Thursday, May 26, 2011

اردو کے نوحہ گر ہی اردو کے دشمن ہیں

اردو زبان کی صورت حال بہت خراب ہے ، اردو رفتہ رفتہ مٹتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کے لیے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ یہ اور ایسی باتیں سنتے سنتے کان پک سے گئے ہیں۔ کسی بھی اردو پروگرام میں جایئے اردو کی مرثیہ خوانی سے سابقہ پڑ جاتا ہے۔ کوئی اس کے لیے حکومتوں کی پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے تو کوئی اردو کو مٹانے میں اردو دشمنوں کی سازشوں کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی اردو ہندی تنازعہ پر روشنی ڈال کر اردو کی مظلومیت کا رونا روتا ہے تو کوئی اس پر زور دیتا ہے کہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ لیکن ان تمام شکایتوں اور نالوں اور فریادوں کے درمیان کوئی بھی شخص جرات مندی کے ساتھ یہ نہیں کہتا کہ ہم خود اردو زبان کے قاتل ہیں اور ہم نے ہی اس کی تکفین وتدفین کا فریضہ انجام دیا ہے۔ دبے لفظوں میں کوئی اعتراف ہو جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ہم اردو والو ں میں اس کی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ہم علی الاعلان یہ کہہ سکیں کہ ہاں ہم اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں ہی اسے تبدیل کرنا ہوگا۔
ابھی گذشتہ دنوں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں اسی مسئلے پر ایک سیمنار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کا اہتمام علیگڑھ کی ایک فعال تنظیم ملت بیداری مہم کمیٹی ، جریدہ علیگڑھ موومنٹ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے کیا تھا۔ موضوع تھا ’’سیکولر آزاد ہندوستان میں اردو زبان کا رول‘‘۔ اس موضوع پر مختلف مقالات پیش کیے گئے۔لیکن مرثیہ خوانی اور نوحہ گری بھی ہوئی۔ ملت بیداری مہم کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور علیگڑھ موومنٹ کے مدیر جناب جسیم محمد نے اردو زبان کی موجودہ صورت حال پر بھرپور روشنی ڈالی۔ مہمان اعزازی کی حیثیت سے معروف ماہر تعلیم اور کالم نگار فیروز بخت احمد نے ختم ہوتے ادب اطفال پر بھرپور مقالہ پیش کرکے اردو ادیبوں اور شاعروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ راقم الحروف نے الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان کے بڑھتے استعمال اور اردو کی اہمیت پر ایک تفصیلی مقالہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ کم از کم دو درجن مققالہ نگاروں نے اس دوروزہ کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
آزاد سیکولر ہندوستان میں اردو زبان کا کیا رول ہونا چاہئے اس پر تو غور کرنے کی ضرورت ہے ہی، اس سے زیادہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آزاد سیکولر ہندوستان میں اردو کو کیا مقام حاصل ہے اور کیا اس کو اس کاجائز حق مل گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کی پالیسیاں اردو زبان کے زوال کی بہت بڑی ذمہ دار ہیں۔ حکومتیں نہیں چاہتیں کہ اردو کو اس کا جائز حق ملے، اس کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کو دور کیا جائے اور اس زبان کے فروغ کے لیے بہتر انداز میں کوششیں کی جائیں۔ حالانکہ حکومت نے متعدد ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کا کام اردو زبان کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر رول ادا کرنا ہے۔ جن کا کام اردو زبان کی تعلیم کو عام کرنا ، اردو زبان وادب کو فروغ دینااور اردو کو مختلف انداز میں پروان چڑھانا ہے۔ کچھ ادارے سنجیدگی کے ساتھ کچھ کر بھی رہے ہیں جن میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا رول قابل ذکر ہے۔ لیکن بیشتر ادارے سیاست کا اکھاڑہ بنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کی کرسیوں پر براجمان شخصیات اپنے فرائض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اگر ہم ایماندارانہ جائزہ لیں تو پائیں گے کہ حکومت تو بہرحال کچھ نہ کچھ کر رہی ہے ۔ لیکن سوال وہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم جو اردو کے ختم ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں اردو کو زندہ کرنے کے لیے کیا کچھ قربانیاں دے رہے ہیں۔ کیا صرف یہی ہمارا کام ہے کہ ہم مطالبات کریں، حکومتوں سے شکایات کریں اور ان کی پالیسیوں کی مذمت کریں۔ کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم خود اردو کو پروان چڑھانے کے لیے دامے، درمے ، قدمے، سخنے حصہ لیں۔
جن لوگوں پر اردو کے فروغ کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہی اس کو مٹانے کے جرم کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔ پہلے اتر پردیش، بہار اور دہلی اردو کے گہوارہ ہوا کرتے تھے لیکن آج انہی گہواروں سے اردو کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالا جا رہا ہے۔ اتر پردیش کی حالت تو بہت خراب ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا اس سے روزی روٹی اور نوکری نہیں ملے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی زبان کو جسے ہم تہذیب و ثقافت کا گہوارہ کہتے ہیں اور جس میں ہمارا کل مذہبی سرمایہ موجود ہے ، محض اس لیے ترک کر دیں کہ اس کے پڑھنے سے ملازمت نہیں ملے گی۔ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اس زبان کو اپنے سینے سے لگائے رہیں خواہ نوکری ملے یا نہ ملے۔ اگر ہمارے والدین بڑھاپے میں ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں تو کیا ہم انہیں گھروں سے نکال کر سڑکوں پر مارے مارے پھرنے کے لیے چھوڑ دیں یا انہیں اولڈ ایج ہوم کے حوالے کر دیں۔ کیا ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم ان کا سہارا بنیں۔ یہی حالت اردو زبان کی ہے۔ ان علاقوں میں جہاں اردو کے مراکز ہوا کرتے تھے، نوجوان نسل کی تعلیم کے لیے کیا ہم کوئی بند بست کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کیا اردو پڑھنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ عام آدمی کو تو چھوڑئے خود وہ حضرات جو اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں یعنی جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اردو کے استاد ہیں ان میں سے بیشتر اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دلواتے۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا۔ اس لیے وہ انہیں اعلی سطح کے انگریزی اسکولوں میں داخل کرتے ہیں ۔ جبکہ ان کی اپنی زندگی اور ترقی کی عمارت اردو کی بنیاد پر ہی قائم ہے۔ مذکورہ سیمنار میں بھی اس بات کا حوالہ دیا گیا اور اردو کے ایک بزرگ ادیب پروفیسر وہاب اشرفی نے اردو کے ایک پروفیسر اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی موجودگی میں یہ شکوہ کیا کہ اردو کے اساتذہ اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ،بلکہ نہایت شرمناک بات ہے۔ وہ حضرات جو اردو کانفرنسوں میں شرکت کے لیے دنیا کے متعدد ممالک کے دورے کرتے ہیں ، وہ اردو کے تئیں کتنے مخلص اور سنجیدہ ہیں اس پر انہیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جو لوگ یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا اس سے ملازمت نہیں ملتی، راقم الحروف ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اردو میڈیم سے آپ آئی اے ایس کا باوقار امتحان دے سکتے ہیں اور اس میں کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال کشمیر کے شاہ فیصل کی ہے جنھوں نے اردو سے امتحان دیا اور آج وہ آئی اے ایس بن کر اردو والوں کے لیے ایک روشن مثال بن چکے ہیں۔ اس سے پہلے ایک قاسمی مولانا نے آئی اے ایس کا امتحان اردو زبان میں دیا اور کامیا بی حاصل کی۔ اس سے بھی پہلے مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم ایس ایم اشرف نے اردو زبان میں امتحان دے کر آئی اے ایس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اردو میں کیا نہیں ہے۔ اور پھر اگر اردو سے ملازمت نہ ملے تو کیا ہم اردو کو خیر باد کہہ دیں گے۔ پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی اس بات کی راقم الحروف تائید کرے گا کہ اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے۔ ہمیں اردو کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ یہ مثال عام طور پر دی جاتی ہے کہ عبرانی زبان صدیوں تک گوشہ گمنامی میں رہی او رزمانے کے ستم جھیلتی رہی۔ لیکن جب یہودیوں کو موقع ملا او رانہوں نے اسرائیل کا قیام کر لیا تو آج وہی زبان دنیا کے نقشے پر باوقار انداز میں اپنی حاضری درج کرا رہی ہے۔
اس سلسلے میں شمالی او رجنوبی ہند کے مسلمانوں اور اردو داں طبقے کے رویے میں فرق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شمالی ہند کے اردو داں حضرات صرف شکوہ بیجا ہی میں مصروف رہتے ہیں جبکہ جنوبی ہند کے اردو داں طبقے اپنے کام میں یقین رکھتے ہیں۔ آج مہاراشٹرا میں جانے کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں او روہاں کے طلبہ سو فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں۔ وہ اردو کے سہارے روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیاں بھی بنا رہے ہیں۔ اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا رونا رونے کی بجائے انھوں نے اردو کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کیا اور آج اس کے ثمرات سے وہ فیض یاب بھی ہو رہے ہیں۔ کیا شمالی ہند کے مسلمان او راردو سے پیا ر کرنے والے لوگ اس مثال کو اپنے سامنے رکھ کر اپنا لائحہ عمل تیار نہیں کر سکتے۔ در اصل شمالی ہند کے مسلما ن صرف جذباتی اقدامات ہی میں یقین رکھتے ہیں وہ ٹھوس اور بنیادی کام کرنا نہیں جانتے۔ وہ تن آسانی کے شکار ہیں اور اپنی ذمہ داری سے غفلت شعاری کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے میں یقین رکھتے ہیں۔
در اصل اردو کے دشمن حکومت اور اردو مخالف عناصر ہوں یا نہ ہوں ہم اردو والے ضرور ہیں۔ وہ لوگ جو اردو کی مرثیہ خوانی کرتے ہیں ، جو اردو کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں اور جو لوگ مذمتی اور مطالباتی رویے میں یقین رکھتے ہیں وہ کسی بھی قسم کا تعمیری اور ٹھوس کام کر ہی نہیں سکتے۔ ایسے کام کرنے کے لیے اپنا خون جگر جلانا پڑتا ہے، اپنے آپ کو مٹا دینا پڑتا ہے اور قربانیوں کی مصیبت بھری راہوں سے گزر کر دوسروں کے لیے نشان راہ قائم کرنا پڑتا ہے۔ کیا وہ لوگ جو محض مرثیہ خوانی میں یقین رکھتے ہیں، اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے اور ایثار وقربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں گے۔ کیونکہ کوئی بھی نغمہ خون جگر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ خون جگر کے بغیر عشق کوئی رنگ نہیں لاتا۔

