Sunday, November 22, 2009

فیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی میں یادگار تقریب کا انعقاد

ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور فن کار محبت اور دوستی کا نقیب ہوتا ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اہل دہلی نہ تو احمد فراز کی یاد میں تقریب کا اہتمام کرتے اور نہ ہی فیض احمد فیض کی برسی پر ایک خوبصورت شام منعقد کی جاتی۔

”فیض احمد فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ ہر اس شخص کے شاعر ہیں جو اپنے سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے اور جس کے نزدیک فن اور فن کار کے لئے زمینی سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔“

ان خیالات کا اظہارفیض احمد فیض کی 25ویں برسی پر دہلی کے تین مورتی آڈیٹوریم میں منعقدہ یادگار شام کے شرکا نے کھلے دل کے ساتھ کیا۔اس تقریب کا اہتمام صفدر ہاشمی میمورئل ٹرسٹ (SAHMAT)اور نہرو میموریل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

اس خوب صورت شام کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ معروف کلاسیکی گلوکارہ شُبھامُدگل نے فیض کا کلام اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے سامعین کو سحر زدہ کر دیا۔ انھوں نے فیض احمد فیض کی غزلوں اور نظموں کو اپنی آواز دے کر یہ ثابت کر دیا کہ فیض صرف پاکستان کے ہی شاعر نہیں ہیں اور یہ کہ فیض جیسے شعرا ایک صدی میں ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں۔

شبھا مدگل نے جب سحر انگیزموسیقی کے درمیان فیض کی یہ نظم سنائی تو ایک سماں بندھ گیا:

اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچے پہ کسی خواب کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

فیض احمد فیض نے ارضِ وطن کو مخاطب کرکے بھی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں ان کے دردِ دل کی پوری عکاسی ہوئی ہے۔ ایسی ہی ایک نظم جب شُبھا مدگل نے اپنے درد بھرے انداز اور پُر سوز آواز میں پیش کی تو سامعین بھی اس درد کی گہرائی میں ڈوب گئے۔ نظم کا بند ملاحظہ کریں:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلزار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے

محفل اس وقت قہقہہ زار ہو گئی جب شبھا مدگل نے کہا کہ وہ فیض کی ایک طویل نظم سنانا چاہتی ہیں لیکن انھیں اندیشہ ہے کہ سامعین اس کی طوالت سے بور نہ ہو جائیں، اس پر ایک سامع نے ظریفانہ انداز میں کہا کہ ہم بور نہیں ہوں گے کیوں کہ دہلی والے لمبے ٹریفک جام کے عادی ہو چکے ہیں۔

اپنے فن کے مظاہرے کے بعد کلاسیکل سنگر شبھا مدگ ل نے یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے اردو نہیں سیکھی ہے اور نہ ہی وہ اردو زبان کے تلفظ کی باریکیوں اور نزاکتوں سے واقف ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں۔ ان غلطیوں کو درگزر کر دیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ فیض صاحب کی عقیدت مند ہیں اور اسی لیے انھوں نے ان کا کلام گاکر سنانے کا فیصلہ کیا۔بقول ان کے ”پھر میں نے سوچا جب دُسّاہس(جرات بیجا) کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ جم کر کی جائے۔“

انھوں نے خود کو فیض احمد فیض کی مرید اور بھکت بتا کر ان سے اپنی عقیدت کا اظہار بار بار کیا اور کہا کہ انھیں فیض صاحب کا کلام گانے میں عجیب لذت اور طمانیت کا احس اس ہوتا ہے اور اسی لیے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے پروگراموں کا مزید انعقاد کروائیں گی اور ان میں فیض احمد فیض کا کلام گا کر سنائیں گی۔

اس موقع پر فیض احمد فیض کے فن اور ان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور یہ فریضہ ادا کیا پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے۔انھوں نے فیص احمد فیض کی شاعری کے مختلف پہلووں پر ان کی غزلوں اور نظموں پر اظہار خیال کیا۔

اس خوبصورت تقریب میں دہلی کے باذوق حضرات کی بڑی تعداد موجود تھی۔


published at VOAnews.com at
http://www1.voanews.com/urdu/news/arts-entertainment/faiz-delhi-shubha-mudgal-21nov09-70695892.html

No comments:

Post a Comment