Wednesday, February 18, 2009

Indian Media & Urdu Language: بھارتی میڈیا اور اردو زبان کی ایک نئی شکل: تحقیقی مضمون

سہیل انجم
نئی دہلی
February 16, 2009

یہ ٹوئنٹی فور آور نیوز چینلوں کا زمانہ ہے۔آپ شب و روز کے کسی بھی لمحے میں ٹی وی آن کریں تو تازہ ترین خبریں آپ کے استقبال کو موجود ملیں گی۔خبروں کی کئی اقسام ہوتی ہیں اور عام خبریں کسی خاص طبقے یا مذہب کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے لیے ہوتی ہیں۔گویاآپ کہہ سکتے ہیں کہ خبریں اپنی فطرت کے اعتبار سے سیکولر ہوتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ خبر دینے والا انہیں فرقہ پرستی کا لباس پہنا دے یا دہشت گردی کا۔ جب یہ خبریں عام طبقات کے لیے ہوتی ہیں تو ضروری ہے کہ وہ سب کی سمجھ میں بھی آئیں۔اگر وہ سب کی سمجھ میں نہیں آتیں یا ان کو کچھ خاص طبقات ہی سمجھ پاتے ہیں تو وہ اپنے مقصد کی تکمیل کی منزل تک پہنچنے سے قاصر ہوتی ہیں اور اگر ایسا ہے تو ان خبروں کا یا خبر دینے والے کا سب سے بڑا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

جب ہم الیکٹرانک میڈیا میں اردو سے استفادے پر غور کرتے ہیں تو اس کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔اول،اردو الیکٹرانک میڈیا میں اردو کی صورت حال اور دوم، غیر اردو الیکٹرانک میڈیا میں اردو کی صورت حال۔اردو الیکٹرانک میڈیا میں ہم موٹے طور پر ٹی وی اور ریڈیو کو رکھ سکتے ہیں۔اس وقت اردو ٹی وی کے دوٹوئنٹی فور آور چینل ہمارے سامنے ہیں۔ ایک ای ٹی وی اردو اور دوسرا ڈی ڈی اردو۔ 

ہندوستان میں سب سے پہلے اردو ٹی وی شروع کرنے کا سہرا حیدرآباد کے اناڈو ٹی وی کے مالک راموجی راوٴ کے سر جاتا ہے جو اردو کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر زبانوں میں بھی چینل چلا رہے ہیں۔ای ٹی وی اردو کا آغاز اگست 2001ءمیں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک کی اس قلیل مدت میں اس نے مقبولیت کے معیار پر خود کو کھرا ثابت کیا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ای ٹی وی اردو اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔غالباً اس کی سب سے بڑی وجہ اردو داں طبقے کو بہتر انداز میں ٹارگٹ کرنا ہے۔اس کے بعض پروگرام کافی مقبول ہیں،جن میں خاص بات،عالمی منظر، آپ کے مسائل، ای ٹی وی کشمیر، اردو مشاعرہ اور کسی حد تک گفتگو کے نام لیے جا سکتے ہیں۔یہ ٹوئنٹی فور آور چینل تو ہے لیکن مکمل طور پر ٹوئنٹی فور آور نیوز چینل نہیں ہے،اس پر دوسرے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں۔ تاہم خبروں کا حصہ خاصا ہے۔ہر گھنٹے پر نیوز پیش کی جاتی ہے۔ 


اس کی خبریں اردو زبان ہی میں ہوتی ہیں۔نیوز ریڈرز کا تلفظ بھی ٹھیک ٹھاک ہے اور خبروں کا معیار بھی پست نہیں ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہر جگہ اس کے اردو نامہ نگار موجود نہیں ہیں۔اسی لیے ہندی نامہ نگاروں سے ہی اردو میں بھی کام چلایا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر اردو خبروں میں ہندی رپورٹنگ ہونے لگتی ہے۔اگر ہم اس سے الگ ہٹ کر خبروں کی اسکرپٹ پر غور کریں تو پائیں گے کہ وہ قطعی غیر معیاری نہیں ہوتیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ عام فہم اردو کے ساتھ ساتھ معیاری اردو بھی استعمال کی جائے۔مذکورہ پروگراموں کے علاوہ دوسرے پروگرام بھی آتے ہیں اور ان میں مختلف طبقات کے ناظرین کے ذوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔اب چونکہ اردو زبان تقریباً ًاور عملاً مسلمانوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے لہذا مسلمانوں کی دلچسپی کی دوسری چیزیں بھی وقت اور موسم کے اعتبار سے پیش کی جاتی ہیں اور یہ سارے پروگرام عام فہم اردو میں ہوتے ہیں۔

