Thursday, January 22, 2009

Drama Festival in Delhi: دہلی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے فن کاروں کا ڈرامہ فسٹیو ل


سہیل انجم

نئی دہلی

January 21, 2009


ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب دنیا بھر کے سرکردہ ڈرامہ گروپ ایک ہی اسٹیج پر جمع ہو جائیں۔ لیکن یہ سنہرا موقع گذشتہ دنوں دہلی کے ڈرامہ شائقین کو میسر آیا جب این ایس ڈی یعنی نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے 51ویں یوم تاسیس کے موقع پر ’بھارت مہوتسو‘ کا انعقاد کیا گیا۔اس گیارہویں جشن میں جو کہ سات جنوری سے انیس جنوری تک منایا گیا،بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش، جاپان اور جرمنی سمیت بارہ ملکوں کے ڈرامہ گروپوں نے شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔اس مہوتسو میں نئے عالمی نظام میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور عالمی سطح پر ڈرامہ کی صورت حال اور اس کے امکانات کو جاننے اور سمجھنے کا موقع لوگوں کو ملا۔اس میں کل 63ڈرامے پیش کیے گئے۔اس جشن کی افتتاحی تقریب میں بزرگ اداکارہ اور ’مادر تھٹیئر۔‘ زہرہ سہگل نے بھی شرکت کی اور حفیظ جالندھری کی طویل نظم ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اپنے سحر انگیز اور پرکیف انداز اور پاٹ دار آواز میں سنا کر لوگوں کو سحر زدہ کر دیا۔93سالہ زہرہ سہگل نے دیوانہ بنا دینے والی آواز اور پر اثر انداز بیان کے ساتھ نہ صرف ایک سماں باندھ دیا بلکہ شائقین کو جو کہ پہلے ہی ان کے دیوانے تھے، ایک بار پھر دیوانہ بننے پر مجبورہو گئے۔جب یہ بزرگ اداکارہ اور اسٹیج کی ملکہ انتہائی پرجوش انداز میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ کہتیں تو لوگوں پر ایسا جادو چھا جاتا کہ لوگ مدہوش ہو جاتے۔پاکستان کے گروپ ’تحریک نسواں‘ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ڈرامہ ’جنے لاہور نئیں ویکھیا‘ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔اس ڈرامے کی ڈائرکٹر شیما کرمانی نے بھارت مہوتسو میں شرکت پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے پروگراموں سے دونوں ملکوں کے عوام میں میل جول اور پیار محبت میں اضافہ ہوگا۔انھوں نے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کے وفود کے تبادلے پر زور دیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام جنگ نہیں دوستی چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے عالمی جشن میں شرکت ان کے لیے فخر کی بات ہے۔نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) کا اقیام 1958ءمیں ہوا تھا۔ اس کی تاسیس سنگیت ناٹک اکیڈمی نے ’دی ایشین تھئیٹر انسٹی ٹیوٹ، کے نام سے کی تھی۔لیکن 1962ءمیں اس کا نام نیشنل اسکول آف ڈرامہ کر دیا گیا۔اس اسکول سے اسٹیج اور فلم کی سرکردہ اور شہرہٴ آفاق شخصیات وابستہ رہی ہیں جو اب فلموں میں اپنا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہیں۔اس کے پروڈکٹس میں انوپم کھیر، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، پنکج کپور اور سیما بسواس وغیرہ متعدد فلمی ہستیاں شامل ہیں۔یہ ادارہ اپنی نوعیت کا واحد ڈرامہ اسکول ہے اور پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی سات سال تک اس کی مستقل چیرپرسن رہی ہیں۔1975میں اسے ایک خودمختار ادارہ بنا دیا گیا۔ڈرامہ اور اسٹیج کو اپنے لیے کیریئر اور پروفیشن کے طور پر اپنانے والے یہاں سے تین سال کا ڈپلومہ کورس کرتے ہیں۔
اس ادارے کے قیام کے پس پردہ ایک طویل کہانی ہے۔بھارت میں ڈراموں کا آغاز سنسکرت ڈراموں سے ہوا تھا۔لیکن دسویں صدی میں سنسکرت ڈراموں پر زوال آگیا اور لوگ ڈرامہ آرٹسٹوں کو گری نظر سے دیکھنے لگے۔بہر حال ڈرامہ اور اسٹیج سے دلچسپی رکھنے والوں نے ہندوستان میں اس کے احیا کی کوشش شروع کی اور پھر 1958ءمیں این ایس ڈی کا قیام عمل میں آیا۔فلمی دنیا کو اپنے کیریئر کے طور پر اپنانے والے بھی اس اسکول میں اداکاری کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔این ایس ڈی نے ڈرامے کے فن کو ایک باوقار مقام عطا کیا ہے اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلوائی ہے۔گیارہ سال قبل شروع کیے گئے بھارت مہوتسو نے بھی ڈرامے کے فن کو وقار عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب سے یہ جشن منایا جانے لگا ہے دنیا کے ڈرامہ آرٹسٹوں کی نظر دہلی کے این ایس ڈی کی جانب اٹھنے لگی ہے۔تقریباً دو ہفتے تک چلنے والے اس جشن میں نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے سے فنکار شرکت کرتے ہیں اور قومی زبان اردو اور ہندی کے علاوہ علاقائی زبانوں میں بھی ڈرامے پیش کرتے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ڈرامہ آرٹسٹ بھی شرکت کرتے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اب اس کے جشن میں مختلف ملکوں کے ڈرامہ گروپ بھی شریک ہوتے ہیں اور اسے اپنی خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔اس جشن میں شیکسپئیر، کالی داس، رابندر ناتھ ٹیگور، آغا حشر کاشمیری کے ساتھ ساتھ مقامی ڈرامہ رائٹروں کے ڈرامے بھی اسٹیج کیے جاتے ہیں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ڈرامہ شائقین کے جذبات کی تسکین بھی کی جاتی ہے۔گیارہویں بھارت مہوتسو کے دوران کناٹ پلیس اور بنگالی مارکٹ سے متصل منڈی ہاوٴس کا پورا علاقہ دنیا بھر کے فنکاروں کی آماج گاہ بنا رہا اور دہلی کے شائقین بھی اس میں بڑی تعداد میں جوش خروش کے ساتھ شریک ہوئے۔

Published on VOA News.Com at http://www.voanews.com/urdu/2009-01-21-voa22.cfm

No comments:

Post a Comment