Saturday, April 4, 2009

ہندوستان اور ایران کی دانش گاہوں کے مابین علمی معاہدے


Iranian Delegation

مغل دور حکومت میں فارسی زبان کی ہندوستان پر حکمرانی تھی۔نہ صرف یہ کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری کام کاج اسی زبان میں ہوتے تھے بلکہ اس زبان کو سرکاری درجہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی۔بہ الفاظ دیگر کم و بیش ایک ہزار سال تک ہندوستان میں فارسی زبان نے عملاً حکومت کی ہے لیکن تغیرات زمانہ سے کون بچ پاتا ہے ۔یہ زبان بھی ہندوستان میں حالات کی ستم ظریفی کی شکار ہو گئی ہے اور ایک طرح سے یہاں فارسی زبان پر ٹھہراوٴ آگیا ہے۔اب اس ٹھہراوٴ کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر دنیا کے مختلف ممالک میں فارسی شناسی کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے تحت ایران سے ایک اعلی سطحی علمی وفد ہندوستان آیا ہوا ہے، جس میں اساتذہ اور علمی شخصیات شامل ہیں۔

اس وفد نے یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے ذمے داروں سے ملاقات کی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی دانش گاہوں کے مابین علمی معاہدے ہوئے ہیں۔ان معاہدوں کے تحت ہندوستان میں ایران شناسی کے مراکز کھلیں گے اور ایران میں ہند شناسی کے مراکز کھولے جائیں گے۔خیال رہے کہ تین سال قبل تہران یونیورسٹی میں سنسکرت زبان کی تعلیم کا ایک شعبہ کھولا گیا تھا اور یہاں سے استاد بھیجے گئے تھے۔ لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ اب جب کہ ایران میں ہند شناسی کے مراکز کھلیں گے تو سنسکرت زبان کے شعبے کا احیا ہو جائے گا۔ کیوں کہ ہند شناسی میں سنسکرت کے بغیر زیادہ کامیابی نہیں مل سکے گی۔اسی طرح ہندوستان میں فارسی شناسی کے مراکز میں فارسی کی تعلیم دی جائے گی۔
اس اعلیٰ سطحی ایرانی وفد نے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) کے وائس چانسلر اوم پرکاش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن سے ملاقات کی اور معاہدوں سے متعلق تفصیلات طے کیں۔ وفد میں پیام نور اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید محمد حسینی، المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علی رضا عراقی اور متعد علمی شخصیات شامل ہیں۔اس موقع پر سفارت خانہ جمہوریہ اسلامی ایران نئی دہلی میں کلچرل کونسلر ڈاکٹر کریم نجفی نے معاہدے کے تعلق سے کلیدی رول ادا کیا۔اگنو اور جامعہ ملیہ کے عہدے داروں سے ملاقات کے موقع پر وہ بھی موجود تھے۔

ڈاکٹر کریم نجفی نے کہا کہ ان معاہدوں سے ہندوستان میں فارسی زبان کی ترویج و اشاعت اور اس کے فروغ میں بڑی مدد ملے گی جب کہ ایران میں ہندوستانی زبانوں کو فروغ حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین علمی اور ثقافتی تبادلوں سے باہمی رشتے اور مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ فارسی ہندوستان میں کوئی نئی زبان نہیں ہے بلکہ اس نہ یہاں تقریباً سات سو سال تک حکومت کی ہے۔جبکہ پیام نور اور المصطفی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے بھی ہند ایران تعلقات پر زور دیا اور کہا کہ یہ معاہدے دونوں ملکوں کے مابین علمی رشتوں کے لیے اہم کڑی ثابت ہوں گے۔

ادھر پروفیسر مشیر الحسن نے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے ملک کی زبانوں کے فروغ کے لیے مراکز قائم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے باہمی ثقافتی تعلقات اور مستحکم ہوں گے اور دنیا میں ایران کو ایک خصوصی مقام حاصل ہو گا۔جب کہ ڈاکٹر علی رضا عراقی نے کہا کہ یہ معاہدے ہمارے علمی روابط کو مستحکم بنانے میں مہمیز کا کام کریں گے۔جامعہ کے عہدے داروں سے ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ جامعہٴ ملیہ اسلامیہ میں رمضان کے بعد ہفتہ فرہنگ ایران منایا جائے گا۔

