Thursday, April 2, 2009

Aashiq-e-Rasool Surjeet Sing Lamba

سرجیت سنگھ لانبہ: ایک سچا عاشق رسول اور حافظ اقبال



نبی کے راستے کی خاک لوں گا
میں سب سے قیمتی پوشاک لوں گا

سردار سرجیت سنگھ لانبہ جب سیرت النّبی کے جلسوں میں یہ شعر پڑھتے ہیں تو ان پر داد وتحسین کے پھول برسنے لگتے ہیں۔یہ اور ایسے جانے کتنے نعتیہ اشعار اس بات کے گواہ ہیں کہ لانبہ صاحب ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ان کی دو اور خصوصیات ہیں۔ وہ حافظِ اقبال بھی ہیں اور سفیرِ محبت بھی،اور ہندوستان اور پاکستان کے مختلف شہروں میں گھوم گھوم کر وہ محبت کی سوغات لٹاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ امریکہ کے کئی شہروں میں بھی سیرت النیی کے جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ان کو عاشقِ رسول اور حافظِ اقبال کا خطاب ہندوستان میں ملا ہے تو سفرص ِمحبت کا خطاب اہل پاکستان نے دیا ہے۔


امسال عید میلاد النّبی کے موقع پر انہیں سیرت کے متعدد جلسوں میں بلایا گیا اور انہوں نے رسول اللہ کی سیرت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈال کر اپنے معتقدین کی تعداد میں اور اضافہ کر لیا۔ان سے گفتگو کیجئے تو ایسا لگتا ہے کہ عشق رسول کا ایک دریا ہے جو رواں دواں ہے،جذبات کا ایک طوفان ہے جو مخاطب کو بہا لے جا رہا ہے اور محبت کی ایک ٹھنڈی ہوا ہے جو اپنی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کر رہی ہے۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سیرت النّبی کے جلسے میں ایسی تقریر کی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔اس کے بعد دہلی کے دوسرے پروگراموں میں بھی انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا اور انہیں سیرت پر تقریر کی دعوت دی گئی۔وہ 80کی دہائی سے ہی ہند وپاک اور امریکہ میں سیرت النبی کے جلسوں سے خطاب کرتے آرہے ہیں۔

سرجیت سنگھ لانبہ نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ کلام اقبال کے مطالعہ سے میرے دل میں رسول اللہ کی محبت جلوہ گر ہوئی اور پھر مجھ پر یہ محبت ایسی طاری ہوتی چلی گئی کہ میں اب کلام اقبال اور رسول اللہ کی سیرت کے موضوع کے علاوہ اور کسی موضوع پر گفتگو ہی نہیں کرتا۔

انہوں نے عشقِ رسول کے ثبوت میں سیرت کے موضوع پر ’قرآن ناطق‘ نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔وہ کہتے ہیں:

 ’آج جب ہم قرآن پاک کی تلاوت اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی مقدس زیارت کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آپ کی عظیم شخصیت ہمارے خراج عقیدت کی ہرگز محتاج نہیں۔میں تو صرف آپ کی ذات کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی، محبت، عقیدت اور اخلاص کے پھول پیش کرنا چاہتا ہوں۔ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ آپ کی ذات کی بلندیوں کا تصور کرنا انسان کے شعور سے بالا تر ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں:
 ’جس مسلمان کا قلب عشقِ محمد سے معمور نہیں وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔جس مسلمان کا ایمان ابراہیم کا ایمان نہیں وہ مسلمان نہیں، جس مسلمان کا زاویہ نگاہ الفقر فخری نہیں وہ بھی مسلمان کہلانے کاحق دار نہیں، بابا نانک صاحب فرماتے ہیں کہ سچا مسلمان وہ ہے جو دیا بھاؤ کی مسجد بنائے، شردھا کو مصلی اور حق کی کمان کو قرآن سمجھے، شرم کو سنت اور اچھے برتاؤ کو روزہ جانے۔‘

سرجیت سنگھ لانبہ مزید کہتے ہیں کہ حضور کی ذات گرامی کے کشف نے مجھے اپنی جانب کھینچا۔ اسلام دامن سمیٹنے کا نہیں بلکہ دامن پھیلانے کا نام ہے۔حضور کی تعلیمات کو عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی آج عالم اسلام کو جتنی ضرورت ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔آج انسانیت سسک رہی ہے اور اس کو اللہ کے رسول کی تعلیمات کے مرہم کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی تصنیف ’قرآن ناطق‘ کے بارے میں بتایا کہ ’ میں نے بارگاہ رسالت میں اپنی عقیدت اور محبت کے پھول پیش کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ حضور کی ذات و صفات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘

خیال رہے کہ ان کی اس تصنیف پر ہندوستان، پاکستان اور خلیجی ملکوں کے متعدداخبارات نے اظہار خیال کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔قرآن ناطق سے قبل انہوں نے ’نذر خسرو‘ نامی کتاب لکھ کر علم و ادب کے حلقوں سے داد و تحسین وصول کی تھی۔

