Wednesday, March 4, 2009

Personal & Knowledgable Litrature in India after Independence

آزادی کے بعد ہند وپاک میں شخصی اور معلوماتی ادب میں قابلِ ذکر فروغ

خود نوشت سوانح، سفرناموں، انشائیوں اور خاکوں کو غیر ادبی صنف نہیں سمجھنا چاہئے، یہ اردو ادب کا حصہ ہیں اور آزادی کے بعد ان اصناف کو خاصا فروغ حاصل ہوا ہے۔انہیں گرچہ ذیلی اصناف کہا جاتا ہے لیکن ادب میں ان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اور ان میں بھی اسالیب کا تنوع پایا جاتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دہلی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام28فروری اور یکم مارچ کو ایک دوروزہ نیشنل سیمینار میں ملک و بیرون ملک کے ادیبوں، محققوں اور شاعروں نے کیا۔سیمینار کا عنوان تھا ’آزادی کے بعد شخصی اور معلوماتی ادب: خود نوشت سوانح، سفرنامہ، انشائیہ اور خاکہ۔‘

دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین پروفیسر قمر رئیس نے سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں خود نوشت اور سوانح نگاری نے خاصی ترقی کی ہے اور بڑے لوگوں نے اعلیٰ معیار کی آپ بیتیاں لکھی ہیں۔اس سلسلے میں قدرت اللہ شہاب سمیت کیے لوگوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سفر نامہ ایک دلچسپ صنف ادب ہے۔ انہوں نے شبلی نعمانی، سرسید اور دیگر سفرنامہ نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انیسویں صدی سے ہی یہ روایت چلی آرہی ہے اور بیسویں صدی میں اسے کافی فروغ ملا ہے۔انہوں نے ان اصناف کو غیر ادبی یا غیر تخلیقی اصناف ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بڑی شخصیات جب اپنی زندگی کا حساب کتاب پیش کرتی ہیں تو وہ بڑا کارنامہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے انشائیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس کی کوئی جامع تعریف نہیں ہے اور انشائیہ متنازعہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے جوش ملیح آبادی، آل احمد سرور اور وامق جونپوری کا ذکر کیا۔تاہم یہ بھی کہا کہ بہت سی انشاپرداز تحریروں میں سچائیاں بھی ہوتی ہیں۔انشائیہ نگاری کے طفیل میں بہت رنگا رنگ نمونے بھی سامنے آئے ہیں۔ قمر رئیس نے وزیر آغا کا خاص طور پر ذکر کیا تاہم یہ بھی کہا کہ وہ اپنے انشائیوں کو آخری انشائیہ مانتے ہیں۔انہوں نے خاکو ں کے حوالے سے مولوی عبد الحق اور رشید احمد صدیقی کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی تحریریں اپنے پورے عہد پر محیط ہوتی ہیں اور حالات و واقعات کو الگ نظر سے دکھاتی ہیں۔

