Saturday, April 11, 2009

دہلی کی قدیم مساجد ومقابر خستہ حالی کے شکار

Jama Masjid, Delhi

ہندوستان کی راجدھانی دہلی کی خوبصورتی میں ان تاریخی آثار کا بھی گراں قدر کردار ہے جو مغل دور کے طرز تعمیر سے عبارت ہیں اور جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ان میں لال قلعہ اور شاہجہانی جامع مسجد کے علاوہ ایسی متعددعمارتیں اور دیگر مساجد و مقابر بھی ہیں جن کی کوئی مثال نہیں۔کسی زمانے میں دہلی کو ’حضرت دہلی‘ کہا جاتا تھا اور مشہور صوفی شاعر حضرت امیر خسرو کے عہد زریں میں عوام و خواص بھی اسے حضرت دہلی کہتے تھے۔امیر خسرو نے اپنے ایک شعر میں بھی حضرت دہلی کا استعمال کیا ہے:

حضرت دہلی کنف دین و داد
جنت عدن است کہ آباد باد

اسی حضرت دہلی میں مغل دور کے تاریخی آثار کی ایک بڑی تعداد کس مپرسی کے دور سے گزر رہی ہے۔حالانکہ ان کے تحفظ او ر رکھ رکھاوٴ کے لیے ایک سرکاری محکمہ بھی ہے جسے ’محکمہ آثارقدیمہ‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس کی موجودگی کے باوجود بہت سی عمارتیں، مسجدیں اور مقبرے حکومت کی بے توجہی اور اپنی بد حالی پر گریہ کناں ہیں۔حکومت ان آثار و عمارات کے تحفظ کے تئیں لاپروا ہو، ایسا بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتی ہے کہ ان آثار کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اس کے لیے وقتاً فوقتاً پروگراموں اور ورکشاپوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی توجہ کا شرف چند خوش قسمت عمارتوں کو ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ اس سلسلے میں اسی ہفتے دہلی میں ایک بین الاقوامی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، قزاخستان، کرغیزستان، تاجکستان اور افغانستان سمیت دس ملکوں کے ماہرین آثار قدیمہ نے شرکت کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ورکشاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ادارے یونسکوھنے کیا تھا۔
اس ورکشاپ نے تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے سرگرم لوگوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں ایسے ماہرین کی شدید قلت ہے۔ نہ تو محکمہٴ آثار قدیمہ کے پاس ایسے ماہرین ہیں جو مستند اور معتبر انداز میں نیلے پتھروں یا خوبصورت بلیو پرشین ٹائلوں کے کام کو بخوبی کر سکیں اور نہ ہی کسی پرائیویٹ ادارے کے پاس ایسے فنکار ہیں۔ اس لیے یہ موقع ان کے لیے بہت ہی خاص ثابت ہوا۔ان دس ملکوں سے 38ماہرین نے اس میں حصہ لیا۔ 
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل کے  این  شری واستو کا کہنا ہے کہ اس ورکشاپ میں نیلے پتھروں کے کام کے لیے عمارتوں کی شناخت کی گئی اور ان کے تحفظ اور سائٹ مینجمنٹ پر خاص طور پر توجہ دی گئی۔یہ انتخاب مغل دور کی عمارتوں میں سے کیا گیا اور ان کے فنِ تعمیر اور طرزِ تعمیر کی حفاظت کے لیے خدمات پیش کی گئیں۔

ایران اور ازبکستان کے ماہرین اپنے ساتھ بلیو پرشین ٹائلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے موضوع کی مناسبت سے ان پتھروں کے استعمال، ان کے تحفظ اور ان کی خوبصورتی پر اپنے ماہرانہ خیالات رکھے اور یہ بھی بتایا کہ ان کے ملکوں میں ان پتھروں کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔

محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے دیگر عہدے داروں نے اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اس ورکشاپ نے ممبر ملکوں کے مابین آئندہ مہارتوں کے تبادلے کا راستا وا کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آگے چل کر ہم اپنے یہاں اس اہم کام کے لیے یا تو ان ملکوں کے ماہرین کو مدعو کریں گے یا پھر اپنے لوگوں کو ان ملکوں میں بھیجیں گے تاکہ وہ وہاں جا کر اس فن کی باریکیوں کو سمجھ سکیں اور پھر اپنے ملک میں اس مہارت کا استعمال کر سکیں۔