سرجیت سنگھ لانبہ کو مطالعہ اقبال کے راستے پرعشق رسول کی دولت حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ  علامہ اقبال کے مطالعہ نے میرے دل میں عشقِ رسول کی جوت جگائی ہے۔
لانبہ صاحب کوحافظ اقبال بھی کہا جاتا ہے اور ان سے گفتگو کیجئے تو یقین ہو جاتا ہے کہ ان کو یہ خطاب غلط نہیں دیا گیا ہے۔کلیات اقبال کی بے شمار نظمیں، غزلیں اور ربائیاں ان کو پوری طرح ازبر ہیں اور بات چیت کے دوران وہ اقبال کے کلام سے مثالیں دیتے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :

’ میں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی سے بے حد متاثر ہوں۔اس فلسفے سے انسان خود سے متعارف ہوتا ہے۔حکیم الامت کا تمام فلسفہ قرآن مجید کی تعلیمات پر مشتمل ہے یا ان کی تشریح کرتا ہے۔‘

جب لاہور کی اقبال اکیڈمی نے 1980ءمیں اقبال ڈے کے موقع پر ان کو مدعو کیا تھا تو انہوں نے علامہ اقبال کے مزار پر جاکر فاتحہ پڑھی تھی۔وہ جاوید منزل میں واقع اقبال میوزیم میں بھی گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ وہاں انہوں نے مختار بیگم کی تصویر دیکھی جو کہ علامہ کی دوسری بیوی تھیں۔لیکن اس کے نیچے کیپشن لکھا تھا کہ ’معراج بیگم۔ علامہ کی اہلیہ‘۔ لانبہ صاحب کے مطابق اس پر انہیں بڑی حیرت ہوئی کیونکہ معراج بیگم علامہ کی بیٹی تھیں جو پہلی بیوی کریم بی بی سے پیدا ہوئی تھیں۔انہوں نے اس فاش غلطی کی طرف جسٹس جاوید اقبال اور منیرہ بانو کی توجہ مبذول کرائی۔ 1983ءمیں جسٹس جاوید اقبال نے لانبہ صاحب کو خط لکھ کر بتایا کہ اس غلطی کی اصلاح کر دی گئی ہے۔

سرجیت سنگھ لانبہ 1931ءمیں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور اس کے بعد ہندوستان آگئے اور یہاں ایک عرصے تک وہ وزارتِ قانون میں ایک اعلی عہدے پر فائز رہے۔وہ اپنی تقاریر میں قرآن کی آ یات اور احادیث کو بالکل اسی طرح پڑھتے ہیں جیسے کہ علمائے دین پڑھتے ہیں۔اور جب وہ خطاب کرتے ہیں تو یہ نہیں لگتا کہ کوئی غیر مسلم بول رہا ہے۔اس بات پر پاکستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ کے رسول سے عشق اور قرآن و احادیث کے گہرے مطالعہ کے باوجود وہ مشرف بہ اسلام کیوں نہیں ہوتے۔ پھر اخبار خود ہی لکھتا ہے کہ ممکن ہے کہ کوئی مجبوری ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے ایمان کا اعلان نہیں کر پا رہے ہیں۔
اس کے باوجود لانبہ صاحب کو یہ یقین ہے کہ ایک روز وہ مدینہ شریف کے سفر کا قصد ضرور کریں گے اور رسول اللہ کے روضہ مبارک پر حاضری دیں گے۔ان کا یہ شعران کے اس جذبے کے اظہار کے لیے کافی ہے:

اللہ نے دی مجھ کو توفیق اگر لانبہ
دن گزرے گا مکے میں اور رات مدینے میں

خیال رہے کہ اس سے پہلے ایک اور سکھ شاعر کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر نے عشق رسول کے موضوع پر یہ شعر کہہ کر دھوم مچا دی تھی کہ

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں 
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

اور اب ایک دوسرے سکھ شاعر اور عاشق رسول نے اپنے کلام اور خطاب سے دھوم مچا رکھی ہے۔
لانبہ صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے ایک پاکستانی دوست نے حضور کے روضے سے ایک تسبیح لاکر انہیں دی ہے جو گدشتہ 26 برسوں سے ان کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔

پاکستان کے متعدد اداروں کی جانب سے ان کو سفیر محبت کا لقب دیا گیا ہے اور یہ بات کہی گئی ہے کہ لانبہ صاحب نے جس طرح دونوں ملکوں کے مابین محبت کو عام کرنے کی کوشش کی ہے اگر وہی کوشش سیاست داں بھی کرتے تو بہت بڑی بات ہوتی۔ہندوستان کے متعدد اداروں، تنظیموں اور جماعتوں نے انہیں توصیفی اسناد سے نوازا ہے اور سید حامد، مولانا عبید اللہ اعظمی، پروفیسر اختر الواسع، علامہ اخلاق حسین قاسمی،پروفیسر اے آر قدوائی،پروفیسر مقصود جعفری امریکہ،صلاح الدین ناصر نیو یارک، شاہ کوثر چشتی نیو یارک اور ہندوستان و پاکستان کے بے شمار دانش ور، مفکرین اور علما ان کے قدردانوں اور معتقدین میں شامل ہیں۔

Keywords: Surjit Singh Lamba, writer, Urdu, prophet Muhammad, naat, na'at

No comments:

Post a Comment