، یہ الگ بات ہے کہ آزادی سے قبل یا یوں کہیں کہ مغل دور حکومت میں عوامی مشاعروں کا کوئی رواج نہیں تھا اور صرف خواص کے مشاعرے ہوتے تھے یا شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں جو کسی بڑے آدمی کی حویلی میں منعقد ہوتی تھیں یا پھر لال قلعہ کے دیوان خاص میں شعری نشست ہوتی تھی۔ جس میں بادشاہ اور شاہزادوں کا کلام سنا جاتا تھا۔دہلی میں مشاعروں کی روایت پر گہری نظر رکھنے والے ادیب اور متعدد کتابوں کے مصنف عظیم اختر کے مطابق دہلی میں عوامی مشاعروں کا آغاز 1920ءکے آس پاس ہوا۔ اس سے قبل ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔تقسیم ملک کے خوں چکاں ایام کے بعد جب خاک و خون کا سلسلہ تھما تو مشاعروں کی روایت کو زندہ کرنے کے لیے بعض سرفروش اور اردو کے دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس کے لیے مغل دور حکومت کے مرکز لال قلعہ کا انتخاب کیا۔اگر ہم کہیں کہ آزادی کے بعد مشاعروں کی روایت کی تجدید اسی تاریخی مرکز سے ہوئی تو شائد غلط نہیں ہوگا۔
بقول عظیم اختر پہلا’ مشاعرہ جشن جمہوریت، فروری 1950ءمیں لال قلعہ کے دیوان خاص میں منعقد کیا گیا تھا اور جو دہلی میں ’مشاعرہ جشن جمہوریت، کی بنیاد بنا۔اس وقت سے لے کر آج تک ہر سال مشاعرہ جشن جمہوریت کا انعقاد ہوتا ہے۔اس تاریخی مشاعرے کا انعقاد اس پرآشوب دور میں دہلی کی سرزمین پر قائم ہونے والی غالباًپہلی اور آخری ادبی تنظیم ’اردو سبھا ،نے کی تھی اور اس کے روح و رواں بھاری بھرکم ادبی شخصیت پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی تھے۔اس زمانے میں جبکہ اردو دشمنوں اور فرقہ پرستوں کی جانب سے اردو زبان کو تقسیم ملک کا ذمے دار قرار دیا جا رہا تھا اور کوئی بھی شخص اردو کا نام لینے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا، تب پنڈت دتا تریا کیفی نے اپنے اردو دوستوں کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنا ڈالی تھی۔اس تنظیم کو گوپی ناتھ امن لکھنوی، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر اور گوپال متّل جیسی قد آور شخصیات کا سرگرم اور عملی تعاون حاصل تھا۔اردو سبھا در اصل دیال سنگھ کالج لاہور کے مشہور زمانہ استاد علامہ تاجور نجیب آبادی کے ذہن کی پیداوار تھی۔
بہر حال 1950ءمیں منعقد ہونے والے اس پہلے مشاعرہ جشن جمہوریت میں اس وقت کے جن نابغہ روزگار شعرا نے شرکت کی تھی ان میں استاد بیخود دہلوی، جگر مرادآبادی، مجاز لکھنوی، فراق گورکھپوری، نوح ناروی، ناطق گلاوٹھی،جوش ملیح آبادی، شعری بھوپالی، جوش ملسیانی، بوم میرٹھی، تلوک چند محروم، راز دہلوی، برج موہن دتا تریا کیفی، امن لکھنوی ،انور صابری، عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد، روش صدیقی اور نشور واحدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آزاد ہندوستان کا یہ شاید پہلا مشاعرہ تھا۔ دیوان خاص میں ہونے والا یہ مشاعرہ ریڈیو سے براہ راست نشر کیا گیا اور اسے پورے ملک نے سنا۔
جشن جمہوریت کے اس اولین کامیاب مشاعرے نے دتا تریا کیفی اور ان کے مخلص ساتھیوں کے حوصلے بلند کر دیے اور انھوں نے جشن آزادی کے مشاعرے کا اہتمام کر ڈالا۔یہ مشاعرہ دوشبی تھا اور اس میں بھی ملک بھر کے اہم شعرا نے شرکت کی تھی۔پہلے دن کے مشاعرے کی صدارت علامہ دتا تریا کیفی نے اور دوسرے دن کی صدارت سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی نے کی۔اس مشاعرے میں جوش ملیح آبادی کی ہنگامہ خیز نظم نے مشاعرے کے ماحول کو بدل دیا تھا۔جوشِ بلانوش نے منتظمین مشاعرہ کے اس اعلان کی کھلی خلاف ورزی کی کہ صرف وہی شعرا شرکت کریں گے جو شراب نہ پیتے ہوں۔تاہم جوش ملیح آبادی کو اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔اسی درمیان شہر میں یہ بات گشت کرنے لگی کہ جوش صاحب اس شرط کی پرزور انداز میں مخالفت کرتے ہوئے نظم پڑھیں گے۔یہ مشاعرہ لال قلعہ کے دیوان عام میں منعقد کیا گیا اور مشاعرہ گاہ کو اس کے شایان شان دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔دیوان عام میں بچھی سنگ مرمر کی چوکی ناظم مشاعرہ کے لیے مخصوص کر دی گئی۔ شائقین کا زبردست ازدحام تھا اور ایک بڑا طبقہ جوش کی پرجوش نظم سننے کے لیے آیا تھا۔