Wednesday, May 25, 2011

آخر یہ کیسا انتقام ہے

جو اپنوں کے خون کا پیاسا ہے؟



جب انتقام کی لہریں موج خوں بن کر اپنوں کے سروں سے گزرنے لگیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ آخر یہ کیسا انتقام ہے جس کی پیاس اپنوں کے خون سے بھی نہیں بجھ رہی ؟ جب عبادت گاہوں، درگاہوں، مذہبی جلوسوں اور پر امن آبادیوں اور شاہراہوں پر خود کش حملے کرکے بے قصور اور معصوم انسانو ں کے لہو کے دریا بہائے جائیں تو سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیسا جہاد ہے جو بربریت کی داستانیں رقم کر رہا ہے ؟ آپریشن ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اسلام کے ان ’’مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں‘‘ نے انتقام لینے کی جو دھمکی دی تھی اس کو اپنے ہی دینی بھائیوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس واقعہ کے بعد سے اب تک کم از کم سو بے قصوروں کو انتقام کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے لیکن پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں اور آگ ہے کہ ٹھنڈی ہوتی ہی نہیں۔ القاعدہ او ر طالبان نے جو اپنا الگ اسلام بنایا ہے اس میں خود کشی شہادت ہے اور ظلم وبربریت باعث ثواب ہے۔ اس اسلام نے جس نے جنگ میں بھی نہتوں پر حملے کو ممنوع قرار دیا تھا، جس نے عورتوں ، بچوں، ضعیفوں اور بیماروں کے تحفظ کی ہدایت کی تھی، جس نے پناہ مانگنے والے کو پناہ دینے کی تلقین کی تھی، جس نے دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے سے روکا تھا، اسی اسلام کے ایسے ماننے والے پیدا ہو گئے ہیں جو ان ہدایات کی خلاف ورزی کو عین اسلام سمجھتے ہیں اور جو خلاف شرع کارناموں کو عین شریعت اسلامیہ قرار دیتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو امریکی کمانڈوز نے ہلاک کیا تھا اور اسامہ کے پیرو اسلام کے پیرؤوں کو مار رہے ہیں اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ وہ اسامہ کی موت کا انتقام لے رہے ہیں۔