ای ٹی وی اردو کے مقابلے میں ڈی ڈی اردو کم مقبول ہے۔چونکہ یہ سرکاری چینل ہے اس لیے اس کا انداز ذرا مختلف ہے اور اس پر جو چیزیں آتی ہیں وہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ اردو داں طبقے کو سامنے رکھ کرپیش کی جاتی ہیں۔ڈی ڈی اردو سے پہلے دور درشن پر اور اس سے پہلے ڈی ڈی نیوز پر اردو میں خبریں آتی تھیں۔ یو پی اے حکومت میں اردو کے سرکاری چینل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا او ر 15 اگست 2006ء کو دوردرشن کا اردو چینل قائم ہوا جو پہلے سات گھنٹے کا تھا پھر اسے 14 نومبر2007 ءکو چوبیس گھنٹے کا کر دیا گیا۔

 اس پر خبروں کے دو بلیٹن آتے ہیں۔ ایک صبح ساڑھے نو بجے اور دوسرا رات نو بجے جو امروز کے نام سے آتا ہے۔ جبکہ صبح والا بلیٹن ڈی ڈی نیوز پر بھی آتا ہے۔خبروں میں زبان کسی حد تک ٹھیک ہوتی ہے لیکن اسے معیاری نہیں کہا جا سکتا۔اس پر زیادہ تر قسط وار ڈرامے یا کبھی کبھار ادبی پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس سے اردو حلقے کی وابستگی زیادہ نہیں ہے۔اس کے تفریحی  پروگراموں میں عام بول چال کی زبان استعمال ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے ڈرامے بھی دکھائے جاتے ہیں جن میں ہندی زبان استعمال ہوئی ہو۔

اگر ہم ہندی کے نیوز چینلوں کا جائزہ لیں اور یہ پتا لگائیں کہ ان میں کیسی زبان استعمال ہوتی ہے اور اس میں اردو کا حصہ کتنا ہے توکہنا پڑے گا کہ ان میں استعمال ہونے والی زبان نہ ہندی ہے،نہ اردو اور نہ ہی انگریزی۔ان میں جو زبان استعمال ہو رہی ہے وہ ہندی، اردو، انگریزی اور مقامی بولیوں کا آمیزہ ہے۔گویا ان چینلوں نے ایک لسانی ملغوبہ تیار کر لیا ہے جس کا ذائقہ آپ کو ہر چینل پر مل جائے گا۔

کچھ دنوں قبل ایک پروگرام میں بھارت میں اردو اور ہندی کے مستقبل پر ہو رہی بحث کے دوران ہندی کے سرکردہ ادیب و دانشور اشوک واجپئی نے اردو والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندی کی حالت بہت اچھی ہے تو آپ غلط فہمی کے شکار ہیں۔ ہندی کی حالت بھی اردو سے بہتر نہیں ہے۔ان کا یہ تجزیہ کم از کم نیوز چینلوں پر تو کسی نہ کسی حد تک ضرور صادق آتا ہے۔کہنے کو تو وہ ہندی نیوز چینل ہیں لیکن ان پر ہندی کے کتنے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہم اردو والوں کا یہ شکوہ ہے کہ ہندی چینل اردو کے الفاظ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کو بگاڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ہندی والے بھی ان چینلوں کی زبان سے خوش نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہندی نیوز چینلوں سے شدھ ہندی غائب ہو گئی ہے۔ان چینلوں پر اردو سمیت دوسری زبانوں کا مثلاً انگریزی اور مقامی زبانوں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔

اردو والوں کا ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے الفاظ بھرپور انداز میں استعمال ہوتے ہیں لیکن جب الیکٹرانک میڈیا کی زبان پر بحث ہوتی ہے تو اسے ہندی ہی کہا جاتا ہے۔ یا کم از کم ان چینلوں کو اردو ہندی چینل یا بائی لنگوَل چینل نہیں کہا جاتا۔ہندی چینلوں کے ذمے داران بھی پوری فیاضی کے ساتھ اردو کے الفاظ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی اشعار بھی جڑ دیتے ہیں، لیکن اگر ان سے گفتگو کیجئے تو ان کا اصرار ہوگا کہ ہم تو وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو عام لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ اردو زبان عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آجاتی ہے اس لیے ہم اس کا استعمال کرتے ہیں۔وہ اسے اردو کے بجائے ہندوستانی کہیں گے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ہم غور کریں تو پائیں گے کہ ہندی رسم الخط میں اردو زبان کے مزے لیے جا رہے ہیں یا اردو سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔اسے ہندی والوں کی وسیع القلبی بھی کہہ سکتے ہیں اور ان کی خود غرضی بھی۔وہ اس لیے کہ دھڑلے سے اردو الفاظ کے استعمال کا مقصد آسان زبان میں عوام تک اپنی بات پہنچانا ہے۔

ہندی کے ایک سینئر صحافی کے خیال میں اردو اور ہندی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ بس درمیان میں ایک باریک سی چلمن پڑی ہوئی ہے۔اختلافات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب مسلمان کہتے ہیں کہ اردو کے ساٹھ فیصد الفاظ فارسی کے اور باقی ہندی کے ہیں۔اور ہندی لابی کہتی ہے کہ ہندی کے ساٹھ فیصد الفاظ سنسکرت کے ہیں اور چالیس فیصد ہندی کے۔بقول ان کے ہندی اور اردو کا جھگڑا فطری نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ہندی اور اردو دراصل جڑواں بہنیں ہیں۔

ہندی چینل والے اردو زبان کی طرف بس ایک ہی کھڑکی کھولتے ہیں اور وہ کھڑکی اردو الفاظ کے استعمال کے لیے کھلتی ہے اور اس کے بعد بند کر دی جاتی ہے۔اسے ہندی والوں کی خود غرضی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اردو الفاظ کے بھرپور استعمال کے باوجود وہ اردو کے تئیں مخلص اور سنجیدہ نہیں ہیں۔اگر اردو کو اس کا حق دینے کی بات آئے گی تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ مخالفت ہی کریں گے اور اس مخالفت میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنے سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔ویسے ہندی نیوز چینلوں پر خبریں ہوں یا تجزیے یا مباحثے، ان میں اردو الفاظ کا استعمال تو ہوتا ہی ہے،اب یہ الگ بات ہے کہ وہ کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہندی کے بعض نیوز ریڈر یا رپورٹر کوشش کرکے اردو بولتے ہیں۔ کبھی وہ صحیح اردو ہوتی ہے تو کبھی غلط۔ غلط اردو وہ لوگ بولتے ہیں جو اردو سے واقف نہیں ہیں۔یعنی وہ لاعلمی کی بنیاد پر غلط اردو بولتے ہیں، جان بوجھ کر نہیں۔لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ہندی والے جان بوجھ کر غلط اردو بولتے ہیں تاکہ وہ اردو کے الفاظ کو زیادہ سے زیادہ خراب کر سکیں۔ کچھ لوگ ممکن ہے کہ ایسا کرتے ہوں لیکن سبھی ایسا نہیں کرتے۔ 


ہندی والوں کی لاعلمی کی ایک مثال میں اپنے ایک ہندی صحافی دوست کی ایک بات سے دینا چاہوں گا۔ ایک بار وہ کہنے لگے کہ اردو والے ایک لفظ بہت غلط بولتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون سا؟ تو انھوں نے کہا کہ حواس فاختہ۔کہنے لگے کہ فاختہ پرندے کی مانند جب ہوش اڑ جاتے ہیں تو اس کو حواس فاختہ کہتے ہیں، لیکن اردو والے حواس باختہ لکھتے ہیں،جو کہ سراسر غلط ہے۔

