Saturday, December 12, 2009

مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی ناقابل فراموش خدمات

ہندوستان میں ہمدرد دواخانہ کے بانی حکیم عبد الحمید غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں نمایاں کوششیں کی تھیں ۔ انھوں نے ہی مزار سے متصل ایک بڑا قطعہ اراضی خرید کر اس پر غالب اکیڈمی کی تعمیر کروائی۔ غالب پر ان کی مرتب کردہ تین کتابیں ’حالات غالب‘ ’مطالعات خطوط غالب‘ اور ’مطالعات کلام غالب‘ شائع ہوئی ہیں۔جبکہ غالب اکیڈمی میں ان کی کوششوں سے قائم غالب میوزیم لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے ہوئے ہے۔

دارالسلطنت نئی دہلی کے علاقے بستی حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی میں گذشتہ روز ’مطالعات غالب میں حکیم عبد الحکیم کی خدمات‘ کے زیر عنوان ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشین خواجہ حسن ثانی نظامی نے، جو کہ حکیم عبد الحکیم کے ایک قریبی دوست رہے ہیں، کلیدی خطبہ پیش کیا اور مطالعات غالب میں حکیم صاحب کی خدمات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب کے بہت بڑے مداح تھے۔ اسی لئے انھوں نے مزار غالب سے متصل غالب اکیڈمی قائم کی تاکہ غالب کی تفہیم و ترویج میں مدد مل سکے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے چندے کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح بہت سے لوگوں نے ان کے مزار کے لیے چندے جمع کیے اور ہضم کر گئے۔ انھوں نے مزار غالب کی تعمیر کے سلسلے میں فلم ساز سہراب مودی کے تعاون سے متعلق پھیلی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں کوئی تعاون نہیں دیا تھا۔ ان کا تعاون بس اتنا تھا کہ انھوں نے مزار غالب پر چادر چڑھائی اور وہاں کھڑے ہو کر تصویر بنوا ئی۔ اور اس طرح ایک غلط فہمی پھیل گئی۔

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے غالب سے حکیم عبد الحمید کی محبت اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غالب اکیڈمی کے قیام کا منصوبہ انھوں نے 1935ہی میں بنا لیا تھا۔ اسی سال انھوں نے مطالعات غالب کی خاطر غالب اکیڈمی قائم کرنے کے لیے مزار غالب سے متصل ایک قطعہ اراضی خریدا۔ بعد میں اس پر ’غالب اکیڈمی‘ کے نام سے ایک تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی اور غالب صدی تقریبات کے دوران 22فروری 1969کو اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔اسی موقع پر یوسف حسین مرحوم کی کتاب ’غالب اور آہنگ غالب‘، ہندی میں ’سرل غالب‘ اور انگریزی میں ’نوائے سروش‘ کے نام سے غالب پر تین کتابیں غالب اکیڈمی سے شائع کی گئیں۔غالب اکیڈمی کی جانب سے غالب پر اب تک دو درجن سے زائد کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔

ڈاکٹر عقیل نے مزید بتایا کہ حکیم صاحب کے ذاتی ذخیرے سے غالب اکیڈمی کی عمارت میں میوزیم اور لائبریری بھی قائم کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ حکیم صاحب نے غالب کے کلام کو موسیقی کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی اور انہی کی کوششوں سے موسیقی کے ساتھ کلام غالب گانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کئی سالوں سے اب بھی جاری ہے۔ حکیم صاحب نے غالب کی غزلوں کے کیسٹ اور فلاپی بھی بنوائی تھی (اس وقت سی ڈی کا رواج شروع نہیں ہوا تھا)۔اس طرح انھوں نے موسیقی کی مدد سے غالب کی غزلوں کو پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔

حکیم صاحب 1935سے ہی غالب پر لکھی گئی تحریریں یکجا کرتے رہے اور ان کو مختلف عنوانات کے تحت فائلوں میں محفوظ کرتے رہے ہیں۔انہی فائلوں کے مضامین کے انتخاب سے تین کتابیں غالب کی سوانح، غالب کی نثر اور غالب کی شاعری ترتیب پائی تھیں۔پہلی کتاب 1999میں ’حالات غالب‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد دوسری کتاب ’مطالعات خطوط غالب‘ حکیم صاحب کے سوویں یوم پیدائش پر شائع کی گئی اور اب تیسری کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ غالب اکیڈمی نے شائع کی ہے۔

ہمدرد آرکائیوز ریسرچ سینٹرکے ڈائرکٹر سید اوصاف علی نے بھی، جنھوں نے چالیس سال تک حکیم عبد الحمید کے ساتھ کام کیا ہے، غالب سے حکیم صاحب کی عقیدت و محبت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب غالب میوزیم قائم کرنے کے سلسلے میں بہت پرجوش تھے۔انھوں نے غالب کی پسندیدہ اشیاکو یکجا کرواکر میوزیم میں رکھوایا۔ یہاں تک کہ غالب کو بخارہ کی خمیری روٹی بہت پسند تھی ،لہذا جب میں ایک پروگرام کے تحت بخارا گیا تو حکیم صاحب نے مجھ سے وہاں کی روٹی منگوائی اور وہ روٹی آج بھی میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔

اس میوزیم میں غالب کے پسندیدہ کھانوں کے علاوہ غالب کے لباس بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کا ایک قد آدم مجسمہ اور یہاں تک کہ اس ڈومنی کا بھی مجسمہ نصب ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غالب کی محبوبہ تھی۔ اس کے علاوہ ایک مصور برجیندر سیال نے غالب کے اشعار کے مفہوم کو سنگ ریزوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر :

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اس شعر کے مفہوم کو اجاگر کرنے کے لئے ایسے سمندری پتھر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے رکھے ہوئے ہیں جو انسانی شبیہ کا تصور اور مذکورہ شعر کا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔

اس پروگرام میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے بھی مطالعات غالب میں حکیم عبد الحمید کی خدمات پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر غالب اکیڈمی سے شائع کتاب ’مطالعات کلام غالب‘ کی رسم رونمائی بھی ہوئی، جس میں خواجہ حسن ثانی نظامی، گلزار دہلوی، سید اوصاف علی، ڈاکٹر عقیل احمد اور دوسرے لوگ شامل تھے۔

اس کتاب میں کل چالیس مضامین ہیں جو 1953سے لے کر 1998تک کے دوران مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ مضمون نگاروں میں پروفیسر سید احتشام حسین، ماہر غالبیات مالک رام، ظ۔ انصاری، پروفیسر آل احمد سرور، سید عابد علی عابد، وحید قریشی، فرمان فتح پوری، کالی داس گپتا رضا، گیان چند جین، جگن ناتھ آزاد اور سید مسعود حسین رضوی ادیب جیسے نامور قلمکار اور ماہرین غالبیات شامل ہیں۔

No comments:

Post a Comment