Saturday, April 11, 2009

دہلی کی قدیم مساجد ومقابر خستہ حالی کے شکار

Jama Masjid, Delhi

ہندوستان کی راجدھانی دہلی کی خوبصورتی میں ان تاریخی آثار کا بھی گراں قدر کردار ہے جو مغل دور کے طرز تعمیر سے عبارت ہیں اور جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ان میں لال قلعہ اور شاہجہانی جامع مسجد کے علاوہ ایسی متعددعمارتیں اور دیگر مساجد و مقابر بھی ہیں جن کی کوئی مثال نہیں۔کسی زمانے میں دہلی کو ’حضرت دہلی‘ کہا جاتا تھا اور مشہور صوفی شاعر حضرت امیر خسرو کے عہد زریں میں عوام و خواص بھی اسے حضرت دہلی کہتے تھے۔امیر خسرو نے اپنے ایک شعر میں بھی حضرت دہلی کا استعمال کیا ہے:

حضرت دہلی کنف دین و داد
جنت عدن است کہ آباد باد

اسی حضرت دہلی میں مغل دور کے تاریخی آثار کی ایک بڑی تعداد کس مپرسی کے دور سے گزر رہی ہے۔حالانکہ ان کے تحفظ او ر رکھ رکھاوٴ کے لیے ایک سرکاری محکمہ بھی ہے جسے ’محکمہ آثارقدیمہ‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس کی موجودگی کے باوجود بہت سی عمارتیں، مسجدیں اور مقبرے حکومت کی بے توجہی اور اپنی بد حالی پر گریہ کناں ہیں۔حکومت ان آثار و عمارات کے تحفظ کے تئیں لاپروا ہو، ایسا بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتی ہے کہ ان آثار کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اس کے لیے وقتاً فوقتاً پروگراموں اور ورکشاپوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی توجہ کا شرف چند خوش قسمت عمارتوں کو ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ اس سلسلے میں اسی ہفتے دہلی میں ایک بین الاقوامی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، قزاخستان، کرغیزستان، تاجکستان اور افغانستان سمیت دس ملکوں کے ماہرین آثار قدیمہ نے شرکت کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ورکشاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ادارے یونسکوھنے کیا تھا۔
اس ورکشاپ نے تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے سرگرم لوگوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں ایسے ماہرین کی شدید قلت ہے۔ نہ تو محکمہٴ آثار قدیمہ کے پاس ایسے ماہرین ہیں جو مستند اور معتبر انداز میں نیلے پتھروں یا خوبصورت بلیو پرشین ٹائلوں کے کام کو بخوبی کر سکیں اور نہ ہی کسی پرائیویٹ ادارے کے پاس ایسے فنکار ہیں۔ اس لیے یہ موقع ان کے لیے بہت ہی خاص ثابت ہوا۔ان دس ملکوں سے 38ماہرین نے اس میں حصہ لیا۔ 
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل کے  این  شری واستو کا کہنا ہے کہ اس ورکشاپ میں نیلے پتھروں کے کام کے لیے عمارتوں کی شناخت کی گئی اور ان کے تحفظ اور سائٹ مینجمنٹ پر خاص طور پر توجہ دی گئی۔یہ انتخاب مغل دور کی عمارتوں میں سے کیا گیا اور ان کے فنِ تعمیر اور طرزِ تعمیر کی حفاظت کے لیے خدمات پیش کی گئیں۔

ایران اور ازبکستان کے ماہرین اپنے ساتھ بلیو پرشین ٹائلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے موضوع کی مناسبت سے ان پتھروں کے استعمال، ان کے تحفظ اور ان کی خوبصورتی پر اپنے ماہرانہ خیالات رکھے اور یہ بھی بتایا کہ ان کے ملکوں میں ان پتھروں کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔

محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے دیگر عہدے داروں نے اس پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اس ورکشاپ نے ممبر ملکوں کے مابین آئندہ مہارتوں کے تبادلے کا راستا وا کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آگے چل کر ہم اپنے یہاں اس اہم کام کے لیے یا تو ان ملکوں کے ماہرین کو مدعو کریں گے یا پھر اپنے لوگوں کو ان ملکوں میں بھیجیں گے تاکہ وہ وہاں جا کر اس فن کی باریکیوں کو سمجھ سکیں اور پھر اپنے ملک میں اس مہارت کا استعمال کر سکیں۔