اس دو شبی مشاعرہ کی پہلی شب انتہائی کامیاب رہی۔ اسی لیے جو لوگ اس شب نہیں پہنچ سکے تھے دوسری شب وہ بھی چلے آئے۔مشاعرہ شروع ہوا اور کافی رات تک چلتا رہا۔ عظیم اختر اپنے والد اور ادیب و شاعر مولانا علیم مظفر نگری کی قلمی یادداشتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ادھر مشاعرہ شروع ہوا اور ادھر جوش صاحب اسٹیج سے اٹھ اٹھ کر جھاڑیوں میں جاتے اور اپنا موڈ بنا کے آتے۔بہر حال جوش صاحب کا نمبر آیا۔ انھوں نے سامعین پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور نظم سنانے سے قبل ایک تمہیدی تقریر کر دی جس میں انھوں نے مولانا احمد سعید دہلوی جیسے مذہبی لوگوں پر طنز و تشنیع کے تیر چلائے۔انھوں نے جو نظم سنائی تھی وہ ان کے مجموعہ کلام ’سموم و صبا‘ میں موجود ہے۔اس پر ایک نوٹ بھی درج ہے جس میں انھوں نے علما کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ہے اور گوپال متل اور بسمل شاہجہاں پوری پر رکیک حملے کیےہیں۔بہر حال اس نظم کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں
جو دل میں بات ہے کھل کر اسے بیاں کر دوں
اگر خفا نہ ہوں بندے سے مصلحان کرام
مشاعرے نہیں ہوتے ہیں دین کے پابند
کہ شاعروں کو نہیں فرصتِ درود و سلام
نہ یہ کتھا کی سبھا ہے نہ محفل میلاد
نہ آستانہٴ رحمان ہے نہ منزلِ رام
مشاعروں کا نہ بھولے سے اہتمام کریں
مناظروں کے اکھاڑوں کے رستم و بہرام
رخِ کلام پہ غازہ ملیں نہ تقوے کاادب
کے منہ میں لگائیں نہ بندگی کی لگام
ازل سے دین و ادب میں رہی ہے جنگِ عظیم
حلال دین میں جو شے ہے وہ ادب میں حرام
وہاں درود و مناجات ہے، یہاں ہذیان
وہاں جو نعرہ صلوٰة ہے یہاں دشنام
مشاعروں میں تقاضائے اتقا کیا خوب
مشاعرہ شبِ آدینہ ہے نہ ماہ صیام
دیار کعبہ و کاشی کے گھومنے والے
بساط ِشعر و ادب پر کریں نہ مشق خرام
ادب ادب ہے ادب کا نہیں کوئی مذہب
خدا کے فضل سے یہ کفر ہے نہ یہ اسلام
سخن کو طول نہ دو جوش مختصر کہہ دو
اگر یہی ہے روش تو مشاعروں کو سلام
اس نظم پر زبردست ہنگامہ ہوا شور بلند ہوا اور داد بھی خوب ملی۔منتظمین مشاعرہ نے اس خوف سے کہ کہیں مشاعرہ ہنگامے کی نذر نہ ہو جائے انتہائی صبرو تحمل سے کام لیا اور ناظم مشاعرہ نے بسمل شاہجہاں پوری کو زحمت سخن دی۔وہ پٹھان آدمی ،غصے سے کانپتے ہوئے مائک پر آئے اور غضبناک تیور اور گرج دار آواز میں یہ شعر پڑھا
جورند ِبد کلا م اخلاق کی حد سے گزر جائے
نکلوا دو اسے اردو سبھا کی پاک محفل سے
اس شعر پر داد و تحسین کا وہ شور مچا کہ در و دیوار ہل گئے۔ بسمل بار بار یہی شعر پڑھتے اور لوگ اچھل اچھل کر داد دیتے۔بہر حال جوش جیسے عالی ظرف سے یہ توہین برداشت نہیں ہوئی اور وہ ناراض ہو کر مشاعرے سے چل دیے۔ اس کے بعد گوپال متّل آئے اور انھوں نے ایک مختصر تقریر کے بعد جونظم سنائی اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
وطن میں ہو اگر عیش و مسرت کی فراوانی
مجھے کیا گر کوئی لطف مےِ گلفام لیتا ہے
مگر جب قوم کے ہاتھوں میں کاسہ ہو گدائی کا
کوئی خوددار اپنے ہاتھ میں کب جام لیتا ہے
کمر بستہ وطن ہو جب پئے تکمیل آزادی
وہ بے غیرت ہے جو ساقی کا دامن تھام لیتا ہے
شراب ناب کیسی شیر مادر بھی حرام اس پر
جو ایسے وقت میں بادہ کشی کا نام لیتا ہے
بہر حال یہ دوشبی مشاعرہ انتہائی کامیاب رہا اور ریڈیو پر براہ راست پورے ملک میں سنا گیا۔ غیر حاضرلوگوں نے بھی اس ادبی و شعری معرکے کو ریڈیو سے سنا اور محظوظ ہوئے۔مشاعرے کے بعد بھی اس معرکے کے اثرات قائم رہے اور جوش ملیح آبادی نے ’عقیدت کی موت‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھ کر گوپی ناتھ امن سے اپنے تمام تر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے۔ فریق مخالف نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اس طرح یہ ادبی معرکہ ایک غیر مہذب ادبی معرکہ بن کر رہ گیا۔
پنڈت دتا تریا کیفی، گوپی ناتھ امن، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر، مولانا احمد سعید اور دوسرے اردو دوستوں نے لال قلعہ کے دیوان عام میں مشاعرہ جشن جمہوریت اور جشن آزادی کے انعقاد سے جو بنیاد ڈالی تھی وہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کے بعد سے مسلسل ہر سال’مشاعرہ جشن جمہوریت‘ کا انعقاد ہوتا ہے۔درمیان میں چند سال یہ مشاعرہ لال قلعہ میں نہ ہوکر کبھی ایوان غالب، کبھی تال کٹورہ اسٹیڈیم اور کبھی اندرپرستھ اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ لیکن بہر حال اب پھر یہ مشاعرہ لال قلعہ کی زینت بن رہا ہے۔