یہاں مزید چند مثالیں دینا بروقت ہوگا۔ہندی چینلوں میں لفظ مہارت کو ’مہا رتھ‘بولا جاتا ہے(رتھ یاترا والا رتھ) اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کو فلاں کام میں بڑی مہارتھ حاصل ہے۔لفظ قواعد کا بھی تیاّ پانچہ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح خلافت بمعنی مخالفت کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔بارش ہونے کو برسات ہونا کہتے ہیں۔ ہندی کے بعض رپورٹر کہتے ہیں کہ دہلی میں خوب برسات ہوئی اور اب برسات بند ہو گئی ہے۔الفاظ کے جمع الجمع کا تو دھڑلے سے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: جذباتوں، احساساتوں،خیالاتوں، الفاظوں اور علماوٴں وغیرہ۔بعض چینلوں کے رپورٹروں اور نیوزریڈروں کا تلفظ تو انتہائی خراب ہے۔ جیسے کہ’آج تک‘ چینل اور ’اسٹار نیوز‘ وغیرہ کا۔ لیکن این ڈی ٹی وی کے لوگوں کا تلفظ قدرے بہتر ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر اردو زبان سے یا تو واقف ہیں یا اردو والوں سے ان کا زیادہ ربط ضبط ہے۔اسی طرح انڈیا ٹی وی پر بہت ہی سنسنی خیز انداز میں اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ ایسے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں جن کے نام خالص اردو میں ہوتے ہیں۔جیسے: احساس، واردات،ذائقہ،سنسنی،سلام زندگی، وغیرہ وغیرہ۔

خبروں کی زبان کیسی ہوگی، الفاظ کیسے ہوں گے، کس زبان کے زیادہ اور کس زبان کے کم ہوں گے، اس کا بہت کچھ انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ خبرساز کا ذوق کیسا ہے۔وہ خالص ہندی والا ہے یا اردو سے بھی واقفیت رکھتا ہے۔اس کا تلفظ ٹھیک ہے یا زہر کو جہر اور شانتی کو سانتی بولنے والا ہے۔عوام تک پہنچنے کے تعلق سے اس کا نظریہ کیا ہے۔وہ خبروں کے معیار پر توجہ دیتا ہے یا صرف عوام تک پہنچنے کو۔مثال کو طور پر اگر این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کوئی پروگرام لے کر آئیں گے تو اس میں کوئی نہ کوئی نظریہ، کوئی نہ کوئی مقصدپوشیدہ ہوگا اور اسی کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب کیا جائے گا۔وہ عام فہم زبان کا استعمال تو کریں گے لیکن اس میں ہندی کے الفا ظ زیادہ ہوں گے۔لیکن عارفہ اور نغمہ کا پروگرام ہوگا یا ونود دوا کا بنایا ہوا پروگرام ہوگا تو اس میں عام فہم اردو الفاظ کا استعمال قدرے زیادہ ہوگا۔اسی طرح اس کے رپورٹر کمال خان اشعار کے ذریعے اپنی بات پہنچانے کی کوشش کریں گے۔اسی طرح اسٹار نیوز کے دیپک چورسیا ‘ جو کہ پہلے ’آج تک‘ میں تھے اور منورنجن بھارتی کے یہاں اردو کے الفاظ تو کم ہوں گے ہی اور جو ہوں گے بھی وہ ان کو غلط تلفظ کے ساتھ ادا کریں گے۔در اصل یہ ان کی مجبوری ہے۔ چاہتے تو وہ بھی ہیں کہ اردو بولیں اور صحیح تلفظ کے ساتھ بولیں لیکن اردو سے مکمل ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے۔

لیکن’ آج تک‘ کے شمس طاہر خان کا پروگرام ہوگا تو اس کا نام بھی اردو میں ہوگا اور رپورٹوں میں اردو کے الفاظ کی کثرت بھی ہوگی۔اسی کے ساتھ ان کا تلفظ بھی بہتر ہوگا۔ ان کا خاندانی بیک گراوٴنڈ اس میں کام آتا ہے۔اسی نہج پر دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

راقم الحروف نے ہندی کے نیوز چینلوں میں اردو الفاظ کے استعمال پر ایک چھوٹا سا نمائندہ سروے کیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ہندی چینلوں پر غیر محسوس طریقے سے اردو کے بے شمار الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ان کی تعداد پندرہ بیس اور پچیس فیصد تک ہوتی ہے۔لیکن ٹی وی دیکھنے والے کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ روز مرہ استعمال کے الفاظ بن گئے ہیں اور ہماری یومیہ بول چال کی زبان میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو ان کواس سے الگ نہیں کر سکتے۔یا پھر ہم نیوز چینلوں کی اس زبان کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ ہم یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ اردو کے الفاظ ہیں یا ہندی کے۔اگر ان الفاظ کو خبروں سے نکال دیا جائے تو جو زبان بچے گی وہ کچھ اس قسم کی ہوگی:

 پریہ پرانیشوری!یدی آپ ہمیں آدیش کریں تو پریم کا ہم شری گنیش کریں۔

 یا پھر اس طرح : ہے پرمان پتر وترک مہودیے! لکشمن پور سے کوشلیہ پور جانے والی لوہ پتھ گامنی کس وشرام استھل پر آکر گتی شونیہ ہوگی کرپیہ بتانے کا کشٹ کریں آپ کی اسیم انو کمپا ہوگی۔

اور ظاہر ہے کہ یہ زبان نہ سبھی ہندی والے سمجھ پائیں گے اور نہ ہی اردو والے اور نہ ہی ناخواندہ اور عام لوگ۔اس نمائندہ سروے کی روشنی میں ایک اور بات کھل کر سانے آئی کہ سرکاری چینل دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کی ہندی خبروں میں عام فہم اردو الفاظ پر عام فہم ہندی الفاظ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ پرائیوٹ چینلوں پر اسی زبان کا استعمال ہوتا ہے جو آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ وہ ہندی کے الفاظ ہوں یا اردو کے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میں یہاں کچھ مثالیں دینا چاہوں گا۔این ڈی ٹی کے ایک دس منٹ کے نیوز بلیٹن میں جسے رویش کمار نے پیش کیا،50 مرتبہ اردو کے الفاظ کا استعمال ہوا۔جبکہ آج تک کے دس منٹ کے پروگرام میں جسے شمس طاہر خان نے پیش کیا، 75 مرتبہ اردو کے الفاظ استعمال ہوئے۔لیکن دوردرشن کی 15 منٹ کی ہندی خبروں میں اردو الفاظ 50 بار آئے اور آل انڈیا ریڈیو کی 15 منٹ کی ہندی خبروں میں اردو کے الفاظ 30 مرتبہ آئے۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سرکاری میڈیا میں اردو کے الفاظ کا استعمال بمقابلہ پرائیویٹ چینلوں کے کم ہے۔

اردو الفاظ کا استعمال صرف نیوز چینلوں پر ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ خبروں کی ویب سائٹ پر بھی یہی صورت حال ہے۔بھارت کے ایک مسلم اور اردو مخالف اور کم از کم ایک درجن مقامات سے شائع ہونے والے ایک بڑے ہندی روزنامہ دینک جاگرن کی ویب سائٹ جاگرن ڈاٹ کام پر تقریباً 200الفاظ کی ایک خبر میں کم از کم 20 مرتبہ اردو کے الفاظ آتے ہیں۔این ڈی ٹی وی کی ہندی ویب سائٹ این ڈی ٹی وی خبر ڈاٹ کام پر یہ شرح کچھ زیادہ ہے۔یعنی 200 الفاظ کی خبر میں کم از کم 30 مرتبہ اردو کے الفاظ آتے ہیں۔جبکہ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ہندی ویب سائٹ پی ٹی آئی بھاشا میں ہمیں150 الفاظ کی خبر میں 20 مرتبہ اردو کے الفاظ نظر آئے۔عام طور پر جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:فرمان، گرفتار، خلاف، سازش، منصوبہ، ظاہر، ثابت، تباہی، نیست ونابود، انجام، قائم، مقصد، مسئلہ، قبضہ، موجودگی، دہشت، دہشت گرد، خطرہ، ذریعے، مطابق، خفیہ، تعداد، طاقت ور، ماحول، منظوری، فیصلہ، امید، قریب، ذمے داری، قیمت، تحت، طرز، ضروری، سلسلہ، شروعات، ملکیت، شاندار، فتوی، بحث، زندگی، صدیاں، نیت، اعتراض، زمانہ، غصہ، ہاضمہ، معلومات، ملاقات، مضبوط، تازہ ترین، مسودہ، خبریں، سرخیاں، راحت، صفائی، باقاعدہ، شرط، پسندناپسند، دستاویز، نتیجہ، سوال، جواب، تاریخ، ناراضگی، بیان، صورت حال، عملی جامہ، منشا، بے نقاب وغیرہ وغیرہ۔ 

