Sunday, November 22, 2009

علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ہندوستان بھر میں یوم اردو کا انعقاد

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں اہم تقریب دارالسلطنت دہلی میں منعقد ہوئی۔ آل انڈیا اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام گذشتہ پندرہ برسوں سے یوم اقبال پر یوم اردو کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اب یہ سلسلہ رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔

غالب اکیڈمی میں منعقد ہ اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ نے انتہائی شستہ اردو میں علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان کے متعدد اشعار کے حوالے سے کہا کہ علامہ اقبال نے اتحاد و یگانگت کا درس دیا ہے اختلاف و انتشار کا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ کیا کوئی اور شاعر ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسی نظم لکھ سکتا ہے۔ تیجندر کھنہ نے کہا کہ صرف یوم اقبال یا یوم اردو منانے سے اقبال کے لئےعقیدت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اقبال کے پیغام کو عام کریں اور ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘کے پیغام کو عملی انداز میں اپنی زندگی میں منتقل کریں۔ لیفٹیننٹ گورنر نے اقبال کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت اور قتل و خوں ریزی نہیں سکھاتا اور اسلام تو امن و شانتی کا مذہب ہے۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے کہا کہ یہ زبان ایک شیریں زبان ہے اور وہ اس کا وعدہ کرتے ہیں کہ دہلی میں اردو کو اس کا حق دلانے میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔

دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں۔ انھوں نے 1923میں افغانستان کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا اور کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کے جسم کی حیثیت رکھتا ہے اور افغان عوام اس جسم کے دل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر افغانستان میں شورش ہوگی تو پورا ایشیا اضطراب میں مبتلا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج دیکھ لیجئے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اورایشیا پر اس کے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیںں۔

پروفیسر عبد الحق نے مزید کہا کہ یوں تو دنیا میں سات عجوبے ہیں لیکن اگر ان میں آٹھویں عجوبے کا اضافہ کیا جائے تو بلا شبہ وہ علام اقبال ہوں گے۔ وہ اور ان کی شاعری کسی عجوبے سے کم نہیں اور ان کی شاعری نے جو آفاقی پیغام دیا ہے وہ کسی اردو شاعر نے نہیں دیا ہے۔

اقبال کے بارے میں ان کے ایک نکتہ چیں مجنوں گورکھپوری کو کہنا پڑا تھا کہ دنیا میں کبھی کبھی ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے زمانے کے میلانات کے تابع ہوتی ہیں بلکہ خود ان پر قادر بھی ہوتی ہیں۔ وہ مروجہ دھاروں کے رخ کو نئی سمتوں میں موڑ دیتی ہیں۔ اقبال کا شمار بھی انہی ہستیوں میں ہوگا۔ وہ اپنے زمانے کے مخلوق تھے مگر ایک نئے زمانے کے خالق بھی تھے۔ اسی طرح فراق گورکھپوری کا یہ اقرار بھی دلچسپ ہے کہ ایشیا بھر کے شاعر مل کر اقبال کی اس غزل کا جواب نہیں لکھ سکتے:

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا

انھوں نے اقبال کی شاعری کے رموز و نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال ایک عوامی شاعر بھی ہیں اور ان کا یہ مصرع تو زبان زد عام ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔

اس کے علاوہ دیہات کے ان پڑھ لوگ بھی لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ نظم سے بخوبی واقف ہیں۔ علامہ نے 1904میں نظم ’ ترانہ ہندی ‘ تخلیق کی تھی اور اس نظم کا ایک مصرعہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ خلانورد راکیش شرما کی زبان سے بالائے قمر تک پہنچا تھا۔ انھوں نے 27سال کی عمر میں یہ نظم لکھی تھی اور آج تک اردو کیا کسی دوسری زبان میں بھی ایسی نظم نہیں لکھی گئی۔ اسے بھی چھوڑیے، ہم نے احتجاج و انقلاب کو صبح و شام کا وظیفہ تو سمجھا ہے مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ اقبال کے اس شعر کا جواب اب تک کسی سے نہیں بن پڑا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