البتہ یہ لال قلعہ کے دیوان خاص یا دیوان عام کی بجائے لال قلعہ کے لاہوری دروازے کے پاس اور فصیل کے زیر سایہ میدان میں ہوتا ہے جو پہلے فٹبال گراوٴنڈ تھا۔1978ءسے1982ء تک مشاعرہ کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر رہے۔
عظیم اختر کے مطابق پہلے اس مشاعرے کا اہتمام و انصرام مرکزی حکومت کیا کرتی تھی۔ 1978ءمیں اس نے اس کا انتظام دہلی حکومت کے حوالے کر دیا اور اس سال مشاعرے کا انعقاد ساہتیہ کلا پریشد کے بینر سے کیا گیا۔جس میں کنور مہیندر سنگھ بیدی اور ساغر نظامی وغیرہ نے شرکت کی تھی ۔لیکن 1982ء میں دہلی اردو اکیڈمی کے قیام کے بعد سے اس کا انتظام اکیڈمی ہی کرتی ہے۔ پہلے یہ مشاعرہ لال قلعہ کے دیوان عام میں ہوتا تھا لیکن بعد میں حکومت نے لال قلعہ کے اندر فوج کے ایک دفتر کے قیام اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے لال قلعہ کے اندر مشاعرے کے انعقاد پر پابندی لگا رکھی ہے جس کو اٹھانے کا مطالبہ کبھی کبھار کیا جاتا ہے۔ اس مشاعرے میں ملک بھر کے شعرا شرکت کرتے ہیں۔پہلے اس میں کلام سنانا کسی بھی شاعر کے لیے معراج تصور کیا جاتا تھا لیکن اب اس کا معیار اس قدر پست ہو تا جا رہا ہے کہ وہ شعرا بھی اس مشاعرے میں پڑھ لیتے ہیں جن کو عام نشستوں میں بھی لوگ سننا گوارہ نہ کریں۔تاہم اب بھی اس کی ایک اہمیت ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اس کے کارڈ چھپتے ہیں۔ یہ کارڈ مشاعرے کی تاریخ سے بہت پہلے چھپ جاتے ہیں اور درجنوں مقامات سے تقسیم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اردو اکیڈمی کی جانب سے مختلف جگہوں سے لوگوں کو مشاعرہ گاہ تک لانے اور شائقین مشاعرہ کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اکیڈمی کی جانب سے بسوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔عام لوگوں کے علاوہ خواص کی بھی بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے جن میں معزز وزرا اور ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی بھی ہوتے ہیں۔ بڑی تعداد میں ادب نواز غیر مسلم اور سرکاری افسران کی بھی شرکت ہوتی ہے۔دہلی کے لیفٹننٹ گورنر اور وزیر اعلی بھی اس میں شرکت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔تمام بڑے اور قد آور شعرا مل کر مشاعرے کی شمع روشن کرتے ہیں اور اگر وزیر اعلیٰ کی شرکت نہیں ہو سکی ہے تو حکومت کا کوئی وزیر مشاعرے کی صدارت کرتا ہے۔
اس بار 16 جنوری کو منعقدہ اس مشاعرے کی صدارت دہلی کے وزیر صنعت و خوراک ہارون یوسف نے کی اور انھوں نے جنگ آزادی میں اردو کے رول پر اظہار خیال کیا۔اردو اکیڈمی کے وائس چئیر مین پروفیسر قمر رئیس نے مہمانوں کا استقبال کیا اور لال قلہ کے اس تاریخی مشاعرے کی روایت پر روشنی ڈالی۔مشاعرے میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بے شمار شائقین کو فرش پر بیٹھ کر اپنے جوش و جذبے کی تسکین کا سامان کرنا پڑا۔مشاعرے کی نظامت بین الاقوامی شہرت کے ناظم ملک زادہ منظور احمد نے کی۔قارئین کی دلچسپی کے لیے چند شعرا کا کلام بطور نمونہ پیش ہے
اک نظر اس کو دیکھو تو معلوم ہو
عمر بھر چاہئیے اک نظر کے لیے
گلزار دہلوی
حالات نے سنائے کچھ ایسے بھی فیصلے
لوگوں کو بے قصور بھی ملتی رہی سزا
مخمور سعیدی
دن کی ضرور ہو گی مگر رات کی کہاں
سورج چراغ جیسی تری روشنی کہاں
وسیم بریلوی
اس دشتِ پر سراب میں بھٹکوں کہاں کہاں
زنجیر آگہی مرے پیروں میں ڈال دے
ملک زادہ منظور احمد
دل میں ہیں اب بھی شیش محل کی سجاوٹیں
باہر سے دیکھیئے تو کھنڈر ہو گئے ہیں ہم
معراج فیض آبادی
ہماری بے رخی کی دین ہے بازار کی رونق
اگر ہم میں وفا ہوتی تو یہ کوٹھا نہیں ہوتا
منور رانا
ستم گروں کا یہ فرمان گھر بھی جائے گا
اگر میں جھوٹ نہ بولوں تو سر بھی جائے گا
منظر بھوپالی
وفاداری نبھانے میں اداکاری نہیں کرتا
وہ احمق ہے جو غداروں سے غداری نہیں کرتا
سنیل کمار تنگ
میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے اچھا نہیں ہوتا
فرحت احساس
آئینہ ہے عجیب نہ چہرہ عجیب ہے
بس تیرے دیکھنے کا طریقہ عجیب ہے
الطاف ضیا
ان کے علاوہ بھی درجنوں مقامی اور بیرونی شعرا نے لوگوں کو اپنے کلام سے محظوظ کیا۔