یونسکول کے نمائندے ڈاکٹر چن ہنگ نے کہا کہ ہم نے اس کام میں چارC کے فارمولے کا استعمال کیا ہے۔یہ ہیںconservation, cooperation, comunication اور community۔ اس ورکشاپ کے ممبران نے دہلی کی متعدد تاریخی عمارتوں کا دورہ کیا اور ان کا جائزہ لیا، جن میں لال قلعہ اور قطب مینار قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے دوسرے شہروں کے آثار کو بھی دیکھا۔دہلی میں جن عمارتوں کے گنبد میں نیلے پتھر آویزاں ہیں ان میں نیلی چھتری نظام الدین، شیشہ گنبد خیر پور، ہمایوں مقبرہ نظام الدین اور ادہم خان کا مقبرہ مہرولی قابل ذکر ہیں۔ 
ان تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے حکومت کی کاوشیں یقیناً قابل ذکر ہیں۔ اس ورکشاپ کے لیے یونسکوت کا بھی شکر گزار ہونا چاہئیے، لیکن اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دہلی ہی میں لاتعداد تاریخی عمارتیں، بالخصوص مساجد و مقابر اپنی خستہ حالی کا نمونہ ہیں۔پارلیمنٹ کے ایک ریکارڈ کے مطابق اس وقت دہلی میں دو ہزار سے زائد مساجد ہیں جن میں سے 53مساجد محکمٴ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور پانچ سو مساجد دہلی وقف بورڈ کے تحت ہیں۔ جبکہ 92مساجد پر ناجائز قبضے ہیں اور باقی عام مسلمانوں کے زیر اہتمام ہیں۔(یہ ریکارڈ 1983کے اعداد و شمار پر مبنی ہے)۔

دہلی میں تاریخی آثار پر کام کا خاصاتجربہ رکھنے والے اور دہلی، پنجاب اور ہریانہ کی تاریخی مساجد پر تین ضخیم کتابوں کے مولف مفتی عطا الرحمن قاسمی کے مطابق دہلی میں لا تعداد مساجد و مقابر حکومت کی بے توجہی کے شکار ہیں۔ اگر مسلمان ان کی مرمت کے لیے آگے آتے ہیں اور پھر ان میں نمازوں کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو محکمہٴ آثار قدیمہ کے ذمے داران آدھمکتے ہیں اور یہ کہہ کر ان کے کام کو روک دیتے ہیں کہ یہ عمارت آثار قدیمہ کے تحت محفوظ ہے۔ان کے بقول حکومت صرف ان ہی عمارتوں کے تحفظ کے تئیں سرگرم رہتی ہے جن سے مالی فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ لال قلعہ، قطب مینار، مسجد قوت الاسلام، ہمایوں کا مقبرہ وغیرہ۔ انہوں نے اردو وی او اے ڈاٹ کام سے بات چیت میں بتایا کہ کھڑکی گاوٴں کی مسجد بیگم پور،مسجد یوسف قتال، بیگم پور کی مسجد شیخ فرید بخاری، ان مسجدوں سے متصل مقبروں، مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص،مسجد قاضی والی پہاڑ گنج، مسجد نواب شرف الدولہ دریبہ اور دیگر کئی مسجدیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کئی مسجدوں کو رہائشی مکانات میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کئی مسجدوں کی عمارتوں سے متصل رہائشی مکانات اور تجارتی ادارے بن گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مسجد یوسف قتال، مقبرہ شیخ فرید بخاری،مسجد محمدی سیری فو رٹ آڈیٹوریم، قلعہ علاو الدین وغیرہ کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اول الذکر دو مسجدوں اور مقبروں کے صحن میں لوگ رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں اور کئی دوسری مسجدوں میں گائے بیل کے گوبر اور اپلے تھاپے جاتے ہیں۔سیری فورٹ آڈیٹوریم سے متصل مسجد محمدی کی چھت، جو اپنے زمانے میں انتہائی شاندار رہی ہوگی،گرنے والی ہے اور اس کا فرش تباہ ہو گیا ہے۔