یہ جائزہ صرف نیوز چینلوں کا ہے۔ یہی صورت حال انٹرٹینمنٹ چینلوں کی بھی ہے۔ ان پر جو ڈرامے  آتے ہیں ان میں اردو نام والے بھی مل جائیں گے اور اردو کے الفاظ تو ہوتے ہی ہوتے ہیں۔ایک ہندی قلم کار کا کہنا ہے کہ جب ہندی ڈراموں میں اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو وہ سونے پر سہاگہ کا کام دیتے ہیں۔ وہ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ ڈراموں میں اور دوسرے پروگراموں میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کیے جانے چاہئیں، کیوں کہ ان سے اسکرپٹ کی زبان کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے۔

ایسے کئی سیاست داں بھی ہیں جو اپنی باتوں میں وزن اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ شتروگھن سنہا جیسے لوگ جو کہ بی جے پی میں ہیں، انشاء اللہ اور ماشاء اللہ کے بغیر جملہ مکمل نہیں کرتے۔ٹی وی اور ریڈیو کی مانند ایف ایم ریڈیو پر بھی جہاں ذرا زیادہ آزادی ہے، اردو کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہوتے ہیں۔

فلمیں بھی الیکٹرانک میڈیا کا حصہ ہیں اور وہاں تو اردو کا زبردست چلن ہے۔ اسکرپٹ ہو یا نغمے یا مکالمے اردو کے بغیر کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی۔لیکن ان فلموں کو سرٹی فکیٹ ہندی کے دیے جاتے ہیں یا لیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں فلم سازوں کا کہنا ہے کہ وہ سرٹی فکیٹ اردو کا لینا چاہتے ہیں لیکن ان کو مجبوراً ہندی کا لینا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں فلم فئیر ایوارڈ دینے والوں نے یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف انہی فلموں کو ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے گا جو ہندی سرٹی فکیٹ کی ہوں گی۔ تاہم اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ فلمیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں جن میں ہندی کے بجائے اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔جن مکالموں یا جن نغموں میں اردو الفاظ کی کثرت ہوتی ہے وہ سننے میں اچھے لگتے ہیں۔ 

بہر حال، اس وقت ہندی چینلوں کے طفیل میں ایک ایسی زبان پیدا ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے جس کا ابھی کوئی نام نہیں ہے۔اسے گرچہ ہندی کہا جارہا ہے لیکن وہ خالص ہندی نہیں ہے۔ایک کھچڑی زبان ہے جو چوبیس گھنٹے ہم سے روبروہوتی ہے اور ہمیں غیر محسوس طریقے سے متاثر بھی کر تی ہے۔کیونکہ جس زبان سے ہمارا واسطہ زیادہ ہوگا، ظاہر ہے ہم لاشعوری طور پر اس کے اثرات بھی قبول کریں گے۔حالانکہ ٹی وی پر نشر ہونے والی زبان فوری طور پر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ وہ تحریری شکل میں موجود نہیں رہتی۔ اس کے باوجود وہ معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

دوسری طرف اردو اخباروں کو اٹھا کر آپ دیکھ لیں تو اکثر خبروں میں ایسا لگے گا کہ انہیں چینلوں پر خبریں دیکھ کر بنایا گیا ہے۔وہی غیر مہذب اور غیر معیاری زبان اور وہی ناپسندیدہ لب و لہجہ۔ اب بعض اردو اخباروں میں بھی لفظ قواعد کو غلط انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور ’فلاں کے چلتے‘ اور ’فلاں بات کو لے کر‘ جیسے ٹکڑے بھی پڑھنے پڑتے ہیں جو اردو اخباروں کے معیار کو پست بناتے ہیں، لیکن اردو صحافیوں کو اپنی زبان کے اس غلط استعمال کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔جب پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال ہے تو عام لوگوں کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

لیکن بہر حال جہاں ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہندی چینلوں پر اردو کے الفاظ استعمال تو ہوتے ہیں لیکن ان کو ہندی کہا جاتا ہے، وہیں ہمیں اس لحاظ سے ان چینلوں کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہر وہ لفظ استعمال کر لیتے ہیں جس سے ترسیل کا مقصد حل ہوتا ہو۔ انہیں اردو کے یا انگریزی کے عام بو ل چال کے الفاظ کے استعمال میں کوئی عار نہیں اور شاید ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

 PUblished on VOA website at http://www.voanews.com/urdu/2009-02-16-voa24.cfm

No comments:

Post a Comment