سیمینار میں افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرپروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اردو میں نثر کا سرمایہ بہت بڑا ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر نہ لکھا گیا ہو۔ انیسویں صدی میں مغرب میں جو کچھ چھپتا تھا اس کا ترجمہ چند سالوں میں کتابوں کی شکل میں یہاں شائع ہو جاتا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی رسائی زیادہ لوگوں تک نہیں ہو پاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ علم کا ذخیرہ غیر فکشن تحریروں میں بہت ہے۔مضمون نگاری اور رپورتاژ وغیرہ میں بہت معلوماتی اور کارآمد باتیں ہیں۔ان میں اسالیب کا تنوع بھی بہت ہے۔ سرسید سے لے کر اب تک متعدد اسالیب معرض وجود میں آئے ہیں، ان میں رومانیت بھی ہوتی ہے اور سیدھی سادی زبان میں عالمانہ باتیں بھی ہوتی ہیں۔سجی ہوئی زبان بھی دکھائی دیتی ہے۔ سادہ نثر میں رنگینی بھی ہوتی ہے اور رنگین نثروں میں دوسری چیزیں بھی ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولوی محمد حسین آزاد کی تحریریں اتنی سادہ نہیں ہیں جتنی کہ حالی وغیرہ کی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افسانوی اور غیر افسانوی ادب کا ذخیرہ اتنا وقیع ہے کہ اگر اس کی فہرست مرتب ہو تب جا کر اس کی اہمیت کا احساس ہوگا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ادیبوں کو تحریکوں اور رجحانات میں تقسیم نہیں کرنا چاہئیے۔پروفیسر قدوائی نے کہا کہ مشرقی زبانوں نے مغرب سے بھی گہرا اثر قبول کیا ہے اور یہاں کے مصنفین نے وہاں کی کلاسکس سے فائدہ اٹھایا ہے۔انہوں نے سنگ تراشی، مصوری، آثار قدیمہ، تعلیم تربیت وغیرہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادب اور فنون لطیفہ نے مغرب سے استفادہ کیا ہے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ مذکورہ اصناف ادب کی ذیلی اصناف ہیں اور یہ بیانیہ کے تحت آتی ہیں۔ان میں Narationذیلی طور پر قائم رہتا ہے جس سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔انہوں نے دلچسپ پیرایہ بیان اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کے بغیر خاکہ، سفرنامہ یا سوانح کولکھا ہی نہیں جا سکتا۔ادب میں سچائیوں کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور مبالغہ بھی ضروری ہے۔ خود نوشت نگاروں نے بہت جھوٹ بولا ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لکھی ہی نہیں جا سکتیں۔انہوں نے کہاکہ سنجیدہ نقادوں نے بڑے محققوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بھی جھوٹ اور مبالغہ آرائی کا راستہ اختیار کیا۔انہوں نے اس پر زور دیا کہ بنیادی اصناف کا ایک ادارہ قائم کیا جانا چاہئیے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے مزید کہا کہ سوانح دو قسم کی ہوتی ہیں۔ مردوں کی الگ اور خواتین کی الگ۔خواتین جب تحریر پر آتی ہیں تو ان کی آواز بہت بلند ہو جاتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے رشید جہاں، عصمت چغتائی اور کشور ناہید کا نام لیا اور کہا کہ انہوں نے جن چیلنجوں کا سامنا کیا ہے ویسا منٹو نے بھی نہیں کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ محققوں، ناقدوں، پروفیسروں اور شاعروں کی خود نوشتوں میں فرق ہوتا ہے۔مستنصر حسین تارڑ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کہ یہاں بیانیہ حاوی رہتا ہے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں اعترافی ادب نہیں ہے۔البتہ خود نوشتوں میں عصمت اور کشور ناہید کے یہاں یہ چیز موجود ہے۔کچھ کچھ ندا فاضلی اور زبیر رضوی کے یہاں ہے۔جوش ملیح آبادی کے یہاں بھی بہت کچھ اعترافات ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم ادیبوں کو سچ بولنے کا یارا نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب روزنامچوں کی روایت نہیں ہے۔ حالانکہ ادیبوں کو روزنامچے لکھنے چاہئیں۔

سیمینار میں شرکت کے لیے کناڈا سے آئے مہمان خصوصی شاعر، ادیب اور افسانہ نگار ولی عالم شاہین نے مذکورہ موضوع پر سیمینار کے انعقاد پر دہلی اردو اکیڈمی کو مبارکباد دی اور کہا کہ شاید اس موضوع پر یہ پہلا سیمینار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر تخلیق کار بنیادی طور پر خود نوشت نگار ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بارے میں اور اپنے عہد کے بارے میں لکھتا ہے۔انہوں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ بہت سی خودنوشتیں فرمائشی ہوتی ہیں اور لکھوائی جاتی ہیں۔اختر حسین رائے پوری کی کتاب ’گردِ راہ‘ فرمائشی خودنوشت ہے۔عبادت بریلوی، ادا بدایونی وغیرہ سے بھی خود نوشتیں لکھوائی گئی ہیں،لیکن ان میں بہت سارا علم محفوظ ہے۔خود نوشت تاریخ بھی ہوتی ہے اور بہت سی خود نوشتیں یادگار بھی ہوتی ہیں۔لیکن ان میں کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں اور لکھنے والا ان میں اپنے تعصبات کو بھی شامل کر لیتا ہے۔