کئی مسجدیں ایسی ہے جن میں غلط کار لوگوں کا ہجوم رہتا ہے جو مسجد کے تقدس کو نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے پامال کرتے ہیں۔اسی طرح شری اربندو مارگ پر واقع فیروز شاہی مسجد میں بھینسیں باندھی جاتی ہیں۔عطا الرحمن قاسمی کا کہنا ہے کہ آثارِ قدیمہ کے قانون کے مطابق اس کے تحت آنے والی عمارت سے سو گز کی حد کے اندر کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی۔اس کے لیے محکمہٴ آثار قدیمہ اور میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینی پرتی ہے۔لیکن مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص سے متصل مسجد کی دیوار پر دیوار بنا کر ایک ہوٹل کھول دیا گیا ہے اور آثار قدیمہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جن عمارتوں اور مسجدوں کی نگرانی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے ان کی حالت بہت بہتر ہے۔

محکمہٴ آثار قدیمہ کے تحت آنے والی بیشتر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ صرف چند ہی ہیں جن میں نماز ہوتی ہے۔ ان میں مسجد شاہ جہانی (جامع مسجد)، مسجد خیر المنازل، مسجد صفدر جنگ، مسجد عبد النبی اور مسجد فیروز شاہ کوٹلہ قابل ذکر ہیں۔سینکڑوں سال پرانی مسجد جمالی کمالی مہرولی میں وہاں کے مسلمان بہت دنوں سے نماز کی ادائگی کی کوشش کر رہے تھے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے وہاں نماز کی شروعات کی تو محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے ان کو نہ صرف روک دیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو گئی ہے۔

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے ملحق بازار پہاڑ گنج کے علاقہ میں متعدد مسجدوں پر اغیار کا قبضہ ہے۔ یہاں ایک چار منزلہ عالی شان مسجد ہے جس کے ایک بڑے حصے میں کامران لاج نام کا ایک ہوٹل چل رہا ہے جس میں ملکی و غیر ملکی سیاح ٹھہرتے ہیں اور شراب و کباب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ المناک امر یہ ہے کہ اس ہوٹل کا مالک ایک مسلمان ہے۔
اسی طرح جامع مسجد کے شمالی دروازے سے متصل بازار دریبہ ہے جہاں صرافوں کی اکثریت ہے۔انہی دکانوں کے قلب میں مسجد شرف الدولہ بھی ہے،جو پہلی منزل پر واقع ہے۔ اس کے نیچے ہری رام شری رام صراف کی خوبصورت دکان ہے۔اس مسجد پر انہی لوگوں کا قبضہ ہے اور اس کی عمارت بری طرح خستہ ہوتی جا رہی ہے۔اس میں صراف نے اپنی مرضی سے اور اپنے مفاد کے تحت ترمیم و تخریب کر رکھی ہے۔یہ مسجد گرچہ دہلی وقف بورڈ کے تحت ہے لیکن یہاں اس کی ایک نہیں چلتی۔اور بھی کئی ایسی مسجدیں ہیں جو وقف بورڈ کے تحت ہیں اور ان پر یا تو اپنوں کا یا غیروں کا قبضہ ہے۔

آثار قدیمہ کے تحت کئی مساجدکی واگزاری کے لیے مسلمانوں کی جانب سے قانونی لڑائی بھی لڑی جا رہی ہے۔ کئی مسجدوں کے حق میں عدالت کے فیصلے بھی ہیں لیکن ان کی واگزاری ناممکن نظر آتی ہے۔آثار قدیمہ کے قانون کی ایک شق اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ مسلمان ان میں نماز ادا کریں لیکن عملاً ان پر پابندی عائد ہے۔ایسی عمارتوں اور مسجدوں کے دروازے پر آثار قدیمہ کا ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ محفوظ عمارت ہے اس میں آنے جانے اور نماز پر پابندی ہے۔ اس کے بعد کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ لیکن اگر مسلمان ان کو صاف ستھرا کرکے ان میں نماز کی ادائگی کی کوشش کرتے ہیں تو فوراً آثار قدیمہ کا عملہ حرکت میں آجاتا ہے اور مسلمانوں کو روک دیتا ہے۔یہ تو ان مسجدوں اور مقبروں کا حال ہے جن کا وجود ابھی باقی ہے۔ ایسے جانے کتنے مقبروں اور مسجدوں کو زمین بوس کرکے ان پر تجارتی مراکز اور فائیو اسٹار ہوٹل قائم کر دئے گئے ہیں۔

