Sunday, November 1, 2009

حضرت امیر خسرو: گنگا جمنی تہذیب کے مینارہٴ نور

حضرت امیر خسرو مشترکہ ثقافت کے مینارہ نور تھے، ان کی علمی وراثت کی بازیافت کی اشد ضرورت ہے، دہلی میں ان کے شایان شان ایک علمی یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں ان پر تحقیقی نوعیت کا کام کیا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار حضرت امیر خسرو کے عرس کے موقعے پر منعقدہ سیمینار میں مقررین نے کیا۔ خواجہ ہال میں منعقد اس سیمینار کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے کی۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عظیم صوفی شاعر اور سیکولر روایات کے علم بردار امیر خسرو کے نام سے دہلی میں ایک مہتم بالشان یادگار قائم کی جانی چاہیئے جہاں تحقیقی اور علمی سلسلہ شروع کیا جا سکے۔

انھوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ پچاس برسوں میں امیر خسرو پر کوئی قابل ذکر علمی یا تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے امیر خسرو کی شاعری پر بولتے ہوئے کہا کہ ان کی ہندی یا ہندوی شاعری نے ہر طبقے کے لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان کی شاعری بھی ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی ترجمان تھی اور وہ اپنی صوفیانہ شاعری سے پوری دنیا میں میل جول اور پیار محبت کی فضا قائم کرنا چاہتے تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے مقالے ’دل اور دنیا کا پرنور توازن‘ میں کہا کہ حضرت امیر خسرو ایک عبقری شخصیت کے ملک تھے۔وہ گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ عہد وسطی کی ہندوستانی تاریخ میں بڑے بڑوں کے نام و نشان مٹ گئے لیکن امیر خسرو آج بھی انسانی ذہنوں میں زندہ ہیں۔

اختر الواسع نے امیر خسرو کی شاعری کے پیغام کی عصری معنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انھوں نے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری نے فن شاعری میں جو سنگ میل قائم کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور انھوں نے ہندی، اردو اور فارسی کی آمیزش سے جو شاعری کی ہے وہ انتہائی اعلی و ارفع ہے۔

پروفیسر سید عزیز الدین ہمدانی نے ’حضرت امیر خسرو اور سلطان علاؤالدین خلجی‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ خلجی کے عہد میں علم و فن کو زبردست فروغ حاصل ہوا تھا۔ جس طرح امیر خسرو نے علاؤالدین خلجی کی تعلیمی خدمات کی ستائش کی تھی، اس کے بعد مسلمانوں کے لئے تعلیمی میدان میں فیروز شاہ تغلق، جلال الدین اکبر، سر سید احمد خاں اور حکیم اجمل خاں وغیرہ کے ذریعے انجام دی جانے والی علمی خدمات کی تحسین کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔انھوں نے مزید کہا کہ امیر خسرو نے سات بادشاہوں کا دور دیکھا تھا۔

خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام اس سیمینار میں خواجہ حسن ثانی نظامی نے امیر خسرو کی شاعری، ان کی تہذیبی روایات، مشترکہ ثقافت کے تئیں ان کی کوششوں اور ان کے کمالات پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی۔ان کے علاوہ پروفیسر شریف الحسن قاسمی اور دوسرے مقالہ نگاروں نے امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا اور متعددشعرا نے اپنے کلام کے ذریعے امیر خسرو کو خراج عقیدت پیش کیا۔قابل ذکر ہے کہ اس وقت حضرت نظام الدین میں محبوب الٰہی کے مزار کے قریب واقع امیر خسرو کے مزار پر ان کا 705واں عرس چل رہا ہے اور اس موقع کی مناسبت سے ”حضرت امیر خسرو، حیات و کمالات“ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔
published on VOAnews.com at http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/amir-khusrau-urs-8oct09-63758947.html

No comments:

Post a Comment