اگنو اور پیام نور یونیورسٹیوں میں علمی تبادلے کے لیے کورس اور لٹریچر کی تیاری کا کام پروفیسر اختر مہدی کے سپرد ہے۔ اختر مہدی جے این یو میں شعبہ فارسی سینئر استاد رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورس کی تیاری کا کام تقریباً مکمل ہے اور جلد ہی عملی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں اگنو کے کم از کم پانچ سو مراکز ہیں اور انہیں امید ہے کہ اگنو فارسی زبان کے فروغ میں بھی اپنی دیرینہ روایت پر قائم رہے گی۔ان معاہدوں سے ہندوستان میں فارسی زبان کے فروغ میں تیزی آئے گی اور یہ معاہدے دونوں ملکوں کے تعلقات کے ضمن میں سنگ میل ثابت ہوں گے۔
اور ویسے بھی سنسکرت اور قدیم فارسی زبانیں ایک دوسرے کی بہنیں ہیں۔ یہ بات سب سے پہلے نابغہٴ روزگار ماہرِ لسانیات خانِ آرزو نے 1745ء کے لگ بھگ کہی تھی۔ یہ الگ بات کہ جب 1786ء میں سر ولیم جونز نے کلکتے میں ایک تقریر میں یہ کہا کہ سنسکرت اور فارسی زبانیں ایک ہی زبان سے نکلی ہیں تو اس مغربی لسانی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور یہ تقریر آج بھی تقابلی لسانیات کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

ادھر اگنو کے وائس چانسلر پروفیسر اوم پرکاش مشرا نے ایران کی دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج متعدد ممالک کے مابین متعدد قسم کے معاہدے ہو رہے ہیں مگر ہمارے یہ معاہدے علمی معاہدے ہیں اور اس سے دونوں ملکوں کی علم دوستی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

اس موقع پر جے این یو میں شعبہ فارسی کے سابق استاد پروفیسر عبد الودود اظہر نے ارود وی او اے سے بات چیت میں بتایا کہ معاہدے کے تحت فاصلاتی نظام کے ذریعے ایک دوسرے ملک کی زبانوں اور کورسوں کی تعلیم دی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں پیام نور یونیورسٹی کے مراکز کھولے جائیں گے اور ایران میں اگنو کے مراکز کھلیں گے، جن میں امتحانات بھی ہوں گے اور طلبہ کو دوسری علمی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ چند اچھے طلبہ کو ایران بھی بلایا جائے گا تاکہ وہ وہاں جاکر فارسی میں علمی کام کر سکیں۔جب کہ ایران کے طلبہ کو ایران ہی میں اگنو کے مراکز میں اگنو کے کورسز میں داخلہ دیا جائے گا۔

پروفیسر اظہر نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر نجفی پیام نور یونیورسٹی کے قم مرکز کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں لہذا اس سلسلے میں ان کی دلچسپی زیادہ ہے۔وہ ایران کلچر ہاوس میں بھی فارسی سے متعلق کلاسز شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ دہلی، ممبئی اور حیدر آباد سمیت کئی شہروں میں بھی مراکز قائم کیےجائیں گے۔خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی ایران کلچر ہاوس میں فارسی کی کلاسز چلائی جاتی تھیں۔

فارسی زبان کے ماہر اور سینئر اردو صحافی رحمت اللہ فاروقی نے بتایا کہ ہندوستان میں اگرچہ فارسی اب کافی محدود ہو گئی ہے لیکن اب بھی متعدد سرکاری شعبے ایسے ہیں جہاں فارسی کے بغیر کام نہیں چلتا۔ مثال کے طور پر عدلیہ، آثارِ قدیمہ، مالیات اور پولیس محکموں میں اب بھی فارسی کی متعدد اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ محکمہٴ آثار قدیمہ میں تو فارسی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلا جا سکتا۔عہد وسطی کی تاریخ تک پہنچنے کے لیے فارسی زبان کے راستے سے ہی جایا جا سکے گا۔

رحمت اللہ فاروقی نے مزید بتایا کہ اس وقت ہندوستان میں کم از کم ساٹھ یونیورسٹیوں میں فارسی کے شعبے قائم ہیں اور ان معاہدوں سے اس زبان کے فروغ میں کافی تیزی آجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ناگپور میں کتبہ شناسی کا ایک انسٹی ٹیوٹ بھی ہے جہاں عربی اور فارسی کے کتبوں کو پڑھا جاتا اور چھاپا جاتا ہے۔خدا بخش لائبریری پٹنہ میں بھی فارسی کے لاتعداد مخطوطے ہیں جن سے علم دوست حضرات فائدہ اٹھاتے ہیں۔



No comments:

Post a Comment