حکومت اور محکمہٴ آثارِ قدیمہ کی جانب داری ملاحظہ ہو کہ صرف مسجدوں اور مسلم عمارتوں پر ہی ان قوانین کا نفاذ ہے۔ دہلی میں ایسے لا تعداد مندر ہیں جو سینکڑوں سال پرانے ہیں یا جو محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے تحت آتے ہیں لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور برادران وطن ان میں پوجا پاٹ کرتے ہیں، ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

Saturday, April 4, 2009

ہندوستان اور ایران کی دانش گاہوں کے مابین علمی معاہدے


Iranian Delegation

مغل دور حکومت میں فارسی زبان کی ہندوستان پر حکمرانی تھی۔نہ صرف یہ کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری کام کاج اسی زبان میں ہوتے تھے بلکہ اس زبان کو سرکاری درجہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی۔بہ الفاظ دیگر کم و بیش ایک ہزار سال تک ہندوستان میں فارسی زبان نے عملاً حکومت کی ہے لیکن تغیرات زمانہ سے کون بچ پاتا ہے ۔یہ زبان بھی ہندوستان میں حالات کی ستم ظریفی کی شکار ہو گئی ہے اور ایک طرح سے یہاں فارسی زبان پر ٹھہراوٴ آگیا ہے۔اب اس ٹھہراوٴ کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر دنیا کے مختلف ممالک میں فارسی شناسی کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے تحت ایران سے ایک اعلی سطحی علمی وفد ہندوستان آیا ہوا ہے، جس میں اساتذہ اور علمی شخصیات شامل ہیں۔

اس وفد نے یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے ذمے داروں سے ملاقات کی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی دانش گاہوں کے مابین علمی معاہدے ہوئے ہیں۔ان معاہدوں کے تحت ہندوستان میں ایران شناسی کے مراکز کھلیں گے اور ایران میں ہند شناسی کے مراکز کھولے جائیں گے۔خیال رہے کہ تین سال قبل تہران یونیورسٹی میں سنسکرت زبان کی تعلیم کا ایک شعبہ کھولا گیا تھا اور یہاں سے استاد بھیجے گئے تھے۔ لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ اب جب کہ ایران میں ہند شناسی کے مراکز کھلیں گے تو سنسکرت زبان کے شعبے کا احیا ہو جائے گا۔ کیوں کہ ہند شناسی میں سنسکرت کے بغیر زیادہ کامیابی نہیں مل سکے گی۔اسی طرح ہندوستان میں فارسی شناسی کے مراکز میں فارسی کی تعلیم دی جائے گی۔
اس اعلیٰ سطحی ایرانی وفد نے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) کے وائس چانسلر اوم پرکاش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن سے ملاقات کی اور معاہدوں سے متعلق تفصیلات طے کیں۔ وفد میں پیام نور اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید محمد حسینی، المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علی رضا عراقی اور متعد علمی شخصیات شامل ہیں۔اس موقع پر سفارت خانہ جمہوریہ اسلامی ایران نئی دہلی میں کلچرل کونسلر ڈاکٹر کریم نجفی نے معاہدے کے تعلق سے کلیدی رول ادا کیا۔اگنو اور جامعہ ملیہ کے عہدے داروں سے ملاقات کے موقع پر وہ بھی موجود تھے۔

