Tuesday, December 29, 2009

محمد رفیع اور مدھو بالا کی یاد میں خوبصورت تقریب کا اہتمام

دہلی کے فلم ڈویژن میں فلمی دنیا کی دو عظیم شخصیات کی یاد میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔ یہ دو عظیم شخصیات تھیں مایہ ناز گلوکار محمد رفیع اور یگانہ روزگار اداکارہ مدھوبالا۔ موقع تھا محمد رفیع کے یوم پیدائش کا اور مدھوبالا کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا۔

فلم ڈویژن آڈیٹوریم میں منعقدہ اس پروگرام میں دار الحکومت دہلی کی ادب نواز اور ثقافت پسند شخصیات موجود تھیں۔ تقریب میں محمد رفیع پرایک فلم دکھائی گئی جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ 70منٹ کی اس فلم کا نام ہے ’رفیع تم بہت یاد آئے‘۔ اس کے ہدایت کار فلم ڈویژن کے سربراہ کلدیپ سنہا ہیں۔

اس موقع پر کلدیپ سنہا نے کہا کہ محمد رفیع کی زندگی پر فلم بنانا ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اوراب اس خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ 1980میں محمد رفیع کے انتقال کے بعد ہی سے وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس بارے میں انھوں نے معروف موسیقار نوشاد سے بھی گفتگو کر رکھی تھی اور انھوں نے اس فلم کی تیاری میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر فلم نہیں بن سکی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں محمد رفیع کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کے مختلف پہلووں، ان کی جد و جہد، ان کی کامیابیوں، اہم گیتوں اور اس بارے میں فلمی دنیا سے متعلق اہم شخصیات کے خیالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

اس تقریب میں رفیع میمورئیل کی جانب سے محمد رفیع کے نغموں اور زندگی کے مختلف پہلووں پر ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں یادگار رفیع اور سکھا فاونڈیشن کے سربراہ امرجیت سنگھ کوہلی، دور درشن کے سابق ڈائریکٹر شرد دت اور متعدد ماہرین گلوکاری نے محمد رفیع کی زندگی اور ان کی گلوکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جبکہ مشرق کی وینس کہلانے والی ملکہ حسن اور یگانہ روزگاراداکارہ مدھوبالا کی سوانح حیات کی تقریب رونمائی ہوئی۔

کتاب ’ مدھوبالا: درد کا سفر‘ کی مصنفہ سشیلا کماری نے کہا کہ وہ ایک عرصے سے اس کتاب کی تصنیف کا خیال دل میں پالے ہوئے تھیں اور اب جاکر انھوں نے مدھوبالا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھوں نے مایہ ٴناز اداکارہ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھوبالا نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر نہ صرف اپنے حسن کی بلکہ اپنی اداکاری کی بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ لیکن نہ تو ان کی زندگی میں ان کی قدر افزائی ہوئی اور نہ ہی دنیا سے جانے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ حالانکہ وہ اس کی حقدار تھیں۔ مدھو بالا کو ان کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ جب کہ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مشہورِ ِ زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کا جادو جگا چکی تھیں۔ لیکن اس فلم کے لئے بھی ان کی عزت افزائی نہیں کی گئی۔

جبکہ بھارتیندو ہریش چندر ایوارڈ یافتہ مصنفہ نے کہا کہ مدھو بالا کی ہوش ربا خوبصورتی اور ان کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور ان کی شوخیوں کو دیکھ کر ہر کوئی سوچتا تھا کہ ان کی دنیا بڑی خوبصورت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں اور پیار کی دولت سے کوسوں دورتھی۔ انھیں تو زندگی بھر دکھ درد، غم و الم، تنہائی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ ان مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا درد پوشیدہ ہے۔

ا س تقریب میں رکن پارلیمنٹ راشد علوی نے مدھوبالا کی زندگی کو سامنے لانے کی کوشش کو ایک اہم واقعہ قرار دیا اورکہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مقبولیت عارضی اورلمحاتی جبکہ فنکاروں اور ادیبوں کی مقبولیت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مدھوبالا جیسے فنکار اعزازات سے محروم رہنے کے باوجود صدیوں تک عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

مدھوبالا نے انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان جیسا بے پناہ حسن اور ان کے اندر اداکاری کا جو جوہر تھا وہ صدیوں میں کہیں کسی کو ملتا ہے۔ مدھوبالا کی زندگی کے بیشتر پہلووں سے لوگ لاعلم ہیں اور انہی مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے۔

خیال رہے کہ مدھوبالا نے مغل اعظم، محل، ہاف ٹکٹ، امر، پھاگن، چلتی کا نام گاڑی اور ہوڑہ برج جیسی متعد دفلموں میں اپنی خوبصورتی اوراداکاری سے لوگوں کے دل جیتے تھے۔

مدھوبالا بچپن ہی سے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا تھیں اور 36سال کی کم عمری میں انھوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔ لیکن ان کی اداکاری اس وقت تک شائقین پر اپنا جادو جگاتی رہے گی جب تک کہ فلمی دنیا قائم ہے۔

No comments:

Post a Comment