Saturday, January 3, 2009

Josh Malihabadi : جوش ملیح آبادی پر چنڈی گڑھ میں دو روزہ قومی سیمینار

سہیل انجم نئی دہلی
January 2, 2009
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے ،گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آآکر ،یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا ،آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تقدیریں
آنکھوں میں گدا کے سرخی ہے، بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے، سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
ِکیا ان کو خبر تھی، زیر و زبر جو رکھتے تھے روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ، برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی، سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی، ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھی دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
یہ جوش ملیح آبادی کی معرکہ آرا انقلابی نظم ’شکست زنداں کا خو اب‘ ہے ۔ یہ اور ایسی جانے کتنی ولولہ انگیز نظمیں جوش کے نوک قلم سے نکلی ہیں اور اسی لیے ان کو ’شاعرانقلاب‘ کا خطاب دیا گیا۔ اسی شاعر انقلاب پر ہریانہ کے چنڈی گڑھ میں راج نواس میں ہریانہ اردو اکیڈمی اورغالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے اشتراک سے ایک دوروزہ قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جو 28دسمبر کو ختم ہوا۔اس سیمینار کاعنوان تھا ’عہد حاضر میں جوش ملیح آبادی کی ادبی و سماجی اہمیت،۔اس میں ملک بھر سے کم و بیش پندرہ مقالہ نگاروں نے الگ الگ عنوانات کے تحت جوش کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔
جوش ملیح آبادی کی شاعری کی دوبنیادی خصوصیات ہیں۔ ایک انقلابی جذبہ اور دوسرے رومانویت۔ ان کی انقلابی نظموں کی تعداد خاصی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیمینار میں ان کے انقلاب آفریں کلام پر بھی گفتگو ہوئی اور ان کی عشقیہ شاعری پر بھی۔سیمینارکے افتتاحی اجلاس میں افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے ہریانہ کے گورنر اخلاق الرحمن قدوائی نے کہا
’جدوجہد آزادی کے دوران نوجوانوں کو بیدار کرنے اور ان میں جوش و ولولہ بیدار کرنے کے ضمن میں جوش ملیح آبادی کی نظموں کا اہم رول رہا ہے۔ اسی لئے انھیں شاعر انقلاب کہا گیا۔‘
انھوں نے ایک نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
’ہندوستان سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار جوش کی آخری تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔ ہندوستان ان کی وطن پرستی کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جوش جیسے بڑے انقلابی شاعر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانا ضروری ہے اور یہ ہمارا فریضہ بھی ہے۔ اس لیے جوش کو سمجھنے کے لیے جوش پر نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہریانہ اردو اکیڈمی اس سلسلے میں اہم رول ادا کرے گی۔
جوش کی شخصیت بہت متنازعہ رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی وہ تنازعات کے شکار رہے اور پاکستان میں بھی۔گورنر قدوائی کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔ انھوں نے جاگیردارانہ ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اور ان کی شخصیت میں افغانی فطرت پوری طرح موجود تھی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے مزدوروں، غریبوں اور محنت کش عورتوں پر بھی خوب نطمیں لکھی ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری سے عوام کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن جب آزادی ملی تو وہ بھی فیض اور دوسرے شعرا کی مانند اس آزادی سے خوش نہیں تھے۔اسی لیے جہاں فض نے صبح آزادی کو ’داغ داغ اجالا، اور ’شب گزیدہ سحر، قرار دیا تھا وہیں جوش نے نظم ’ماتم آزادی، لکھ کر اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔اس طویل نظم کے ابتدائی بند ملاحظہ فرمائیں
اے ہم نشیں فسانہٴ ہندوستاں نہ پوچھ
رودادِ جام بخشیِ پیرِ مغاں نہ پوچھ
بربط سے کیوں بلند ہوئی ہے فغاں نہ پوچھ
کیوں باغ پر محیط ہے ابر خزاں نہ پوچھ
کیا کیا نہ گل کھلے روش فیض عام سے
کانٹے پڑ ے زبان میں پھولوں کے نام سے
شاخیں ہوئیں دونیم جو ٹھنڈی ہوا چلی
گم ہو گئی شمیم جو باد صبا چلی
انگریز نے وہ چال بہ جور و جفا چلی
برپا ہوئی برات کے گھر میں چلا چلی
خون چمن بہار کے آتے ہی بہہ گیا
اترا جو طوق اور بھی دم گھٹ کے رہ گیا
جھومی گھٹا فضا سرور آمیز ہو گئی
کھولی خوشی نے زلف غم انگیز ہو گئی
مچلی نسیم عقل جنوں خیز ہو گئی
سائے میں دھوپ اور بھی کچھ تیز ہو گئی
پارہ، چلی جو سرد ہوائیں تو چڑ ھ گیا
درماں ہوا تو دردِ جگر اور بڑھ گیا
اس نظم کے چند آخری بند ملاحظہ فرمائیں
سروِ سہی نہ ساز نہ سنبل نہ سبزہ زار
بلبل نہ باغباں نہ بہاراں نہ برگ وبار
جیحوں نہ جام جم نہ جوانی، نہ جوئے بار
گلشن، نہ گل بدن، نہ گلابی، نہ گل عذار
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
فٹ پاتھ، کارخانے، ملیں، کھیت، بھٹیاں
گرتے ہوئے درخت، سلگتے ہوئے مکاں
بجھتے ہوئے یقین، بھڑکتے ہوئے گماں
ان سب سے اٹھ رہا ہے بغاوت کا پھر دھواں
شعلوں سے پیکروں کے لپٹنے کی دیر ہے
آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے کی دیر ہے
وہ تازہ انقلاب ہوا آگ پر سوار
وہ سنسنائی آنچ وہ اڑنے لگے شرار
وہ گم ہوئے پہاڑ وہ غلطاں ہوا غبار
اے بے خبر، وہ آگ لگی آگ ہوشیار
بڑھتا ہوا فضا پہ قدم مارتا ہوا
بھونچال آرہا ہے وہ پھنکارتا ہوا
اس سیمینار میں اس پر بھی گفتگو ہوئی کہ جوش ملیح آبادی کی شخصیت کے کتنے پہلو ہیں اور ان کے محرکات کیا ہیں۔