ڈاکٹر کریم نجفی نے کہا کہ ان معاہدوں سے ہندوستان میں فارسی زبان کی ترویج و اشاعت اور اس کے فروغ میں بڑی مدد ملے گی جب کہ ایران میں ہندوستانی زبانوں کو فروغ حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین علمی اور ثقافتی تبادلوں سے باہمی رشتے اور مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ فارسی ہندوستان میں کوئی نئی زبان نہیں ہے بلکہ اس نہ یہاں تقریباً سات سو سال تک حکومت کی ہے۔جبکہ پیام نور اور المصطفی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے بھی ہند ایران تعلقات پر زور دیا اور کہا کہ یہ معاہدے دونوں ملکوں کے مابین علمی رشتوں کے لیے اہم کڑی ثابت ہوں گے۔

ادھر پروفیسر مشیر الحسن نے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے ملک کی زبانوں کے فروغ کے لیے مراکز قائم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے باہمی ثقافتی تعلقات اور مستحکم ہوں گے اور دنیا میں ایران کو ایک خصوصی مقام حاصل ہو گا۔جب کہ ڈاکٹر علی رضا عراقی نے کہا کہ یہ معاہدے ہمارے علمی روابط کو مستحکم بنانے میں مہمیز کا کام کریں گے۔جامعہ کے عہدے داروں سے ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ جامعہٴ ملیہ اسلامیہ میں رمضان کے بعد ہفتہ فرہنگ ایران منایا جائے گا۔

اگنو اور پیام نور یونیورسٹیوں میں علمی تبادلے کے لیے کورس اور لٹریچر کی تیاری کا کام پروفیسر اختر مہدی کے سپرد ہے۔ اختر مہدی جے این یو میں شعبہ فارسی سینئر استاد رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورس کی تیاری کا کام تقریباً مکمل ہے اور جلد ہی عملی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں اگنو کے کم از کم پانچ سو مراکز ہیں اور انہیں امید ہے کہ اگنو فارسی زبان کے فروغ میں بھی اپنی دیرینہ روایت پر قائم رہے گی۔ان معاہدوں سے ہندوستان میں فارسی زبان کے فروغ میں تیزی آئے گی اور یہ معاہدے دونوں ملکوں کے تعلقات کے ضمن میں سنگ میل ثابت ہوں گے۔
اور ویسے بھی سنسکرت اور قدیم فارسی زبانیں ایک دوسرے کی بہنیں ہیں۔ یہ بات سب سے پہلے نابغہٴ روزگار ماہرِ لسانیات خانِ آرزو نے 1745ء کے لگ بھگ کہی تھی۔ یہ الگ بات کہ جب 1786ء میں سر ولیم جونز نے کلکتے میں ایک تقریر میں یہ کہا کہ سنسکرت اور فارسی زبانیں ایک ہی زبان سے نکلی ہیں تو اس مغربی لسانی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور یہ تقریر آج بھی تقابلی لسانیات کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

ادھر اگنو کے وائس چانسلر پروفیسر اوم پرکاش مشرا نے ایران کی دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج متعدد ممالک کے مابین متعدد قسم کے معاہدے ہو رہے ہیں مگر ہمارے یہ معاہدے علمی معاہدے ہیں اور اس سے دونوں ملکوں کی علم دوستی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اس موقع پر جے این یو میں شعبہ فارسی کے سابق استاد پروفیسر عبد الودود اظہر نے ارود وی او اے سے بات چیت میں بتایا کہ معاہدے کے تحت فاصلاتی نظام کے ذریعے ایک دوسرے ملک کی زبانوں اور کورسوں کی تعلیم دی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں پیام نور یونیورسٹی کے مراکز کھولے جائیں گے اور ایران میں اگنو کے مراکز کھلیں گے، جن میں امتحانات بھی ہوں گے اور طلبہ کو دوسری علمی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ چند اچھے طلبہ کو ایران بھی بلایا جائے گا تاکہ وہ وہاں جاکر فارسی میں علمی کام کر سکیں۔جب کہ ایران کے طلبہ کو ایران ہی میں اگنو کے مراکز میں اگنو کے کورسز میں داخلہ دیا جائے گا۔