انہوں نے ’ورودِ مسعود‘ اور ’خواب باقی ہیں‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ولی عالم شاہین نے کہا کہ آزادی کے بعد سفرنامے بہت لکھے گئے،لیکن سفر نامہ نگار خود کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے جو بڑی خامی ہے۔لیکن انہوں نے مختار مسعود کے بارے میں کہا کہ ان کے سفرنامے اس عیب سے پاک ہیں،جبکہ مستنصر حسین تارڑ بہک جاتے ہیں۔اس میں ان کی غلطی نہیں کیونکہ اس میں بہکنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے، تاہم اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔

انشائیہ پراظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے وزیر آغا کا بالخصوص ذکر کیا اور کہا کہ ان کی سرکردگی میں انشائیہ نگاروں کا ایک گروپ قائم ہے جو مسلسل کتابیں لکھتا رہتا ہے۔انہوں نے اس پر زور دیا کہ انشائیہ کے ایک اچھے انتخاب کی ضرورت ہے اور کئی انتخاب سامنے آسکتے ہیں۔

خاکوں کے ضمن میں انہوں نے خواجہ حسن نظامی اور منٹو کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ خاکہ، سفرنامہ یا سوانح کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔آپ بیتی صرف آپ بیتی نہیں ہوتی بلکہ تہذیب و ثقافت کی عکاس ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی انہوں نے کناڈا میں اردو کی صورت حال پر بھی تفصیل سے گفتگو کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہٴ اردو کے سابق صدرپروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ بغیر تخلیقیت کے خاکہ، انشائیہ اور سفرنامہ نہیں لکھا جا سکتا۔الہٰ آباد یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردوپروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ ساری اصناف مغرب سے مستعار ہیں۔غزل کی تہذیب جاگیردارانہ تہذیب ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدرپروفیسر شمس الحق عثمانی نے کہا کہ خاکہ میں کتھا کو سمجھے بغیر ہم افسانہ نگاری کو نہیں سمجھ سکتے۔جے این یو سے وابستہ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہا کہ فن پاروں میں زندگی کی حقیقت کو گرفت میں لینا چاہئیے۔زندہ قومیں اعلی ادب اس لیے تخلیق کرتی ہیں کہ وہ زندگی جینے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔معروف ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے مذکورہ موضوع پر سیمینار کا اہتمام کرنے پر اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین پروفیسر قمر رئیس کو مبارکباد دی، جبکہ اکیڈمی کے سکریٹری مرغوب حیدر عابدی نے اکیڈمی کی ادبی خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا۔

اس سیمینار میں کم از کم پندرہ مقالے پیش کیے گئے۔بعض موضوعات یہ ہیں:آزادی کے بعد انشائیہ نگاری کے رجحانات، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی خاکہ نگاری، پروفیسر رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری، مرزا محمود بیگ کی خاکہ نگاری، اردو خاکوں میں دہلوی تہذیب کی عکاسی، جوش کی خود نوشت یادوں کی بارات کا تنقیدی جائزہ، وامق جونپوری کی خود نوشت گفتنی نا گفتنی کا تنقیدی جائزہ،قرة العین حیدر کے سفرنامہ ’کوہِ دماوند‘ کا تنقیدی جائزہ،خواتین کی خود نوشتوں کا تنقیدی جائزہ،اختر الایمان کی خود نوشت ’اس آباد خرابے‘ میں کا تنقیدی جائزہ،کشمیر کے چند معروف ادیبوں کے سفرناموں کا تنقیدی جائزہ،پاکستانی سفرناموں کا تنقیدی جائزہ،برصغیر میں خود نوشتوں کے غالب رجحانات،حالیہ خود نوشتوں کا تقابلی مطالعہ،اردو خود نوشت اور ثقافت وغیرہ۔



No comments:

Post a Comment