انتقام کی یہ آگ نائن الیون کے بعد امریکی فوجی کارروائیوں کے بعد سے ہی بھڑک رہی ہے۔ القاعدہ کے ’’مجاہدین‘‘ مختلف ملکوں میں بے قصوروں کو نشانہ بنا رہے ہیں او ر بقول خود اسلام کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ یوں تو ہندوستان سمیت دوسرے ملکوں میں جانے کتنی کارروائیاں کی گئی ہیں اور کتنے ہی بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے لیکن مملکت خداداد پاکستان میں، جو کہ اسلام کے ان نئے نام لیواؤں کا منبع و مرکز بن گیا ہے، انسانی لہو کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک کم وبیش پینتیس ہزار لوگوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے، ہزاروں خواتین بیوہ، ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں ضعیف بڑھاپے کی لاٹھی کے محتاج ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ روز وشب ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور یہ ایسی داستان غم ہے کہ مختصر ہی نہیں ہو رہی۔ ہم انسانی جانوں کے مینار بنانے، مسلم سروں کی پکی ہوئی فصلیں کاٹنے اور مسلمانوں کے لہو سے دجلہ وفراط کو رنگین کر دینے کے تاریخی واقعات کا ذکر با چشم نم کرتے ہیں اور ان واقعات پر بین وماتم بھی کرتے ، ہیں لیکن کیا پینتیس ہزار انسانوں کی لاشوں سے مینار نہیں بنائے جا سکتے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ درجنوں مینار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں اور درجنوں قبرستانیں آباد ہو سکتی ہیں۔ لیکن کشت وخون کا بازار ہے کہ اب تک گرم ہے، لاشیں ہیں کہ اب تک گر رہی ہیں، دھرتی کی مانگ کو انسانی خون سے رنگنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور مذہب اسلام اپنے ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کے کارناموں سے شرمسار ہے۔ برسات تو ہر سال آتی ہے، گلی کوچے بارش کے پانی سے سال بہ سال شرابور ہوتے ہیں، دریاؤں میں طغیانیاں بھی آتی ہیں اور سیلابوں سے زمین کا چہرہ بھی دھل اٹھتا ہے لیکن انسانی خون کے دھبے نہ مٹنے کے ہیں نہ مٹ رہے ہیں۔ ہم اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کیے جانے والے اپنے دوسرے بھائیوں کی لاشوں سے اٹھنے والے تعفن کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے ہی جگر گوشوں کو انسانی بم بنتے ہوئے بے چارگی سے دیکھ رہے ہیں۔ دو اسلامی ملکوں کے مابین ایک عشرے تک جاری اس ہلاکت خیز جنگ کو ہم بھولے نہیں ہیں جس میں کمسن اور نوخیز بچوں کے ہاتھوں میں ’’جنت کی کنجی‘‘ تھما کر محاذ جنگ پر ہراول دستے میں بھیج دیا جاتا تھا، آج بھی کم سن بچوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور نوجوانوں کو جنت میں داخلے کا پروانہ تھما کر خود کش حملہ آور بنایا جا رہا ہے۔ انسانوں کو بموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور انہیں خود کشی کے زرہ بکتر سے لیس کرکے بے قصوروں کی بھیڑ میں جھونک دیا جا رہا ہے۔ آج تو اسلام اور کفر کے درمیان کوئی جنگ بھی نہیں ہو رہی پھر بھی جہاد کا پرچم بلند ہے اور طبل جنگ مسلسل بجے جا رہا ہے۔ اس یکطرفہ جنگ میں کھڑے ہوئے فوجیوں کے بالمقابل ان کے اپنے ہی لوگ ہیں اور وہ اپنوں کی ہی لاشوں سے گزرتے ہوئے جنت میں داخلے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے اپنی خون آشام معرکہ آرائیوں سے اسلام کو بھی بدنام کیا ہے، جہاد کو بھی رسوا کیا ہے اورانسانیت کو بھی شرمسار کیا ہے۔ ان کی انہی حرکتوں کے سبب پوری دنیا کے مسلمانوں کی پیشانی پر دہشت گرد ہونے کی مہر لگا دی گئی ہے اور جہاں بھی دہشت گردی کاکوئی خونی واقعہ ہوتا ہے اغیار کی دزدیدہ نظریں مسلمانوں کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ نئے برانڈ کے ان مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان طاقتوں کے خلاف صف آرا ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اسی لیے وہ ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ اس جنگی جنون کی آگ میں اسلامی بھائیوں کو ہی ایندھن بنایا جائے، ان کی املاک اور ان کے اثاثوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جائے۔ اگر ان کے دشمن امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک ہیں تو نشانہ مسلمانوں کو کیوں بنایا جاتا ہے۔ مسلکی اختلافات کے تئیں عدم برداشت کے رویے کا مظاہرہ کرکے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کو کیوں تہہ تیغ کیا جاتا ہے۔ کیا اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ اپنے ہی لوگوں کومار کرہو سکتا ہے۔جب کوئی انسانی بم پھوٹتا ہے تو وہ مسلم نوجوان تو اپنی جان گنوا ہی دیتا ہے، دوسرے بے قصوروں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ دوسری طرف ان لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش میں یا ان کو نیست ونابود کرنے کے عزائم کی تکمیل میں جو کارروائیاں ہو رہی ہیں ان کی زد بھی بے قصور مسلمانوں پر ہی پڑتی ہے۔ لیکن ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر یہ کیسا انتقامی چکر ہے جو دونوں طرف چل رہا ہے اور دونوں جانب سے مسلمان ہی پس رہے ہیں۔