مقالوں کے سیشن میں غلام نبی خیال(سری نگر) نسیم السحر (الہ آباد) مہیندر پرتاپ چاند، شاہد ماہلی، پروفیسر قمر رئیس، عبد الرحمن، فاروق ارگلی( دہلی) گلشن کھنہ، ڈاکٹر دیپک ٹنڈن،فرزانہ نسیم، ڈاکٹر کملیش موہن، محمد مستمراور فرحت رضوی وغیرہ نے مختلف عنوانات کے تحت جوش کی شاعری اور شخصیت کے الگ الگ پہلووٴں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔جبکہ ہریانہ اردو اکیڈمی کے سکریٹری اور معروف ادیب کشمیری لال ذاکر نے ہریانہ میں اردو کی پیدائش اور خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی۔ریاست کے وزیرِ تعلیم مانگے رام گپتا نے سیمینار کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر غلام نبی خیال نے ’جوش ملیح آبادی اور کشمیر‘ کے عنوان سے انتہائی پرمغز اور معلوماتی مقالہ پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ جوش ملیح آبادی نے کشمیر سے متعلق دو خوبصورت نظمیں کہی تھیں مگر اب وہ ناپید ہو گئی ہیں۔وہ نہ تو ان کے کسی مجموعے میں شامل ہیں اور نہ ہی کسی محقق یانقاد نے ان کا ذکر کیا ہے۔غلام نبی خیال نے شیخ عبداللہ سے جوش کے قریبی تعلق اور وادی میں ان کے دوران قیام سے متعلق چند واقعات بھی سنائے اور بتایا کہ شیخ عبداللہ کی تعریف میں بھی جوش نے ایک نظم لکھی تھی۔ جس کا ایک شعر تھا:
بس اسی شیخ سے محبت ہے
ورنہ ہر شیخ سے خدا کی پناہ
ڈاکٹر نسیم السحر نے ’جوش کی شاعری میں ماضی کی بازیافت‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔خیال رہے کہ انھوں نے ڈاکٹر علی احمدفاطمی کی نگرانی میں حال ہی میں جوش پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے۔
انبالہ کے مہیندر پرتاپ چاند نے جوش کی عشقیہ شاعری پر دلچسپ مقالہ پیش کیا جس کے بعد اس پر کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔انھوں نے کہا
’انقلاب اور شباب یعنی عشق بازی جوش کی شخصیت کے دو اہم میلانات ہیں۔خود جوش نے بھی بارہا اس کا اعتراف کیا ہے۔وہ اپنی خود نوشت’یادوں کی بارات‘میں اپنے اٹھارہ معاشقوں کا خوب مزے لے کر تذکرہ کرتے ہیں۔لیکن یہ کتاب نقادوں کے لیے متنازعہ رہی ہے اور ان کے اس تذکرہ عشق بازی کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ڈائرکٹر شاہد ماہلی نے اپنے مقالے میں جوش کی شاعرانہ عظمت اور ان کے فنی محاسن پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر قمر رئیس نے بھی جوش کی عشقیہ شاعری پر گفتگو کی اور یادوں کی بارات میں ان کے اعتراف کے حوالے سے ان کی گرفت کی۔انھوں نے ان کے عشق کو حقیقی عشق ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ ان کا عشق عیاشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔در اصل انھوں نے عشق کی تپش اور اس کا گداز کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ اسی لیے ان کی عشقیہ شاعری عمومیت کی شکار ہے۔
جوش ملیح آبادی کو علما کے طبقے نے کبھی بھی پسند نہیں کیا۔وہ ان کو ملحد اور کافر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔در اصل ان کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جو اس طبقے کے گلے سے نہیں اتریں۔انہی میں ایک نظم ’فتنہٴ خانقاہ‘ بھی ہے۔یہ نظم یوں شروع ہوتی ہے
اک دن جو بہرِ فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ
زُہاّد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضربِ لا الہ
برپا ضمیرِزہد میں کہرام ہو گیا
ایماں دلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا
اس نظم میں عشوہ طراز، قیامت خیز اور توبہ شکن بنت مہر و ماہ کی جلوہ سامانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہے اور پھر نظم اس بند پر آکر ختم ہوتی ہے
زاہد حدودِ عشق خدا سے نکل گئے
انسان کا جمال جو دیکھا پھسل گئے
ٹھنڈے تھے لاکھ، حسن کی گرمی سے جل گئے
کرنیں پڑیں تو برف کے تودے پگھل گئے
القصہ دین، کفر کا دیوانہ ہو گیا
کعبہ ذرا سی دیر میں بت خانہ ہو گیا
لیکن جوش کو مشکوک نظر سے دیکھنے والے طبقہ علما کو ان کے ان اشعار کو بھی پڑھنا چاہئیے جو انھوں نے اللہ کی شان میں کہے ہیں اور نعت کے علاوہ مرثیے بھی لکھے ہیں۔جوش کے یہ اشعار خاصے مقبول ہوئے
مجھ ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
اللہ کو قہار بتانے والو
اللہ تو رحمت کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کے ایسے اشعار کی روشنی میں ایک حلقہ ان کو ملحد نہیں موحد کہتا ہے۔جوش نے 29 اشعار کی ایک نعت لکھی ہے جو پڑھنے والے پر ایک کیفیت طاری کر دیتی ہے۔اس میں عجیب والہانہ پن موجود ہے۔چند اشعار ملاحظہ کریں
اے کہ ترے جلال سے ہل گئی بزمِ کافری
رعشہٴ خوف بن گیا رقصِ بتانِ آذری
خشک عرب کی ریگ سے لہر اٹھی نیاز کی
قلزمِ نازِ حسن میں اف رے تری شناوری
چشمہ ترے بیان کا غارِ حرا کی خامشی
نغمہ ترے سکوت کا نعرہٴ فتحِ خیبری
تیرے فقیر اور دیں، کوچہٴ کفر میں صدا
تیرے غلام اور کریں اہلِ جفا کی چاکری
تیری پیمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے
بخشا گدائے راہ کو تو نے شکوہِ قیصری
ایک نظم کے چند اشعار اور بطور ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں
نوعِ انساں کو دیا کس فلسفی نے یہ پیام
مردِ غازی کا کفن ہے، خلعتِ عمرِ دوام
نصب کس نے کر دیے مقتل میں حوروں کے خیام
جانتے ہو اس دبیرِ ذہنِ انسانی کا نام
جو انوکھی فکر تھا، جو اک نیا پیغام تھا
اس حکیمِ نکتہ پرور کا محمّد نام تھا
اے آر قدوائی کی یہ بات کافی اہم اور بر ملا ہے کہ جوش ملیح آبادی پر ابھی بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے بارے میں نئی نسل کو بتانا بھی ضروری ہے۔توقع ہے کہ ہریانہ اردو اکیڈمی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
(publish om Website of Voice of America @ http://www.voanews.com/urdu/2009-01-02-voa23.cfm )