پروفیسر اظہر نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر نجفی پیام نور یونیورسٹی کے قم مرکز کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں لہذا اس سلسلے میں ان کی دلچسپی زیادہ ہے۔وہ ایران کلچر ہاوس میں بھی فارسی سے متعلق کلاسز شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ دہلی، ممبئی اور حیدر آباد سمیت کئی شہروں میں بھی مراکز قائم کیےجائیں گے۔خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی ایران کلچر ہاوس میں فارسی کی کلاسز چلائی جاتی تھیں۔

فارسی زبان کے ماہر اور سینئر اردو صحافی رحمت اللہ فاروقی نے بتایا کہ ہندوستان میں اگرچہ فارسی اب کافی محدود ہو گئی ہے لیکن اب بھی متعدد سرکاری شعبے ایسے ہیں جہاں فارسی کے بغیر کام نہیں چلتا۔ مثال کے طور پر عدلیہ، آثارِ قدیمہ، مالیات اور پولیس محکموں میں اب بھی فارسی کی متعدد اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ محکمہٴ آثار قدیمہ میں تو فارسی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلا جا سکتا۔عہد وسطی کی تاریخ تک پہنچنے کے لیے فارسی زبان کے راستے سے ہی جایا جا سکے گا۔

رحمت اللہ فاروقی نے مزید بتایا کہ اس وقت ہندوستان میں کم از کم ساٹھ یونیورسٹیوں میں فارسی کے شعبے قائم ہیں اور ان معاہدوں سے اس زبان کے فروغ میں کافی تیزی آجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ناگپور میں کتبہ شناسی کا ایک انسٹی ٹیوٹ بھی ہے جہاں عربی اور فارسی کے کتبوں کو پڑھا جاتا اور چھاپا جاتا ہے۔خدا بخش لائبریری پٹنہ میں بھی فارسی کے لاتعداد مخطوطے ہیں جن سے علم دوست حضرات فائدہ اٹھاتے ہیں۔



Thursday, April 2, 2009

Aashiq-e-Rasool Surjeet Sing Lamba

سرجیت سنگھ لانبہ: ایک سچا عاشق رسول اور حافظ اقبال



نبی کے راستے کی خاک لوں گا
میں سب سے قیمتی پوشاک لوں گا

سردار سرجیت سنگھ لانبہ جب سیرت النّبی کے جلسوں میں یہ شعر پڑھتے ہیں تو ان پر داد وتحسین کے پھول برسنے لگتے ہیں۔یہ اور ایسے جانے کتنے نعتیہ اشعار اس بات کے گواہ ہیں کہ لانبہ صاحب ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ان کی دو اور خصوصیات ہیں۔ وہ حافظِ اقبال بھی ہیں اور سفیرِ محبت بھی،اور ہندوستان اور پاکستان کے مختلف شہروں میں گھوم گھوم کر وہ محبت کی سوغات لٹاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ امریکہ کے کئی شہروں میں بھی سیرت النیی کے جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ان کو عاشقِ رسول اور حافظِ اقبال کا خطاب ہندوستان میں ملا ہے تو سفرص ِمحبت کا خطاب اہل پاکستان نے دیا ہے۔


امسال عید میلاد النّبی کے موقع پر انہیں سیرت کے متعدد جلسوں میں بلایا گیا اور انہوں نے رسول اللہ کی سیرت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈال کر اپنے معتقدین کی تعداد میں اور اضافہ کر لیا۔ان سے گفتگو کیجئے تو ایسا لگتا ہے کہ عشق رسول کا ایک دریا ہے جو رواں دواں ہے،جذبات کا ایک طوفان ہے جو مخاطب کو بہا لے جا رہا ہے اور محبت کی ایک ٹھنڈی ہوا ہے جو اپنی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کر رہی ہے۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سیرت النّبی کے جلسے میں ایسی تقریر کی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔اس کے بعد دہلی کے دوسرے پروگراموں میں بھی انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا اور انہیں سیرت پر تقریر کی دعوت دی گئی۔وہ 80کی دہائی سے ہی ہند وپاک اور امریکہ میں سیرت النبی کے جلسوں سے خطاب کرتے آرہے ہیں۔

