Sunday, November 22, 2009

علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ہندوستان بھر میں یوم اردو کا انعقاد

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے 132ویں یوم پیدائش پرنو نومبر کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں اہم تقریب دارالسلطنت دہلی میں منعقد ہوئی۔ آل انڈیا اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام گذشتہ پندرہ برسوں سے یوم اقبال پر یوم اردو کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اب یہ سلسلہ رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔

غالب اکیڈمی میں منعقد ہ اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ نے انتہائی شستہ اردو میں علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان کے متعدد اشعار کے حوالے سے کہا کہ علامہ اقبال نے اتحاد و یگانگت کا درس دیا ہے اختلاف و انتشار کا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ کیا کوئی اور شاعر ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسی نظم لکھ سکتا ہے۔ تیجندر کھنہ نے کہا کہ صرف یوم اقبال یا یوم اردو منانے سے اقبال کے لئےعقیدت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اقبال کے پیغام کو عام کریں اور ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘کے پیغام کو عملی انداز میں اپنی زندگی میں منتقل کریں۔ لیفٹیننٹ گورنر نے اقبال کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت اور قتل و خوں ریزی نہیں سکھاتا اور اسلام تو امن و شانتی کا مذہب ہے۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے کہا کہ یہ زبان ایک شیریں زبان ہے اور وہ اس کا وعدہ کرتے ہیں کہ دہلی میں اردو کو اس کا حق دلانے میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔

دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں۔ انھوں نے 1923میں افغانستان کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا اور کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کے جسم کی حیثیت رکھتا ہے اور افغان عوام اس جسم کے دل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر افغانستان میں شورش ہوگی تو پورا ایشیا اضطراب میں مبتلا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج دیکھ لیجئے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اورایشیا پر اس کے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیںں۔

پروفیسر عبد الحق نے مزید کہا کہ یوں تو دنیا میں سات عجوبے ہیں لیکن اگر ان میں آٹھویں عجوبے کا اضافہ کیا جائے تو بلا شبہ وہ علام اقبال ہوں گے۔ وہ اور ان کی شاعری کسی عجوبے سے کم نہیں اور ان کی شاعری نے جو آفاقی پیغام دیا ہے وہ کسی اردو شاعر نے نہیں دیا ہے۔

اقبال کے بارے میں ان کے ایک نکتہ چیں مجنوں گورکھپوری کو کہنا پڑا تھا کہ دنیا میں کبھی کبھی ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے زمانے کے میلانات کے تابع ہوتی ہیں بلکہ خود ان پر قادر بھی ہوتی ہیں۔ وہ مروجہ دھاروں کے رخ کو نئی سمتوں میں موڑ دیتی ہیں۔ اقبال کا شمار بھی انہی ہستیوں میں ہوگا۔ وہ اپنے زمانے کے مخلوق تھے مگر ایک نئے زمانے کے خالق بھی تھے۔ اسی طرح فراق گورکھپوری کا یہ اقرار بھی دلچسپ ہے کہ ایشیا بھر کے شاعر مل کر اقبال کی اس غزل کا جواب نہیں لکھ سکتے:

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا

انھوں نے اقبال کی شاعری کے رموز و نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال ایک عوامی شاعر بھی ہیں اور ان کا یہ مصرع تو زبان زد عام ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔

اس کے علاوہ دیہات کے ان پڑھ لوگ بھی لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ نظم سے بخوبی واقف ہیں۔ علامہ نے 1904میں نظم ’ ترانہ ہندی ‘ تخلیق کی تھی اور اس نظم کا ایک مصرعہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ خلانورد راکیش شرما کی زبان سے بالائے قمر تک پہنچا تھا۔ انھوں نے 27سال کی عمر میں یہ نظم لکھی تھی اور آج تک اردو کیا کسی دوسری زبان میں بھی ایسی نظم نہیں لکھی گئی۔ اسے بھی چھوڑیے، ہم نے احتجاج و انقلاب کو صبح و شام کا وظیفہ تو سمجھا ہے مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ اقبال کے اس شعر کا جواب اب تک کسی سے نہیں بن پڑا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

پروفیسر عبد الحق نے یاد دلایا کہ جنرل ایوب خاں نے اپنی کتاب کا نام رکھا ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘۔ ہندوستان کے دوسرے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ڈاکٹر ذاکر حسین کو تو اقبال بہت عزیز تھے ۔پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقبال سے بہت متاثر تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی ان کے اشعار گنگناتے ہیں۔ ان کے علاوہ کتنے اکابرین ہیں جن کے دلوں میں علامہ اقبال شمع آرزو بن کر مچل رہے ہیں۔ ملک کی چھ بڑی دانش گاہوں میں اقبال کو اعزازی ڈگری کا تفویض کیا جانا بھی ان کی جلیل القدر علمی خدمات کا اعتراف ہے۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر و حیدرآباد کے علاوہ کلکتہ میں اقبال چئیر کا قیام بھی اسی اعتراف کی روشن دلیل ہے۔

اس تقریب کے روح و رواں اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں نے ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے پر دبی زبان میں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کے یوم پیدائش پر اردو ڈے منانے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اب نہ صرف پورے ملک میں بلکہ بیرون ملک ان علاقوں میں بھی جنہیں اردو کی نئی بستیاں کہا جاتا ہے، اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی اردو ڈے منایا جا رہا ہے۔


جامع مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، پروفیسر شریف احمد، پروفیسرمنیر احمد، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر اے آر کاردار اور دہلی کے متعدد صحافیوں اور ادیبوں نے اس تقریب میں علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر علامہ اقبال کی یاد میں ہمیشہ کی مانند ایک یادگار مجلے کا اجرا کیا گیا اور اقبال اور اردو کے نام پر متعدد شخصیات کو ایوارڈز دیے گئے۔

اسی درمیان اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، مدھیا پردیش اور ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منانے کی اطلاع ات موصول ہوئی ہیں۔ اتر پردیش کے قصبہ نگینہ میں اقبال ڈے کے موقع پر ان کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا گیا اور متعدد پروفیسروں اور دانشوروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کو نوبیل انعام ملنا چاہیے تھا۔

علیگڑھ میں یوم اردو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے ایم یو میں شعبہ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل صمدانی نے کہا کہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر، فلسفی، دانشور اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے شخص تھے۔ مرادآباد، دیوبند، سہارنپور اور دوسرے شہروں سے بھی یوم اقبال اور یوم اردو منائے جانے کی خبریں ہیں۔ ان تقریبات میں علامہ اقبال کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اردو کو اس کا جائز حق دے۔


published on VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/India-Iqbal-day-70142787.html

No comments:

Post a Comment