القاعدہ اور طالبان کے وجود او ران کے ابھار کے سلسلے میں دنیا کی سپر طاقت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے ان کو استعمال کیا اور اب ان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ اس میں صداقت ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے مسلمان ہیں جو دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں اور ان کی یہ کیسی مومنانہ فراست ہے کہ بار بار اسی ایک ہی سوراخ سے ڈسے جا رہے ہیں اور پھر بھی خود کو ہی اصلی مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ خود کو قرون اولی کا اصل جانشین تصور کرتے ہیں ۔ جب ہم دوسروں پر یہ الزام لگاتے ہیں تو کیا اس کے آئینے میں اور کوئی چہرہ نظر نہیں آتا۔ کیا اس میں پاکستان کے وہ حکمراں دکھائی نہیں دیتے جنہوں نے اس ’’قاتل فوج‘‘ کی پشت پناہی کی ہے۔ کیا دہشت گردی کے اس ابھار میں پاکستان کا کوئی رول نہیں ہے جو دہشت گردی مخالف جنگ میں Selective Approachاپناتا ہے۔ جو اپنے خلاف کررروائی کرنے والوں کے خلاف آپریشن چلاتا ہے اور ہند مخالف دہشت گردوں کی درپردہ پرورش وپرداخت کرتا ہے۔ آج پاکستان میں بھی ایسے طبقات پیدا ہو گئے ہیں جو اسلام کے ان ٹھیکیداروں کے ہمنوا اور حمایتی ہیں۔ جن کی آنکھوں پر مغربی طاقتوں کی اندھی دشمنی کی عینک چڑھی ہوئی ہے اورجو یہ دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ در اصل اس دشمنی کا رخ اب خود اپنوں کی جانب ہی مڑ گیا ہے۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کو مار کر مسرور وشاداں ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں سے انتقام لے رہے ہیں۔ کیا ایسی حرکتوں کو شرعی جواز حاصل ہو سکتا ہے ا ور کیا یہ اقدامات اسلام کی میزان میں تولے جا سکتے ہیں۔

کراچی میں بحریہ کی ایک اہم تنصیب پر دہشت گردانہ حملے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جن میں ایک خطرناک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب پاکستان کے ایٹمی ہتھیارمحفوظ ہیں، کیا ان تک دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے اور کیا اگر ایسا ہوا تو یہ خطہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہ انتہاپسند طبقہ جس طرح پاکستانی معاشرے پر بتدریج اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے یہ خطرہ اتنا ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خود پاکستان کا ہی نقصان ہوگا اوراس ملک کے لیے جو مسلم شناخت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور جسے مملکت خداداد کہا جاتا ہے،اپنے آپ کو بچا پانا بے حد مشکل ہو جائے گا۔ اس ملک کے حکمرانوں کو اب کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی سے خود وہ بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں اور اگر ان کو نہیں روکا گیا تو حالات بہت پیچیدہ ہو جائیں گے۔ ان کا یہ کہنا بجا کہ وہ بھی دہشت گردی کے شکار ہیں لیکن کیا وہ اس کا جواب دے سکیں گے کہ انہوں نے ان عناصر کی پرورش کیوں کی۔ اور اب بھی جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ مزید شکوک وشبہات پیدا کر رہی ہیں۔ ڈیوڈ ہیڈلی نے جو انکشافات کیے ہیں وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

بہر حال ایک طوفان کشت وخون ہے جو جاری ہے اور جس کی شدت میں کمی کا سر دست کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ مغرب دشمنی میں یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ہیں کہ خون کی ہولی کھیلنے کے دور سے باہر ہی نہیں آپا رہے ہیں۔ ضرورت دور جدید کی ترقیات کے دوش بہ دوش چلنے کی ہے اور تنگ نظری اور عصبیت کے خول سے باہر آنے کی ہے۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنا لوجی کے انقلاب کا دور ہے او رمسلمان چاہیں تو اس انقلاب کا سہارا لے کر پوری دنیا میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام کر سکتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو عام کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اس ذہنیت کو خیرباد کہنا ہوگا جو مسلمانوں کو مسلمانوں کا ہی دشمن بنائے ہوئے ہے اور جس کی وجہ سے وہ اس قیامت خیز بھنور میں پھنسے جا رہے ہیں۔

9818195929