Thursday, January 1, 2009

Ghalib: یومِ غالب تقریبات اختتام پذیر



سہیل انجم نئی دیلی

December 29, 2008


دہلی میں وسط دسمبر سے شروع ہوئی یوم غالب تقریبات 27 دسمبر یعنی غالب کے 211ویں یوم پیدائش پر ختم ہو گئیں۔ اس موقع پر بستی حضرت نظام الدین میں واقع مزار غالب پر گل پوشی کی گئی اور اسی سے متصل غالب اکیڈمی میں سیمینار اور مجلس غزل سرائی کا اہتمام کیا گیا

مرزا غالب کو ’بیکسیِ عشق‘پر رونا آیا تھا، لیکن مداحان غالب کو ’بیچارگی مزار غالب‘ پہ رونا آتا ہے۔ تاعمر عسرت و تنگ دستی اور کس مپرسی کی زندگی گزارنے والے اس عظیم شاعر کے مزارپر برستی ویرانی دیکھ کر ان کے عاشقوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔تاہم سال میں ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب روحِ غالب ’مر کے رسوا ہونے اور جنازہ و مزارسے بیزاری ‘کا اظہار کرنے پرضرور شرمسار ہوتی ہوگی۔ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ ہر زائر کی آمد کے ساتھ چلتا رہتا ہے ۔البتہ مزارِ غالب کو پھولوں کی چادر سال میں ایک بار ہی نصیب ہوتی ہے

۔1969ءمیں غالب اکیڈمی کا افتتاح کرتے ہوئے اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنے خطبے میں کہا تھا:

’سو سال بیت گئے کہ اسی مہینے میں غالب کا جنازہ بلی ماروں سے حضرت نظام الدین کی اس بستی میں آیا تھا اور یہیں وہ سپرد خاک کیے گئے تھے۔غالب عمر بھر ذاتی اور معاشرتی پریشانیوں میں مبتلا رہے۔لیکن وہ مایوس کبھی نہیں ہوئے۔ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیے اور کہا کہ یہ بھی گزر جائے گا۔ان کی زندگی میں امید کی شمع کبھی گل نہیں ہوئی اور اسی امید پرستی کے سہارے وہ زندگی سے پورا لطف اٹھاتے رہے۔اسی بنا پر وہ کہتے تھے کہ آج نہیں تو کل لوگ مجھے پہچانیں گے۔زندگی میں اگر مجھے اطمینان و سکون کا چمن زار نصیب نہیں تو اس سے کیا ہوا۔ایک دن وہ ہوگا کہ میرے مزار کے چاروں طرف چمن بندیاں اور پھولوں کی کیاریاں ہوں گی۔یہ اس لیے کہ زندگی میں میرا دل کسی کے حسن کے جلووٴں سے معمور اور اس کے قرب کا متمنی تھا۔میری یہ تمنا میرے مزار کے چاروں طرف لالہ و گل کی شکل میں نمایاں ہو گی۔غالب کے مزار کے چاروں طرف جو کچھ کیا جا رہا ہے اس میں غالب اکیڈمی کا قیام شامل ہے۔

‘آج گرچہ غالب کے مزار کے اطراف میں چمن بندیاں اور پھولوں کی کیاریاں نہیں ہیں تو کیا ہوا، مزار سے متصل گزرگاہ حضرت نظام الدین کی درگاہ تک جاتی ہے اور یہ پوری گزرگاہ شب و روز پھولوں اور گل دستوں سے سجی رہتی ہے۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد اور دہلی کے معروف شاعر اور عاشق غالب متین امروہوی نے اپنے رفقا کے ساتھ مزار غالب پر پھولوں کی چادر چڑھا کر ان کی لالہ و گل کی خواہش کی تکمیل کر دی

اس موقع پر منعقدہ سیمینار میں متعدد دانشوروں نے مقالے پیش کیے اور غالب کے فن و فلسفے کی گرہیں کھولیں۔جبکہ مجلس غزل سرائی میں گلوکار کرم جیت سنگھ نے غالب کی غزلیں گائیں جن میں یہ دو غزلیں قابل ذکر ہیں:دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی اور آہ کو چاہئیے اک عمر اثر ہوتے تک۔

متین امروہوی اور احمد علی برقی نے مرزا کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔متین امروہوی نے منظوم سفرنامہ بھی سنایا۔ جس کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:

ہر کسی کا ہے یہی غالب کے بارے میں خیال

یہ وہ سورج ہے نہیں ہوگا کبھی جس کا زوال

کچھ سنہری حرف تجھ سے اے مرے خامہ لکھوں

مرزا غالب کا تہِ دل سے سفرنامہ لکھوں

حال کلکتے کا یا دلی کا ہنگامہ لکھوں

پیرہن اس کی غزل کا نظم کا جامہ لکھوں

فکر کے دریا سے وہ الفاظ کے موتی نکال

یہ وہ سورج ہے نہیں ہوگا کبھی جس کا زوال

شاعر شیریں بیاں‘ شیریں نوا‘ شیریں سخن

ایسا فریادی کہ جس کا کاغذی تھا پیرہن

کل بھی اربابِ ادب میں وہ تھا شمع انجمن

آج بھی ہر دل میں وہ مسند نشیں جلوہ فگن

اے مورخ ہے کوئی تاریخ میں ایسی مثال

یہ وہ سورج ہے نہیں ہوگا کبھی جس کا زوال

گلشنِ اردو میں اس کے دم سے آئی تھی بہار

محفلِ شعر و سخن ہوتی تھی اس سے لالہ زار

عندلیبانِ چمن تھے اس کے نغموں پر نثار

رنگ ہیں قوسِ قزح میں اس کی دنیا کے ہزار

غنچہٴ اشعار میں خوشبو ہے اس کی بے مثال

یہ وہ سورج ہے نہیں ہوگا کبھی جس کا زوال


احمد علی برقی کے منظوم خراج عقیدت کے چند اشعار دیکھیں:

نثر ہے غالب کی اک جوئے رواں

شاعری ہے ان کی گنجِ شائگاں

ان کا طرز فکر تھا سب سے الگ

منفرد ہے ان کا انداز بیاں

تھے وہ اقلیم سخن کے شہر یار

معترف ہے ان کی عظمت کا جہاں

وہ تھا ستائیس دسمبر کا ہی دن

جب ہوا پیدا وہ نقشِ جاوداں

جس کا ہم سر آج تک کوئی نہیں

جس کے احساسات ہیں اب تک جواں

ہے جو اردو شاعری کی آبرو

اس کا ہی جشن ولادت ہے یہاں


مرزا غالب بستی حضرت نظام الدین میں آرام فرما ہیں۔اس بستی کے بارے میں صاحبِ طرز انشا پرداز حضرت خواجہ حسن نظامی کے صاحب زادے اور ملک کے روحانی دانش وروں میں سے ایک خواجہ حسن ثانی نظامی لکھتے ہیں:

’سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے تشریف لانے سے قبل ہماری بستی کا نام غیاث پور تھا۔دلی والے اسے سلطان جی بھی کہتے رہے ہیں۔ا س کو حضرت نظام الدین کب سے کہا گیا، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔اول اول اس کے موجودہ مقام پر آبادی اس وقت شروع ہوئی جب حضرت نے خود یہاں قبرستان بنوایا۔ خانقاہ چونکہ دریا کے کنارے تھی اور سیلاب کا کچھ ٹھکانہ نہیں تھا‘ اسی لیے شاید اس مقام کو سیلابوں سے بچا کر زندوں کے لیے نہیں ‘ان مردوں کے لیے پسند کیا گیا جو بظاہر مردہ مگر در اصل زندہ تھے۔مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی انہی مردوں میں سے ایک زندہ تھے جو حضرت کے چھ سو برس بعد یہاں آکر بسے یا لا کر بسا دیے گئے

۔آج کون یقین کرے گا کہ غالب تعمیرات کے جس جائز کم اور ناجائز زیادہ جنگل میں آرام فرما ہیں، یہاں کا منظرنامہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔

غالب کی زندگی میں اور پھر دفن کے وقت تک یہ جگہ ایک باغ کی شکل میں تھی جس کے مشرق میں نہر بہتی تھی اور باغ کو شاید نیا نویلا ہونے کے سبب باغچی انار کلی جیسا شاعرانہ نام دیا گیا تھا۔

غالب مذکورہ بالا جس باغچی انارکلی میں دفن ہوئے اس کے مالک سید نقی اور سید تقی دو بھائی پیرزادگان درگاہ حضرت اولیا میں سے تھے۔جن کی وراثت چونکہ میرے والد‘ میری والدہ اور ماموں اور خالہ کو بھی پہنچی تھی، اس لیے اس کے کچھ حصے کی فروخت بحیثیت مختار عام راقم الحروف کے ذریعے حکیم عبد الحمید صاحب کے نام اور ذکی خان صاحب کے نام ہوئی۔غالب کے مزار کی تعمیر کے حوالے سے جو ہوائیاں اڑتی رہی ہیں اور جن میں سہراب مودی کا نام مالا کی طرح جپا جاتا ہے، اس کی اصلیت کچھ نہیں ہے۔مودی صاحب کا اس کام میں کبھی کوئی حصہ نہیں رہا۔ اپنی فلم کی ریلیز کے وقت وہ مزار پر چادر چڑھانے ضرور آئے تھے۔مزارِ غالب کی موجودہ تعمیر منشی ہرگوپال تفتہ کے نواسے اور ہندوستان کے مشہور سائنس داں سر شانتی سروپ بھٹناگر اور اشفاق حسین آف وزارتِ تعلیم وغیرہ کے سر ہے۔

مرزا کے نام سے غالب اکیڈمی کا قیام ہمدرد کے بانی حکیم عبد الحمید نے1969ءمیں کیا تھا اور اس کا افتتاح جیسا کہ اوپر لکھا گیا، اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کیا تھا۔غالب کی یاد کو قائم رکھنے کی غرض سے اکیڈمی کے قیام کی خاطر حکیم صاحب نے غالب اکیڈمی کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی تھی۔غالب اکیڈمی کے موجودہ سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد کے مطابق سوسائٹی میں کرنل بشیر حسین زیدی، قاضی عبد الودود، مالک رام، کنور مہیندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد فاروقی، گوپی ناتھ امن، خواجہ غلام السیدین، محمد مجیب، ہمایوں کبیر، تارا کیشوری سنہا اور وی کے کرشنامینن وغیرہ شامل تھے۔مزار غالب سے ملحقہ 910 مربع گز پر مشتمل دو قطعہٴ اراضی خریدی گئی اور اس پر غالب اکیڈمی کی تعمیر ہوئی۔اس اکیڈمی کا خاص مقصد غالب کی یاد کو ہند و بیرون ہند سے باہر قائم و دائم رکھنا ہے۔

اکیڈمی میں ایک غالب میوزیم بنایا گیا ہے جس میں غالب کے عہد کی جھلک نظر آتی ہے۔غالب کے مکانوں کی تصاویر میوزیم کی خاص زینت ہیں۔غالب کے علاوہ ان کی غزلیں گانے والی ڈومنی کے مجسمے لوگوں کے دل موہ لیتے ہیں۔غالب کے لباس بھی سجا کر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی مرغوب غذاوٴں کو اس انداز میں رنگ و روغن لگا کر بنایا گیا ہے کہ ان پر اصلی کھانے کا گمان ہوتا ہے۔ان کے عہد کے سکے، ڈاک ٹکٹیں، مہریں اور تحریر کے نمونے بھی موجود ہیں۔مشہور مصور ایم ایف حسین اور ستیش گجرال وغیرہ کی پینٹنگس جو کہ غالب کے اشعار پر مبنی ہیں، قابل دید ہیں۔معروف فنکار برجیندر سیال نے چھوٹے چھوٹے دو دو تین تین سنگ ریزوں کو ایک ساتھ ملا کر ان میں غالب کے اشعار کے معنی پہنائے ہیں جو کہ عجوبہ روزگار ہیں۔ان کو دیکھنے کے لیے ہند و بیرون ہند کے زائر سینکڑوں کی تعداد میں روز آتے ہیں۔یہ اسلوب برجیندر سیال کا اپنا ہے اور بقول ڈاکٹر عقیل احمد اب تک ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہو سکا

۔انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں مزید بتایا کہ غالب اکیڈمی کے ذریعے غالب کی یادوں کے ساتھ ساتھ ان کے فن و فلسفہ کو بھی پوری دنیا میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہر ماہ ادبی نشست ہوتی ہے اور غالب لیکچر منعقد کروائے جاتے ہیں۔جہان غالب کے نام سے ایک جریدہ بھی شائع کیا جاتا ہے اور اکیڈمی کے پروگراموں میں جو مقالے پڑھے جاتے ہیں ان کو کتابی شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دنیا کی مختلف زبانوں میں غالب پر جو کام ہو رہاہے اس کی اشاعت کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔اردو سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے مختلف قسم کے تعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔


غالب کی یادوں کو زندہ رکھنے اور عام لوگوں تک ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے میدان میں ایک اہم نام ملک کی معروف رقاصہ اوما شرما کا بھی ہے۔وہ 1973ءسے غالب پر مختلف انداز میں سال بہ سال پروگرام کرتی ہیں۔ جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ غالب کی غزلوں پر رقص پیش کرتی ہیں اور اپنے انداز، حرکات و سکنات اور اشارہ چشم و ابروسے اشعار کے مفہوم کو رقص کے ذریعے نمایاں کرتی ہیں۔امسال انھوں نے دو پروگرا موں کا اہتمام کیا۔ ایک کینڈل مارچ کا، جو کہ فصیل بند شہر کے ٹاوٴن ہال سے غالب کی حویلی تک گیا تھا اور دوسرا پروگرام رقص پر مشتمل تھا جو کہ 22دسمبر کو چنمے مشن لودھی روڈ میں ہوا تھا۔ یہ رقص غالب کے ایک عاشق پون ورما کی غالب پر کتاب کے اقتباسات پر مبنی تھا۔پون ورما کتاب پڑھتے تھے اور جب شعر آتا تھا تو اوما شرما ڈائس پر آجاتی تھیں اورشعر پر رقص کرتی تھیں۔


اس موقع پر ایسا سیٹ تیار کیا گیا تھا جو انتہائی بامعنی تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ مرزا غالب خود مجلس میں موجود ہیں۔ انھوں نے کئی غزلوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔’شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے‘ اور ’رہئیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘ وغیرہ کی غزلوں پر ان کے رقص سے لوگ بے انتہا محظوظ ہوئے۔ در اصل وہ غالب کی غزلوں پر جورقص پیش کرتی ہیں وہ ان کا اپنا ایجاد کردہ ہے اور برجیندر سیال کی مانند ان کا بھی کوئی ہمسر ابھی تک پیدا نہیں ہوا ہے۔اوما شرما نے ’غالب میمورئیل موومنٹ‘ کے نام سے ایک گروپ بنا رکھا ہے جس کے چئیرمین معروف سفارتکار سید عابد حسین اور وائس چئیر مین پون ورما ہیں۔اوما شرما نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ وہ غالب کے فن کو رقص کی مدد سے ملک و بیرون ملک میں متعارف کرانا چاہتی ہیں۔ لیکن انھوں نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ جس قدر مالی اعانت ہونی چاہئیے وہ غالب کے مداحوں کی طرف سے نہیں ہو پاتی۔ تاہم دہلی حکومت اس سلسلے میں ان کی خاصی مدد کرتی ہے لیکن اس بار الیکشن کی وجہ سے اس نے کوئی مدد نہیں کی۔جب ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کو غالب سے کیسے دلچسپی پیدا ہوئی؟ تو انھوں نے پہلے تو ایک زوردار قہقہی لگایا اور پھر کہا کہ انھیں 1973ءمیں غالب کی دو غزلیں سننے کا موقع ملا ۔ جن کے مطلعے تھے:

آہ کو چاہئیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

اور

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے


انھوں نے کہا کہ اس کے بعد تو وہ غالب کی طرف بڑھتی چلی گئیں۔دس بارہ سال قبل وہ سرکاری ٹیلی ویژن دور درشن کے لیے ’نینا‘ نامی ایک سیریل بنا رہی تھی جس میں ایک قسط غالب پر بھی تھی۔ اس کے لیے جب وہ غالب کی حو یلی میں شوٹنگ کرنے پہنچیں تو اس کی خستہ حالی دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔ پھر تو انھوں نے خوب شور مچایا۔ چونکہ اونچے حلقوں میں ان کی پہنچ ہے اس لیے ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز بننے کے بجائے خود نقارہ بن گئی اور پھر غالب کی حویلی کے دن لوٹ آئے۔ اس سے پہلے اس میں لکڑی کی ایک ٹال تھی۔حویلی کی بازیابی میں ان کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔شوٹنگ کے بعد انھوں نے حویلی میں ایک تین روزہ جشن کا اہتمام کیا۔ جس میں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جاوید اختر اور دوسرے بڑے بڑے شعرا تشریف لائے تھے۔انھوں نے بتایا کہ چونکہ حالیہ رقص کے پروگرام کو سیاسی تقاضوں کی وجہ سے شہرت نہیں ملی اس لیے وہ اسی پروگرام کو غالب کے یوم وفات یعنی 22فروری کو پھر پیش کریں گی اور ان کی کوشش ہوگی کہ غالب کے فن سے دلچسپی رکھنے والے بڑی تعداد میں اس میں شرکت کریں۔جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اردو ادیبوں ‘ شاعروں اور اردو سے محبت کا دم بھرنے والوں سے کوئی سپورٹ ملتی ہے تو انھوں نفی میں جواب دیا ۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا اس سلسلے میں وہ پر امید ہیں؟ تو انھوں نے بہ زبانِ غالب کہا:

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی


(publishded on the website of Voice of America at http://www.voanews.com/urdu/2008-12-29-voa22.cfm)