یونسکول کے نمائندے ڈاکٹر چن ہنگ نے کہا کہ ہم نے اس کام میں چارC کے فارمولے کا استعمال کیا ہے۔یہ ہیںconservation, cooperation, comunication اور community۔ اس ورکشاپ کے ممبران نے دہلی کی متعدد تاریخی عمارتوں کا دورہ کیا اور ان کا جائزہ لیا، جن میں لال قلعہ اور قطب مینار قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے دوسرے شہروں کے آثار کو بھی دیکھا۔دہلی میں جن عمارتوں کے گنبد میں نیلے پتھر آویزاں ہیں ان میں نیلی چھتری نظام الدین، شیشہ گنبد خیر پور، ہمایوں مقبرہ نظام الدین اور ادہم خان کا مقبرہ مہرولی قابل ذکر ہیں۔ 
ان تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے حکومت کی کاوشیں یقیناً قابل ذکر ہیں۔ اس ورکشاپ کے لیے یونسکوت کا بھی شکر گزار ہونا چاہئیے، لیکن اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دہلی ہی میں لاتعداد تاریخی عمارتیں، بالخصوص مساجد و مقابر اپنی خستہ حالی کا نمونہ ہیں۔پارلیمنٹ کے ایک ریکارڈ کے مطابق اس وقت دہلی میں دو ہزار سے زائد مساجد ہیں جن میں سے 53مساجد محکمٴ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور پانچ سو مساجد دہلی وقف بورڈ کے تحت ہیں۔ جبکہ 92مساجد پر ناجائز قبضے ہیں اور باقی عام مسلمانوں کے زیر اہتمام ہیں۔(یہ ریکارڈ 1983کے اعداد و شمار پر مبنی ہے)۔

دہلی میں تاریخی آثار پر کام کا خاصاتجربہ رکھنے والے اور دہلی، پنجاب اور ہریانہ کی تاریخی مساجد پر تین ضخیم کتابوں کے مولف مفتی عطا الرحمن قاسمی کے مطابق دہلی میں لا تعداد مساجد و مقابر حکومت کی بے توجہی کے شکار ہیں۔ اگر مسلمان ان کی مرمت کے لیے آگے آتے ہیں اور پھر ان میں نمازوں کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو محکمہٴ آثار قدیمہ کے ذمے داران آدھمکتے ہیں اور یہ کہہ کر ان کے کام کو روک دیتے ہیں کہ یہ عمارت آثار قدیمہ کے تحت محفوظ ہے۔ان کے بقول حکومت صرف ان ہی عمارتوں کے تحفظ کے تئیں سرگرم رہتی ہے جن سے مالی فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ لال قلعہ، قطب مینار، مسجد قوت الاسلام، ہمایوں کا مقبرہ وغیرہ۔ انہوں نے اردو وی او اے ڈاٹ کام سے بات چیت میں بتایا کہ کھڑکی گاوٴں کی مسجد بیگم پور،مسجد یوسف قتال، بیگم پور کی مسجد شیخ فرید بخاری، ان مسجدوں سے متصل مقبروں، مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص،مسجد قاضی والی پہاڑ گنج، مسجد نواب شرف الدولہ دریبہ اور دیگر کئی مسجدیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کئی مسجدوں کو رہائشی مکانات میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کئی مسجدوں کی عمارتوں سے متصل رہائشی مکانات اور تجارتی ادارے بن گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مسجد یوسف قتال، مقبرہ شیخ فرید بخاری،مسجد محمدی سیری فو رٹ آڈیٹوریم، قلعہ علاو الدین وغیرہ کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اول الذکر دو مسجدوں اور مقبروں کے صحن میں لوگ رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں اور کئی دوسری مسجدوں میں گائے بیل کے گوبر اور اپلے تھاپے جاتے ہیں۔سیری فورٹ آڈیٹوریم سے متصل مسجد محمدی کی چھت، جو اپنے زمانے میں انتہائی شاندار رہی ہوگی،گرنے والی ہے اور اس کا فرش تباہ ہو گیا ہے۔

کئی مسجدیں ایسی ہے جن میں غلط کار لوگوں کا ہجوم رہتا ہے جو مسجد کے تقدس کو نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے پامال کرتے ہیں۔اسی طرح شری اربندو مارگ پر واقع فیروز شاہی مسجد میں بھینسیں باندھی جاتی ہیں۔عطا الرحمن قاسمی کا کہنا ہے کہ آثارِ قدیمہ کے قانون کے مطابق اس کے تحت آنے والی عمارت سے سو گز کی حد کے اندر کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی۔اس کے لیے محکمہٴ آثار قدیمہ اور میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینی پرتی ہے۔لیکن مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوض خاص سے متصل مسجد کی دیوار پر دیوار بنا کر ایک ہوٹل کھول دیا گیا ہے اور آثار قدیمہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جن عمارتوں اور مسجدوں کی نگرانی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے ان کی حالت بہت بہتر ہے۔