سرجیت سنگھ لانبہ نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ کلام اقبال کے مطالعہ سے میرے دل میں رسول اللہ کی محبت جلوہ گر ہوئی اور پھر مجھ پر یہ محبت ایسی طاری ہوتی چلی گئی کہ میں اب کلام اقبال اور رسول اللہ کی سیرت کے موضوع کے علاوہ اور کسی موضوع پر گفتگو ہی نہیں کرتا۔

انہوں نے عشقِ رسول کے ثبوت میں سیرت کے موضوع پر ’قرآن ناطق‘ نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔وہ کہتے ہیں:

 ’آج جب ہم قرآن پاک کی تلاوت اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی مقدس زیارت کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آپ کی عظیم شخصیت ہمارے خراج عقیدت کی ہرگز محتاج نہیں۔میں تو صرف آپ کی ذات کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی، محبت، عقیدت اور اخلاص کے پھول پیش کرنا چاہتا ہوں۔ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ آپ کی ذات کی بلندیوں کا تصور کرنا انسان کے شعور سے بالا تر ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں:
 ’جس مسلمان کا قلب عشقِ محمد سے معمور نہیں وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔جس مسلمان کا ایمان ابراہیم کا ایمان نہیں وہ مسلمان نہیں، جس مسلمان کا زاویہ نگاہ الفقر فخری نہیں وہ بھی مسلمان کہلانے کاحق دار نہیں، بابا نانک صاحب فرماتے ہیں کہ سچا مسلمان وہ ہے جو دیا بھاؤ کی مسجد بنائے، شردھا کو مصلی اور حق کی کمان کو قرآن سمجھے، شرم کو سنت اور اچھے برتاؤ کو روزہ جانے۔‘

سرجیت سنگھ لانبہ مزید کہتے ہیں کہ حضور کی ذات گرامی کے کشف نے مجھے اپنی جانب کھینچا۔ اسلام دامن سمیٹنے کا نہیں بلکہ دامن پھیلانے کا نام ہے۔حضور کی تعلیمات کو عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی آج عالم اسلام کو جتنی ضرورت ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔آج انسانیت سسک رہی ہے اور اس کو اللہ کے رسول کی تعلیمات کے مرہم کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی تصنیف ’قرآن ناطق‘ کے بارے میں بتایا کہ ’ میں نے بارگاہ رسالت میں اپنی عقیدت اور محبت کے پھول پیش کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ حضور کی ذات و صفات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘

خیال رہے کہ ان کی اس تصنیف پر ہندوستان، پاکستان اور خلیجی ملکوں کے متعدداخبارات نے اظہار خیال کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔قرآن ناطق سے قبل انہوں نے ’نذر خسرو‘ نامی کتاب لکھ کر علم و ادب کے حلقوں سے داد و تحسین وصول کی تھی۔

سرجیت سنگھ لانبہ کو مطالعہ اقبال کے راستے پرعشق رسول کی دولت حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ  علامہ اقبال کے مطالعہ نے میرے دل میں عشقِ رسول کی جوت جگائی ہے۔
لانبہ صاحب کوحافظ اقبال بھی کہا جاتا ہے اور ان سے گفتگو کیجئے تو یقین ہو جاتا ہے کہ ان کو یہ خطاب غلط نہیں دیا گیا ہے۔کلیات اقبال کی بے شمار نظمیں، غزلیں اور ربائیاں ان کو پوری طرح ازبر ہیں اور بات چیت کے دوران وہ اقبال کے کلام سے مثالیں دیتے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :

’ میں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی سے بے حد متاثر ہوں۔اس فلسفے سے انسان خود سے متعارف ہوتا ہے۔حکیم الامت کا تمام فلسفہ قرآن مجید کی تعلیمات پر مشتمل ہے یا ان کی تشریح کرتا ہے۔‘