پروفیسر عبد الحق نے یاد دلایا کہ جنرل ایوب خاں نے اپنی کتاب کا نام رکھا ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘۔ ہندوستان کے دوسرے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ڈاکٹر ذاکر حسین کو تو اقبال بہت عزیز تھے ۔پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقبال سے بہت متاثر تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی ان کے اشعار گنگناتے ہیں۔ ان کے علاوہ کتنے اکابرین ہیں جن کے دلوں میں علامہ اقبال شمع آرزو بن کر مچل رہے ہیں۔ ملک کی چھ بڑی دانش گاہوں میں اقبال کو اعزازی ڈگری کا تفویض کیا جانا بھی ان کی جلیل القدر علمی خدمات کا اعتراف ہے۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر و حیدرآباد کے علاوہ کلکتہ میں اقبال چئیر کا قیام بھی اسی اعتراف کی روشن دلیل ہے۔

اس تقریب کے روح و رواں اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں نے ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے پر دبی زبان میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اب نہ صرف پورے ملک میں بلکہ بیرون ملک ان علاقوں میں بھی جنہیں اردو کی نئی بستیاں کہا جاتا ہے، اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی اردو ڈے منایا جا رہا ہے۔


جامع مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، پروفیسر شریف احمد، پروفیسرمنیر احمد، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر اے آر کاردار اور دہلی کے متعدد صحافیوں اور ادیبوں نے اس تقریب میں علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر علامہ اقبال کی یاد میں ہمیشہ کی مانند ایک یادگار مجلے کا اجرا کیا گیا اور اقبال اور اردو کے نام پر متعدد شخصیات کو ایوارڈز دیے گئے۔

اسی درمیان اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، مدھیا پردیش اور ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منانے کی اطلاع ات موصول ہوئی ہیں۔ اتر پردیش کے قصبہ نگینہ میں اقبال ڈے کے موقع پر ان کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا گیا اور متعدد پروفیسروں اور دانشوروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کو نوبیل انعام ملنا چاہیے تھا۔

علیگڑھ میں یوم اردو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے ایم یو میں شعبہ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل صمدانی نے کہا کہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر، فلسفی، دانشور اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے شخص تھے۔ مرادآباد، دیوبند، سہارنپور اور دوسرے شہروں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منائے جانے کی خبریں ہیں۔ ان تقریبات میں علامہ اقبال کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اردو کو اس کا جائز حق دے۔


published on VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/India-Iqbal-day-70142787.html

فیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی میں یادگار تقریب کا انعقاد

ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور فن کار محبت اور دوستی کا نقیب ہوتا ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اہل دہلی نہ تو احمد فراز کی یاد میں تقریب کا اہتمام کرتے اور نہ ہی فیض احمد فیض کی برسی پر ایک خوبصورت شام منعقد کی جاتی۔

”فیض احمد فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ ہر اس شخص کے شاعر ہیں جو اپنے سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے اور جس کے نزدیک فن اور فن کار کے لئے زمینی سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔“

ان خیالات کا اظہارفیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی کے تین مورتی آڈیٹوریم میں منعقدہ یادگار شام کے شرکا نے کھلے دل کے ساتھ کیا۔اس تقریب کا اہتمام صفدر ہاشمی میمورئل ٹرسٹ (SAHMAT)اور نہرو میموریل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

اس خوب صورت شام کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ معروف کلاسیکی گلوکارہ شُبھامُدگل نے فیض کا کلام اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے سامعین کو سحر زدہ کر دیا۔ انھوں نے فیض احمد فیض کی غزلوں اور نظموں کو اپنی آواز دے کر یہ ثابت کر دیا کہ فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں اور یہ کہ فیض جیسے شعرا ایک صدی میں ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں۔

شبھا مدگل نے جب سحر انگیزموسیقی کے درمیان فیض کی یہ نظم سنائی تو ایک سماں بندھ گیا:

اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچے پہ کسی خواب کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

