Saturday, August 29, 2009

احمد فراز ہند پاک دوستی اور ہم آہنگی کی علامت تھے: گوپی چند نارنگ

شاعرِ دل نواز احمد فراز کی پہلی برسی کے موقعے پر دہلی میں فراز کے چاہنے والوں نے ایک انتہائی اہم اور باوقار تقریب کا اہتمام کیا، جس میں احمد فراز کو یاد کیا گیا اور ان کے کلام سے بھی لطف اندوز ہونے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان کے معروف شاعر احمد فراز کو ہندوستان میں بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل تھی جتنی پاکستان میں۔ وہ جب ہندوستان کے دورے پر آتے توہفتوں اور مہینوں یہیں کے ہوکر رہ جاتے تھے۔ ان کے قدردانوں کی جانب سے مشاعروں اور شعری نشستوں کا اہتمام اس قدر کیا جاتا تھا کہ ان کو واپس جانے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔

احمد فراز بھی ہندوستان اور یہاں کے انسانیت دوست عناصر اور سخن فہم افراد سے بڑی محبت رکھتے تھے اور دونوں ملکوں میں پیار و محبت کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔

احمد فراز کی یاد میں ہونے والی اس تقریب کا اہتمام ’فاؤنڈیشن آف کلچر اینڈ لٹریچر‘ اور ’سانجھے رنگ‘ نے مشترکہ طور پر ’ایک شام، دوستی کے نام‘ کے عنوان سے تین مورتی آڈیٹوریم میں کیا تھا۔ اس تقریب میں دارالحکومت کی انتہائی معزز شخصیات نے شرکت کی۔

تقریب کے مہمان خصوصی اور عالمی شہرت کے حامل دانش ور اور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے خطبے میں احمد فراز کی شخصیت اور ان کے کلام پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ احمد فراز انسانیت اور دوستی کے نقیب اور سفیر تھے۔ ان کو صرف ہندوستان اور پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ ان کی شہرت سرحدوں کی پابند نہیں بلکہ وہ انسانی ہاتھوں سے کھینچی گئی سرحدوں سے بے نیاز اور پرے تھی۔احمد فراز ہندوستان اور پاکستان کے مابین دوستی، رفاقت، محبت اور پیار و ہم آہنگی کی علامت بن گئے تھے۔

پدم بھوشن گوپی چند نارنگ نے مزید کہا کہ کسی بھی شاعر کا بہترین تعارف اس کا کلام ہوتا ہے، باقی جو کچھ ہم شاعر کے بارے میں کہتے ہیں وہ محض لفاظی ہوتی ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ اس شہر میں فراز کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ دہلی والوں نے ان کو فراموش نہیں کیا ہے، ان کی یادوں کو تازہ رکھا ہے۔

پروفیسر نارنگ کے مطابق بیسویں صدی میں پاکستان کے تمام بڑے شاعروں کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن احمد فراز کی زبان پشتو تھی، اس کے باوجود انہوں نے اردو میں ایسی شاعری کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقعے پر انہوں نے احمد فراز اور فیض احمد فیض کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی ایسے شاعر تھے جنہیں ان کی زندگی ہی میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔گوپی چند نارنگ نے احمد فراز کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی اور ان کے بعض چنندہ اشعار بھی پیش کیے۔

اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور آئی سی سی آر کے وائس چیرمین سید شاہد مہدی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں احمد فراز کے اشعار کے حوالے سے بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ احمد فراز کلاسیکی روایت کے منفرد شاعر تھے، جنھوں نے اپنے اشعار کے ذریعے ناانصافی، سماجی ناہمواری اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کی۔

ان کی شاعری میں رومانیت کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی ہے اور احتجاج بھی ہے۔سید شاہد مہدی نے مزید کہا کہ احمد فراز ہمہ وقت شاعر تھے اور اپنے منفرد لب و لہجے سے انہوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی تھی۔احمد فراز محض ہند و پاک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول تھے۔

دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس اتاشی شاہ زماں، ہمایوں ظفر زیدی، اکھلیش متل اور نیتو سنگھ نے بھی اظہارِ خیال کیا، جب کہ شرکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن، معروف صحافی سعید نقوی، پروفیسر اختر مہدی، پروفیسر چمن لال، پروفیسر مدن گوپال، جاوید نقوی اور عظمیٰ صدیقی قابل ذکر ہیں۔اس موقع پر ایک پروجیکٹر کے ذریعے احمد فراز کو کلام سناتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔

احمد فراز بلا شبہ ہند پاک دوستی کے بہت بڑے مبلغ اور خواہش مند تھے اور نہ صرف اشعار کے ذریعے بلکہ ذاتی گفتگو میں بھی وہ اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی، پاکستان بن گیا، ملکوں کے بیچ دیواریں اٹھ گئیں، غلط ہوا یا صحیح، جو ہو گیا ہو گیا، لیکن یہ نفرت کیوں بڑھ رہی ہے۔ ان نفرتوں کو کم کرنے کے لیے ہم دونوں ملکوں کے بیچ قائم دیواروں میں دروازے کیوں نہیں بنا لیتے، تاکہ جب سرحد کے اس پار ٹھنڈی ہوا چلے تو ہم بھی اس کا احساس کریں۔اور اس طرف بارش ہو تو بوچھار ادھر بھی جا سکے۔وہ ہمیشہ ہندوستانی جمہوریت کی تعریف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہند پاک دوستی کے لیے پاکستان میں بھی جمہوریت کا قیام ضروری ہے۔

یہاں کے لوگ کس قدر ان کے کلام کو پسند کرتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو جائے گا جو ظہیر زیدی نے سنایا ہے۔ان کے مطابق انہوں نے 15اپریل 2008ء کو انڈیا ہیبٹیٹ سینٹر میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا جس میں احمد فراز کو سننے کے لیے متعدد مرکزی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ نرملا دیش پانڈے اوررام جیٹھ ملانی وغیرہ موجود تھے۔

اسی روز سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر گرجا ویاس کی سالگرہ اودے پور میں منائی جا رہی تھی، لیکن وہ احمد فراز کو سننے کے لیے دہلی پہنچیں اور دوسرے دن انہیں چائے پر مدعو کرکے راکھی باندھی تو احمد فراز کی آنکھوں میں جذبات کے آنسو امنڈ پڑے۔اسی روز وزارتِ خارجہ میں سکریٹری کے کے مینن نے انہیں چائے پر مدعو کیا اورمشاعرے میں نہ پہنچنے پر معذرت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اب تو پاکستان میں جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ ہم سب مل کر ہند پاک دوستی کے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلیں۔اس پر احمد فراز نے پورا تعاون دینے کا یقین دلایا۔اور لال قلعے میں مشاعرے کا منصوبہ بنا۔اسی درمیان کشمیر میں ایک مشاعرے کے انعقاد کا فیصلہ لیا گیا تھا اور اس سے احمد فراز کو باخبر کیا گیا تو وہ بہت حوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ وہ ہند پاک دوستی اور کشمیر میں امن کے لیے ایک نظم لکھیں گے۔ لیکن وقت نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
published on VOAnews.com/urdu