جب لاہور کی اقبال اکیڈمی نے 1980ءمیں اقبال ڈے کے موقع پر ان کو مدعو کیا تھا تو انہوں نے علامہ اقبال کے مزار پر جاکر فاتحہ پڑھی تھی۔وہ جاوید منزل میں واقع اقبال میوزیم میں بھی گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ وہاں انہوں نے مختار بیگم کی تصویر دیکھی جو کہ علامہ کی دوسری بیوی تھیں۔لیکن اس کے نیچے کیپشن لکھا تھا کہ ’معراج بیگم۔ علامہ کی اہلیہ‘۔ لانبہ صاحب کے مطابق اس پر انہیں بڑی حیرت ہوئی کیونکہ معراج بیگم علامہ کی بیٹی تھیں جو پہلی بیوی کریم بی بی سے پیدا ہوئی تھیں۔انہوں نے اس فاش غلطی کی طرف جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ بانو کی توجہ مبذول کرائی۔ 1983ءمیں جسٹس جاوید اقبال نے لانبہ صاحب کو خط لکھ کر بتایا کہ اس غلطی کی اصلاح کر دی گئی ہے۔

سرجیت سنگھ لانبہ 1931ءمیں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور اس کے بعد ہندوستان آگئے اور یہاں ایک عرصے تک وہ وزارتِ قانون میں ایک اعلی عہدے پر فائز رہے۔وہ اپنی تقاریر میں قرآن کی آ یات اور احادیث کو بالکل اسی طرح پڑھتے ہیں جیسے کہ علمائے دین پڑھتے ہیں۔اور جب وہ خطاب کرتے ہیں تو یہ نہیں لگتا کہ کوئی غیر مسلم بول رہا ہے۔اس بات پر پاکستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ کے رسول سے عشق اور قرآن و احادیث کے گہرے مطالعہ کے باوجود وہ مشرف بہ اسلام کیوں نہیں ہوتے۔ پھر اخبار خود ہی لکھتا ہے کہ ممکن ہے کہ کوئی مجبوری ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے ایمان کا اعلان نہیں کر پا رہے ہیں۔
اس کے باوجود لانبہ صاحب کو یہ یقین ہے کہ ایک روز وہ مدینہ شریف کے سفر کا قصد ضرور کریں گے اور رسول اللہ کے روضہ مبارک پر حاضری دیں گے۔ان کا یہ شعران کے اس جذبے کے اظہار کے لیے کافی ہے:

اللہ نے دی مجھ کو توفیق اگر لانبہ
دن گزرے گا مکے میں اور رات مدینے میں

خیال رہے کہ اس سے پہلے ایک اور سکھ شاعر کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر نے عشق رسول کے موضوع پر یہ شعر کہہ کر دھوم مچا دی تھی کہ

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں 
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

اور اب ایک دوسرے سکھ شاعر اور عاشق رسول نے اپنے کلام اور خطاب سے دھوم مچا رکھی ہے۔
لانبہ صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے ایک پاکستانی دوست نے حضور کے روضے سے ایک تسبیح لاکر انہیں دی ہے جو گدشتہ 26 برسوں سے ان کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔

پاکستان کے متعدد اداروں کی جانب سے ان کو سفیر محبت کا لقب دیا گیا ہے اور یہ بات کہی گئی ہے کہ لانبہ صاحب نے جس طرح دونوں ملکوں کے مابین محبت کو عام کرنے کی کوشش کی ہے اگر وہی کوشش سیاست داں بھی کرتے تو بہت بڑی بات ہوتی۔ہندوستان کے متعدد اداروں، تنظیموں اور جماعتوں نے انہیں توصیفی اسناد سے نوازا ہے اور سید حامد، مولانا عبید اللہ اعظمی، پروفیسر اختر الواسع، علامہ اخلاق حسین قاسمی،پروفیسر اے آر قدوائی،پروفیسر مقصود جعفری امریکہ،صلاح الدین ناصر نیو یارک، شاہ کوثر چشتی نیو یارک اور ہندوستان و پاکستان کے بے شمار دانش ور، مفکرین اور علما ان کے قدردانوں اور معتقدین میں شامل ہیں۔

Keywords: Surjit Singh Lamba, writer, Urdu, prophet Muhammad, naat, na'at