فیض احمد فیض نے ارضِ وطن کو مخاطب کرکے بھی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں ان کے دردِ دل کی پوری عکاسی ہوئی ہے۔ ایسی ہی ایک نظم جب شُبھا مدگل نے اپنے درد بھرے انداز اور پُر سوز آواز میں پیش کی تو سامعین بھی اس درد کی گہرائی میں ڈوب گئے۔ نظم کا بند ملاحظہ کریں:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلزار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے

محفل اس وقت قہقہہ زار ہو گئی جب شبھا مدگل نے کہا کہ وہ فیض کی ایک طویل نظم سنانا چاہتی ہیں لیکن انھیں اندیشہ ہے کہ سامعین اس کی طوالت سے بور نہ ہو جائیں، اس پر ایک سامع نے ظریفانہ انداز میں کہا کہ ہم بور نہیں ہوں گے کیوں کہ دہلی والے لمبے ٹریفک جام کے عادی ہو چکے ہیں۔

اپنے فن کے مظاہرے کے بعد کلاسیکل سنگر شبھا مدگ ل نے یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے اردو نہیں سیکھی ہے اور نہ ہی وہ اردو زبان کے تلفظ کی باریکیوں اور نزاکتوں سے واقف ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں۔ ان غلطیوں کو درگزر کر دیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ فیض صاحب کی عقیدت مند ہیں اور اسی لیے انھوں نے ان کا کلام گاکر سنانے کا فیصلہ کیا۔بقول ان کے ”پھر میں نے سوچا جب دُسّاہس(جرات بیجا) کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ جم کر کی جائے۔“

انھوں نے خود کو فیض احمد فیض کی مرید اور بھکت بتا کر ان سے اپنی عقیدت کا اظہار بار بار کیا اور کہا کہ انھیں فیض صاحب کا کلام گانے میں عجیب لذت اور طمانیت کا احس اس ہوتا ہے اور اسی لیے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے پروگراموں کا مزید انعقاد کروائیں گی اور ان میں فیض احمد فیض کا کلام گا کر سنائیں گی۔

اس موقع پر فیض احمد فیض کے فن اور ان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور یہ فریضہ ادا کیا پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے۔انھوں نے فیص احمد فیض کی شاعری کے مختلف پہلووں پر ان کی غزلوں اور نظموں پر اظہار خیال کیا۔

اس خوبصورت تقریب میں دہلی کے باذوق حضرات کی بڑی تعداد موجود تھی۔


published at VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/faiz-delhi-shubha-mudgal-21nov09-70695892.html

Thursday, November 19, 2009

مولوی اسما عیل میرٹھی، ایک ہمہ جہت شخصیت

مولوی اسما عیل میرٹھی کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔


تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

ادب سے ہی انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو

یہ اشعار مولوی اسماعیل میرٹھی کے ہیں جو انھوں نے بچوں کے لئے لکھے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف بچوں کے شاعر تھے۔ معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:

”بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لئے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔اسماعیل نے ان کے علاہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معرٰی کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔“

اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔ان کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن ابو بکر صدیقؓ سے جا ملتا ہے۔ ان کے کسی بزرگ نے ترکستان کے قدیم شہر خجند میں سکونت اختیار کی تھی اور وہاں سے آپ کے مورث اعلی میں سے قاضی حمید الدین خجندی بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

مولوی اسما عیل میرٹھی کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد اور غلام مولی قلق میرٹھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اس وقت اردو زبان وادب کی آبیاری کی جب فارسی زبان وادب کا بول بالا تھا۔ مدارس میں فارسی کتابوں کا چلن تھا اور گھروں میں صرف انفرادی طور پر اردو کی تعلیم ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں کی تدریسی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے جس شخص نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی وہ مولوی اسما عیل میرٹھی تھے۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور پہلی سے پانچویں جماعت تک کے لئے اردو کی درسی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ابتدائی جماعتوں کے لئے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا۔ انھوں نے قواعد و زبان پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے لوئر پرائمری، اپر پرائمری اور مڈل جماعتوں کے لئے علاحدہ درسی کتابیں تیار کیں۔ جن میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اسباق شامل کرتے ہوئے ا ن کی عمروں کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ ان کی درسی کتابیں ہزاروں مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔
published on VOAnews.com at

http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/ismael-mirathi-70187807.html