محکمہٴ آثار قدیمہ کے تحت آنے والی بیشتر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ صرف چند ہی ہیں جن میں نماز ہوتی ہے۔ ان میں مسجد شاہ جہانی (جامع مسجد)، مسجد خیر المنازل، مسجد صفدر جنگ، مسجد عبد النبی اور مسجد فیروز شاہ کوٹلہ قابل ذکر ہیں۔سینکڑوں سال پرانی مسجد جمالی کمالی مہرولی میں وہاں کے مسلمان بہت دنوں سے نماز کی ادائگی کی کوشش کر رہے تھے۔ گذشتہ دنوں انہوں نے وہاں نماز کی شروعات کی تو محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے ان کو نہ صرف روک دیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو گئی ہے۔

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے ملحق بازار پہاڑ گنج کے علاقہ میں متعدد مسجدوں پر اغیار کا قبضہ ہے۔ یہاں ایک چار منزلہ عالی شان مسجد ہے جس کے ایک بڑے حصے میں کامران لاج نام کا ایک ہوٹل چل رہا ہے جس میں ملکی و غیر ملکی سیاح ٹھہرتے ہیں اور شراب و کباب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ المناک امر یہ ہے کہ اس ہوٹل کا مالک ایک مسلمان ہے۔
اسی طرح جامع مسجد کے شمالی دروازے سے متصل بازار دریبہ ہے جہاں صرافوں کی اکثریت ہے۔انہی دکانوں کے قلب میں مسجد شرف الدولہ بھی ہے،جو پہلی منزل پر واقع ہے۔ اس کے نیچے ہری رام شری رام صراف کی خوبصورت دکان ہے۔اس مسجد پر انہی لوگوں کا قبضہ ہے اور اس کی عمارت بری طرح خستہ ہوتی جا رہی ہے۔اس میں صراف نے اپنی مرضی سے اور اپنے مفاد کے تحت ترمیم و تخریب کر رکھی ہے۔یہ مسجد گرچہ دہلی وقف بورڈ کے تحت ہے لیکن یہاں اس کی ایک نہیں چلتی۔اور بھی کئی ایسی مسجدیں ہیں جو وقف بورڈ کے تحت ہیں اور ان پر یا تو اپنوں کا یا غیروں کا قبضہ ہے۔

آثار قدیمہ کے تحت کئی مساجدکی واگزاری کے لیے مسلمانوں کی جانب سے قانونی لڑائی بھی لڑی جا رہی ہے۔ کئی مسجدوں کے حق میں عدالت کے فیصلے بھی ہیں لیکن ان کی واگزاری ناممکن نظر آتی ہے۔آثار قدیمہ کے قانون کی ایک شق اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ مسلمان ان میں نماز ادا کریں لیکن عملاً ان پر پابندی عائد ہے۔ایسی عمارتوں اور مسجدوں کے دروازے پر آثار قدیمہ کا ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ محفوظ عمارت ہے اس میں آنے جانے اور نماز پر پابندی ہے۔ اس کے بعد کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ لیکن اگر مسلمان ان کو صاف ستھرا کرکے ان میں نماز کی ادائگی کی کوشش کرتے ہیں تو فوراً آثار قدیمہ کا عملہ حرکت میں آجاتا ہے اور مسلمانوں کو روک دیتا ہے۔یہ تو ان مسجدوں اور مقبروں کا حال ہے جن کا وجود ابھی باقی ہے۔ ایسے جانے کتنے مقبروں اور مسجدوں کو زمین بوس کرکے ان پر تجارتی مراکز اور فائیو اسٹار ہوٹل قائم کر دئے گئے ہیں۔

حکومت اور محکمہٴ آثارِ قدیمہ کی جانب داری ملاحظہ ہو کہ صرف مسجدوں اور مسلم عمارتوں پر ہی ان قوانین کا نفاذ ہے۔ دہلی میں ایسے لا تعداد مندر ہیں جو سینکڑوں سال پرانے ہیں یا جو محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے تحت آتے ہیں لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور برادران وطن ان میں پوجا پاٹ کرتے ہیں، ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment