Wednesday, May 25, 2011

آخر یہ کیسا انتقام ہے

جو اپنوں کے خون کا پیاسا ہے؟



جب انتقام کی لہریں موج خوں بن کر اپنوں کے سروں سے گزرنے لگیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ آخر یہ کیسا انتقام ہے جس کی پیاس اپنوں کے خون سے بھی نہیں بجھ رہی ؟ جب عبادت گاہوں، درگاہوں، مذہبی جلوسوں اور پر امن آبادیوں اور شاہراہوں پر خود کش حملے کرکے بے قصور اور معصوم انسانو ں کے لہو کے دریا بہائے جائیں تو سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیسا جہاد ہے جو بربریت کی داستانیں رقم کر رہا ہے ؟ آپریشن ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اسلام کے ان ’’مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں‘‘ نے انتقام لینے کی جو دھمکی دی تھی اس کو اپنے ہی دینی بھائیوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس واقعہ کے بعد سے اب تک کم از کم سو بے قصوروں کو انتقام کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے لیکن پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں اور آگ ہے کہ ٹھنڈی ہوتی ہی نہیں۔ القاعدہ او ر طالبان نے جو اپنا الگ اسلام بنایا ہے اس میں خود کشی شہادت ہے اور ظلم وبربریت باعث ثواب ہے۔ اس اسلام نے جس نے جنگ میں بھی نہتوں پر حملے کو ممنوع قرار دیا تھا، جس نے عورتوں ، بچوں، ضعیفوں اور بیماروں کے تحفظ کی ہدایت کی تھی، جس نے پناہ مانگنے والے کو پناہ دینے کی تلقین کی تھی، جس نے دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے سے روکا تھا، اسی اسلام کے ایسے ماننے والے پیدا ہو گئے ہیں جو ان ہدایات کی خلاف ورزی کو عین اسلام سمجھتے ہیں اور جو خلاف شرع کارناموں کو عین شریعت اسلامیہ قرار دیتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو امریکی کمانڈوز نے ہلاک کیا تھا اور اسامہ کے پیرو اسلام کے پیرؤوں کو مار رہے ہیں اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ وہ اسامہ کی موت کا انتقام لے رہے ہیں۔

انتقام کی یہ آگ نائن الیون کے بعد امریکی فوجی کارروائیوں کے بعد سے ہی بھڑک رہی ہے۔ القاعدہ کے ’’مجاہدین‘‘ مختلف ملکوں میں بے قصوروں کو نشانہ بنا رہے ہیں او ر بقول خود اسلام کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ یوں تو ہندوستان سمیت دوسرے ملکوں میں جانے کتنی کارروائیاں کی گئی ہیں اور کتنے ہی بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے لیکن مملکت خداداد پاکستان میں، جو کہ اسلام کے ان نئے نام لیواؤں کا منبع و مرکز بن گیا ہے، انسانی لہو کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک کم وبیش پینتیس ہزار لوگوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے، ہزاروں خواتین بیوہ، ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں ضعیف بڑھاپے کی لاٹھی کے محتاج ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ روز وشب ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور یہ ایسی داستان غم ہے کہ مختصر ہی نہیں ہو رہی۔ ہم انسانی جانوں کے مینار بنانے، مسلم سروں کی پکی ہوئی فصلیں کاٹنے اور مسلمانوں کے لہو سے دجلہ وفراط کو رنگین کر دینے کے تاریخی واقعات کا ذکر با چشم نم کرتے ہیں اور ان واقعات پر بین وماتم بھی کرتے ، ہیں لیکن کیا پینتیس ہزار انسانوں کی لاشوں سے مینار نہیں بنائے جا سکتے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ درجنوں مینار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں اور درجنوں قبرستانیں آباد ہو سکتی ہیں۔ لیکن کشت وخون کا بازار ہے کہ اب تک گرم ہے، لاشیں ہیں کہ اب تک گر رہی ہیں، دھرتی کی مانگ کو انسانی خون سے رنگنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور مذہب اسلام اپنے ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کے کارناموں سے شرمسار ہے۔ برسات تو ہر سال آتی ہے، گلی کوچے بارش کے پانی سے سال بہ سال شرابور ہوتے ہیں، دریاؤں میں طغیانیاں بھی آتی ہیں اور سیلابوں سے زمین کا چہرہ بھی دھل اٹھتا ہے لیکن انسانی خون کے دھبے نہ مٹنے کے ہیں نہ مٹ رہے ہیں۔ ہم اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کیے جانے والے اپنے دوسرے بھائیوں کی لاشوں سے اٹھنے والے تعفن کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے ہی جگر گوشوں کو انسانی بم بنتے ہوئے بے چارگی سے دیکھ رہے ہیں۔ دو اسلامی ملکوں کے مابین ایک عشرے تک جاری اس ہلاکت خیز جنگ کو ہم بھولے نہیں ہیں جس میں کمسن اور نوخیز بچوں کے ہاتھوں میں ’’جنت کی کنجی‘‘ تھما کر محاذ جنگ پر ہراول دستے میں بھیج دیا جاتا تھا، آج بھی کم سن بچوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور نوجوانوں کو جنت میں داخلے کا پروانہ تھما کر خود کش حملہ آور بنایا جا رہا ہے۔ انسانوں کو بموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور انہیں خود کشی کے زرہ بکتر سے لیس کرکے بے قصوروں کی بھیڑ میں جھونک دیا جا رہا ہے۔ آج تو اسلام اور کفر کے درمیان کوئی جنگ بھی نہیں ہو رہی پھر بھی جہاد کا پرچم بلند ہے اور طبل جنگ مسلسل بجے جا رہا ہے۔ اس یکطرفہ جنگ میں کھڑے ہوئے فوجیوں کے بالمقابل ان کے اپنے ہی لوگ ہیں اور وہ اپنوں کی ہی لاشوں سے گزرتے ہوئے جنت میں داخلے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے اپنی خون آشام معرکہ آرائیوں سے اسلام کو بھی بدنام کیا ہے، جہاد کو بھی رسوا کیا ہے اورانسانیت کو بھی شرمسار کیا ہے۔ ان کی انہی حرکتوں کے سبب پوری دنیا کے مسلمانوں کی پیشانی پر دہشت گرد ہونے کی مہر لگا دی گئی ہے اور جہاں بھی دہشت گردی کاکوئی خونی واقعہ ہوتا ہے اغیار کی دزدیدہ نظریں مسلمانوں کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ نئے برانڈ کے ان مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان طاقتوں کے خلاف صف آرا ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اسی لیے وہ ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ اس جنگی جنون کی آگ میں اسلامی بھائیوں کو ہی ایندھن بنایا جائے، ان کی املاک اور ان کے اثاثوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جائے۔ اگر ان کے دشمن امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک ہیں تو نشانہ مسلمانوں کو کیوں بنایا جاتا ہے۔ مسلکی اختلافات کے تئیں عدم برداشت کے رویے کا مظاہرہ کرکے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کو کیوں تہہ تیغ کیا جاتا ہے۔ کیا اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ اپنے ہی لوگوں کومار کرہو سکتا ہے۔جب کوئی انسانی بم پھوٹتا ہے تو وہ مسلم نوجوان تو اپنی جان گنوا ہی دیتا ہے، دوسرے بے قصوروں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ دوسری طرف ان لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش میں یا ان کو نیست ونابود کرنے کے عزائم کی تکمیل میں جو کارروائیاں ہو رہی ہیں ان کی زد بھی بے قصور مسلمانوں پر ہی پڑتی ہے۔ لیکن ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر یہ کیسا انتقامی چکر ہے جو دونوں طرف چل رہا ہے اور دونوں جانب سے مسلمان ہی پس رہے ہیں۔

القاعدہ اور طالبان کے وجود او ران کے ابھار کے سلسلے میں دنیا کی سپر طاقت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلے ان کو استعمال کیا اور اب ان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ اس میں صداقت ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے مسلمان ہیں جو دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں اور ان کی یہ کیسی مومنانہ فراست ہے کہ بار بار اسی ایک ہی سوراخ سے ڈسے جا رہے ہیں اور پھر بھی خود کو ہی اصلی مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ خود کو قرون اولی کا اصل جانشین تصور کرتے ہیں ۔ جب ہم دوسروں پر یہ الزام لگاتے ہیں تو کیا اس کے آئینے میں اور کوئی چہرہ نظر نہیں آتا۔ کیا اس میں پاکستان کے وہ حکمراں دکھائی نہیں دیتے جنہوں نے اس ’’قاتل فوج‘‘ کی پشت پناہی کی ہے۔ کیا دہشت گردی کے اس ابھار میں پاکستان کا کوئی رول نہیں ہے جو دہشت گردی مخالف جنگ میں Selective Approachاپناتا ہے۔ جو اپنے خلاف کررروائی کرنے والوں کے خلاف آپریشن چلاتا ہے اور ہند مخالف دہشت گردوں کی درپردہ پرورش وپرداخت کرتا ہے۔ آج پاکستان میں بھی ایسے طبقات پیدا ہو گئے ہیں جو اسلام کے ان ٹھیکیداروں کے ہمنوا اور حمایتی ہیں۔ جن کی آنکھوں پر مغربی طاقتوں کی اندھی دشمنی کی عینک چڑھی ہوئی ہے اورجو یہ دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ در اصل اس دشمنی کا رخ اب خود اپنوں کی جانب ہی مڑ گیا ہے۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کو مار کر مسرور وشاداں ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں سے انتقام لے رہے ہیں۔ کیا ایسی حرکتوں کو شرعی جواز حاصل ہو سکتا ہے ا ور کیا یہ اقدامات اسلام کی میزان میں تولے جا سکتے ہیں۔

کراچی میں بحریہ کی ایک اہم تنصیب پر دہشت گردانہ حملے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جن میں ایک خطرناک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب پاکستان کے ایٹمی ہتھیارمحفوظ ہیں، کیا ان تک دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے اور کیا اگر ایسا ہوا تو یہ خطہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہ انتہاپسند طبقہ جس طرح پاکستانی معاشرے پر بتدریج اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے یہ خطرہ اتنا ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خود پاکستان کا ہی نقصان ہوگا اوراس ملک کے لیے جو مسلم شناخت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور جسے مملکت خداداد کہا جاتا ہے،اپنے آپ کو بچا پانا بے حد مشکل ہو جائے گا۔ اس ملک کے حکمرانوں کو اب کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی سے خود وہ بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں اور اگر ان کو نہیں روکا گیا تو حالات بہت پیچیدہ ہو جائیں گے۔ ان کا یہ کہنا بجا کہ وہ بھی دہشت گردی کے شکار ہیں لیکن کیا وہ اس کا جواب دے سکیں گے کہ انہوں نے ان عناصر کی پرورش کیوں کی۔ اور اب بھی جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ مزید شکوک وشبہات پیدا کر رہی ہیں۔ ڈیوڈ ہیڈلی نے جو انکشافات کیے ہیں وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

بہر حال ایک طوفان کشت وخون ہے جو جاری ہے اور جس کی شدت میں کمی کا سر دست کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ مغرب دشمنی میں یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ہیں کہ خون کی ہولی کھیلنے کے دور سے باہر ہی نہیں آپا رہے ہیں۔ ضرورت دور جدید کی ترقیات کے دوش بہ دوش چلنے کی ہے اور تنگ نظری اور عصبیت کے خول سے باہر آنے کی ہے۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنا لوجی کے انقلاب کا دور ہے او رمسلمان چاہیں تو اس انقلاب کا سہارا لے کر پوری دنیا میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام کر سکتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو عام کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اس ذہنیت کو خیرباد کہنا ہوگا جو مسلمانوں کو مسلمانوں کا ہی دشمن بنائے ہوئے ہے اور جس کی وجہ سے وہ اس قیامت خیز بھنور میں پھنسے جا رہے ہیں۔

9818195929


No comments:

Post a Comment