Sunday, March 29, 2009

Present Urdu Poetry

ادب ایک بہتا ہوا دریا ہے جو کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے:گوپی چند نارنگ


March 24, 2009


ادب پرانے ادوار کی نام نہاد مقصدیت اور لایعنیت دونوں سے آگے نکل آیا ہے اور غزل چونکہ رمزیہ و ایمائی شاعری ہے، اس لیے اس میں یہ تبدیلی نسبتاً تہہ نشین ہے۔البتہ نظمیہ شاعری میں بدلتے ہوئے نقوش واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ادب تو بہتا ہوا دریا ہے جو کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے۔‘

ان خیالات کا اظہار ممتاز ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ساہتیہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں کیا ہے جو معاصر اردو شاعری کے موضوع پر منعقد ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ادبی منظر نامے میں بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔موجودہ عہد نظریوں کے رد کا دور ہے۔ مابعد جدیدیت ادب کو ایجنڈا یا لائحہ عمل دینے کے خلاف ہے۔تعجب ہے کہ وہی لوگ جو تنقید کی بالادستی کی شکایت کرتے ہیں تنقید سے پروگرام دینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ ادیب کو پروگرام دینا اس کی آزادی کو ختم کرنا ہے کیونکہ ہر نظریہ ادعائیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ بعینہی ایسا ہے جیسے ریشم کا کیڑا اپنے گرد جالا بنتا ہے اور بالآخر اسی میں گھٹ کر مر جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے اپنے افتتاحی خطبے میں کہا کہ نیا عہد ادیب سے فقط یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر خود اپنے ذہن و شعور سے سوچے اور دانشوری کی نئی فکریات کی روشنی میں اپنی اقداری ترجیحات خود طے کرے۔انہوں نے کہا کہ زبان و فن کے وسائل پر قدرت اور روایت سے آگہی ہمیشہ سے لازم رہی ہے۔ البتہ اجنبیت، بیگانگی، بے معنی علامیت اور اشکال پسندی کا زمانہ گزر گیا۔ادب پھر سے اپنے قاری سے جڑنے لگا ہے اور زندگی اور سماجی مسائل سے بے تعلقی بھی ختم ہو رہی ہے۔سماجی سروکار اور آئڈیا لوجی کا مطلب کسی دئے ہوئے ایجنڈے یا پارٹی لائن کی پیروی نہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ تخلیق کار سماجی بے انصافی کے خلاف آزادانہ اپنے منصب کا استعمال کرے اور ثقافتی تشخص یا تہذیبی جڑوں پر اصرار بھی اسی راہ سے ہے۔انہوں نے تخلیق کاروں کو تازہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے ولی کا یہ شعر پڑھا:

راہِ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن

اس موقع پر مہمان خصوصی اور معروف شاعر مظہر امام نے کہا کہ ادب کا مطالعہ دل جمعی کے ساتھ کیا جانا چاہئیے۔انہوں نے نئے اسالیب اور نئے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے نئی شاعری کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔

کینیڈا سے آئے ہوئے محقق، نقاد اور شاعر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے معاصر اردو شاعری کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ معاصر اردو شاعری کسی بھی نوع کی بالا دستی اور نظریاتی حصار کے خلاف ہے۔موجودہ ادبی منظرنامے میں جو شاعری پروان چڑھ رہی ہے وہ اپنی اقداری ترجیحات خود طے کر رہی ہے اور آج کی شاعری پوری طرح معیاری ہے۔تقی عابدی نے مزید کہا کہ ہمارے آج کے شعرا آزادانہ فکر و خیال کی ترجمانی میں یقین رکھتے ہیں اور تمام تر قیود بند سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ثقافتی تشخص اور تہذیبی جڑوں پر اصرار ان کا تخلیقی رویہ بن چکا ہے۔معاصر اردو شاعری سے جو لوگ مایوس ہیں انہیں اپنی رائے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

دہلی یونیورسٹی میں سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر صادق نے کہا کہ اردو غزل مقبول ترین صنف ہے۔ آج ہندوستان کی تمام زبانوں میں غزلیں کہی جا رہی ہیں،حتیٰ کہ سنسکرت میں بھی غزلیں کہی جا رہی ہیں۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ اردو کے صدر پروفیسر ابو الکلام قاسمی نے معاصر اردو شاعری میں خواتین شعرا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاصر شاعرات مختلف جہات سے ادبی منظرنامے پر اپنے استحقاق اور شناخت کے لیے جہدِ مسلسل میں مصروف ہیں۔پرانی شاعرات نے حسن و عشق،دلکشی اور شمع محفل بنے رہنے کو پیش نظر رکھا تھا مگر آج کی شاعرات ساری دنیا میں اپنی حیثیت، سماجی، تہذیبی اور ادبی برابربی کے لیے ہر طرح سے کوشاں ہیں۔دراصل یہ فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ مابعد جدید رویوں سے مربوط ہے۔ اس لیے نظر انداز کیے جانے والے طبقات کو جو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان میں عرصے سے نظر انداز کی جانے والی عورت کو اب بدلتی ہوئی صورت حال میں اپنے رد عمل کا اظہار کیسے کرنا چاہئے، اسی باعث ان کے یہاں جارحیت بھی ہے، حق طلبی بھی ہے،احتجاج اور تلخی بھی ہے۔اس سے قبل انہوں نے ’اردو غزل کا جدید اور مابعد جدید منظرنامہ‘ پر عمدہ مقالہ پیش کیا۔

نظام صدیقی نے نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات کے موضوع پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کی شاعری معیاری ہے اور اس نسل سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

اس سہ روزہ سیمینار میں جو مقالے پیش کیے گئے ان کی تفصیل یوں ہے:

معاصر اردو غزل کے امتیازات(اجے مالوی) 80 کے بعد اردو غزل کا تنقیدی جائزہ(سیفی سرونجی)،معاصر اردو نظم ایک تنقیدی جائزہ(ڈاکٹر انور پاشا)، معاصر اردو نظم کے اہم نشانات(ڈاکٹر شہزاد انجم)،80 کے بعد کی نظم اور اس کا اسلوب(ڈاکٹر کوثر مظہری)،80 کے بعد اردو نظم کا منظرنامہ (ڈاکٹر خالد محمود)80کے بعد آزاد نظم (ارتضیٰ کریم)،80کے بعد نثری نظم( امتیاز احمد)،برصغیر کی معاصر خواتین: امتیازی نشانات(چودھری ابن انصیر)، تانیثیت اور معاصر اردو شاعری(حقانی القاسمی)،ہندوستان کی اہم معاصر خواتین شعرا اور ان کے مسائل(وسیم بیگم)،بر صغیر کی معاصر اردو شاعری اور عصری مسائل(شمیم طارق)،بر صغیر کی معاصر اردو شاعری میں دلت رجحان(محمد شاہد پٹھان)۔

اس سہ روزہ سیمینار میں ملک و بیرون ملک کی معتبر اردو شخصیات نے شرکت کی۔تینوں روز شام کے وقت مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا۔

Keywords: sahitya academy, seminar, gopi chand narang, abul ul kalam qasmi, urdu, literature

Publisged at VOAnews.com at http://www.voanews.com/urdu/2009-03-24-voa14.cfm 

No comments:

Post a Comment