Sunday, November 1, 2009

حضرت امیر خسرو: گنگا جمنی تہذیب کے مینارہٴ نور

حضرت امیر خسرو مشترکہ ثقافت کے مینارہ نور تھے، ان کی علمی وراثت کی بازیافت کی اشد ضرورت ہے، دہلی میں ان کے شایان شان ایک علمی یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں ان پر تحقیقی نوعیت کا کام کیا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار حضرت امیر خسرو کے عرس کے موقعے پر منعقدہ سیمینار میں مقررین نے کیا۔ خواجہ ہال میں منعقد اس سیمینار کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے کی۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عظیم صوفی شاعر اور سیکولر روایات کے علم بردار امیر خسرو کے نام سے دہلی میں ایک مہتم بالشان یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں تحقیقی اور علمی سلسلہ شروع کیا جا سکے۔

انھوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ پچاس برسوں میں امیر خسرو پر کوئی قابل ذکر علمی یا تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے امیر خسرو کی شاعری پر بولتے ہوئے کہا کہ ان کی ہندی یا ہندوی شاعری نے ہر طبقے کے لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان کی شاعری بھی ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی ترجمان تھی اور وہ اپنی صوفیانہ شاعری سے پوری دنیا میں میل جول اور پیار محبت کی فضا قائم کرنا چاہتے تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے مقالے ’دل اور دنیا کا پرنور توازن‘ میں کہا کہ حضرت امیر خسرو ایک عبقری شخصیت کے ملک تھے۔وہ گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ عہد وسطی کی ہندوستانی تاریخ میں بڑے بڑوں کے نام و نشان مٹ گئے لیکن امیر خسرو آج بھی انسانی ذہنوں میں زندہ ہیں۔

اختر الواسع نے امیر خسرو کی شاعری کے پیغام کی عصری معنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انھوں نے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری نے فن شاعری میں جو سنگ میل قائم کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور انھوں نے ہندی، اردو اور فارسی کی آمیزش سے جو شاعری کی ہے وہ انتہائی اعلی و ارفع ہے۔

پروفیسر سید عزیز الدین ہمدانی نے ’حضرت امیر خسرو اور سلطان علاؤالدین خلجی‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ خلجی کے عہد میں علم و فن کو زبردست فروغ حاصل ہوا تھا۔ جس طرح امیر خسرو نے علاؤالدین خلجی کی تعلیمی خدمات کی ستائش کی تھی، اس کے بعد مسلمانوں کے لئے تعلیمی میدان میں فیروز شاہ تغلق، جلال الدین اکبر، سر سید احمد خاں اور حکیم اجمل خاں وغیرہ کے ذریعے انجام دی جانے والی علمی خدمات کی تحسین کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔انھوں نے مزید کہا کہ امیر خسرو نے سات بادشاہوں کا دور دیکھا تھا۔

خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام اس سیمینار میں خواجہ حسن ثانی نظامی نے امیر خسرو کی شاعری، ان کی تہذیبی روایات، مشترکہ ثقافت کے تئیں ان کی کوششوں اور ان کے کمالات پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی۔ان کے علاوہ پروفیسر شریف الحسن قاسمی اور دوسرے مقالہ نگاروں نے امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا اور متعددشعرا نے اپنے کلام کے ذریعے امیر خسرو کو خراج عقیدت پیش کیا۔قابل ذکر ہے کہ اس وقت حضرت نظام الدین میں محبوب الٰہی کے مزار کے قریب واقع امیر خسرو کے مزار پر ان کا 705واں عرس چل رہا ہے اور اس موقع کی مناسبت سے ”حضرت امیر خسرو، حیات و کمالات“ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔
published on VOAnews.com at http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/amir-khusrau-urs-8oct09-63758947.html