Saturday, February 21, 2009

Translation Mechanism:مشینی ترجمہ: تہذیبی شناخت اور لفظ و معنی کا پیچیدہ رشتہ

سہیل انجم
نئی دہلی
February 20, 2009
کیا مشین ہر کام کر سکتی ہے؟ کیا ٹیکنالوجیکل ترقی کے اس دور میں وہ مختلف زبانوں کا آپس میں اس طرح ترجمہ کر سکتی ہے کہ لفظ ومعنی کا پیچیدہ رشتہ اور تہذیبی شناخت مجروح نہ ہو اور کیا وہ بین السطورمیں پوشیدہ انسانی جذبات و احساسات کی بھی ترجمانی کے فرائض انجام دے سکتی ہے؟
اس بحث کا آغاز نئی دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں ہوا اور بحث اس نتیجے پر ختم ہوئی کہ مشینی ترجمہ نگار یا خودکار مترجم ترجمے کے عمل میں آسانیاں تو فراہم کر سکتا ہے لیکن وہ لسانی و تہذیبی پیچیدگیوں سے نہ توبہ آسانی گزر سکتا ہے اور نہ ہی ان میں باہمی فرق کو واضح ہی کر سکتا ہے۔
اس موضوع پر کلیدی خطبہ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ لسانیات کے چئیرمین اور استاد پروفیسر اے آر فتیحی نے پیش کیا۔ انھوں نے انتہائی بلیغ انداز میں ترجمے کے تاریخی پس منظر، مختلف زبانوں میں ترجمے کی روایت اور بھارت میں ترجمے کی تاریخ پر اظہار خیال کیا۔جبکہ دوسرے لوگوں نے بھی مذہبی ترجمے، تہذیبی ترجمے اور ادبی ترجمے پر اپنے خیالات رکھے اور کہا کہ ہندوستان میں ادبی ترجموں سمیت دوسرے ترجموں کی بھی توانا اور جامع روایت رہی ہے اور اس روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔سیمینار میں فکشن کے ترجمے میں عملی مسائل کا بھی ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر مترجم زبان کی باریکیوں اور اس کے تاریخی پس منظر سے واقف نہیں ہے تو وہ اچھا ترجمہ نگار نہیں بن سکتا۔مختلف زبانوں سے ترجمہ کے عمل کے دوران مترجم کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے جب نہ صرف زبان و ادب کی پوری معلومات ہو بلکہ مترجم اس زبان کی تہذیبی روایات سے بھی واقف ہو۔ورنہ اصل متن کا مفہوم کچھ اور ہوگا اور ترجمہ شدہ متن کا مفہوم کچھ اور ہوگا۔اگر مترجم تہذیبی علم نہیں رکھتا تو ترجمہ کے ساتھ زبردست ناانصافی ہوگی۔
مثال کے طور پر انگریزی زبان گرچہ ایک زبردست لسانی قوت رکھتی ہے لیکن ’سندور‘ یا ’سہاگن‘ جیسے بعض تمدنی الفاظ کے اظہار میں انتشار کا شکار ہو جاتی ہے اور پروفیسر فتیحی کے مطابق ان الفاظ کی لسانی منتقلی میں وہ ترسیلی جہتیں ابھر کر سامنے نہیں آپاتیں جو ان الفاظ سے وابستہ ہیں۔
محاورات، تشبیہات، استعارے اور تمثیلی پیکر کے ترجمے بعض دفعہ مسائل کا سبب بنتے ہیں اور بعض صورتوں میں ان کی براہ راست لسانی منتقلی نہیں ہو پاتی،کیونکہ مختلف زبانوں میں ایسی لفظ بہ لفظ مماثلت نہیں ملتی جو با معنی بھی ہو اور درست بھی ہو۔
ایک مقرر نے میر کے اس شعر کی مثال پیش کی، نازکی اس کے لب کی کیا کہئے۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کا ترجمہ کرتے وقت ہر لفظ کا ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن لفظ ’سی‘ کا کیا ترجمہ کیا جائے؟
اسی طرح پروفیسر فتیحی نے انگریزی کے لفظ ڈومیسٹک(Domestic) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ایک لفظ سے انگریزی میں کئی مفہوم نکلتے ہیں۔ لیکن جب ہم اردو میں اس کا ترجمہ کریں گے تو جملوں کے حساب سے الگ الگ مفاہیم نکلیں گے۔اگر یہ لفظ Catیعنی بلیّ کے لئے استعمال ہوگا تو اس کا مطلب ہوگاپالتو۔ اگر مسائل یعنی Problemکے ساتھ اس کا استعمال ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا خانگی۔ اگر امور یا Issuesکے ساتھ ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا داخلی اور اگر پرواز یعنی Flightکے ساتھ ہوگا تو اس کا مطلب ہوگا گھریلو۔
گویا لفظ و معنی کا رشتہ ہمیشہ پیچیدہ رہا ہے۔مترجم ترجمے کے دوران لفظ ومعنی کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ادراک کی گہرائیوں میں اترتا ہے اور لفظ و معنی کی وحدت کو تلاش کرتا ہے کیوں کہ لغت لفظ کے معنوی پہلو کو تو اجاگر کرتی ہے لیکن ثقافتی اور تمدنی حرکیات کا ترجمہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مترجم ادراک کی گہرائیوں میں اترنے اور مصنف کے تجربے تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ڈاکٹر فتیحی کے خیال میں مصنف اور مترجم کے مابین ذہنی روابط میں کمی مترجم کو متن کے ظاہری معنی تک محدود کر دیتا ہے اور اس طرح ترجمہ لسانی ترجیحات کے جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس تناظر میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جب انسانی مترجم جو کہ ذہن و دماغ بھی رکھتا ہے لسانی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی پس منظر سے عدم واقفیت کی بنیاد پر فن ترجمہ کی گہرائیوں میں غوطے کھانے لگتا ہے تو پھر مشین اس پیچیدہ عمل سے بہ کمال کامیابی کیسے گزر سکتی ہے؟
اس کے علاوہ مشین انسانی جذبات و احساسات سے بھی عاری ہوتی ہے لہذا وہ ترجمے کی باریکیوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ترجمے کے دوران مترجم کے تجربات بھی کام آتے ہیں اور وہ تجربات صداقت کی توسیع میں ایک نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔اور پھر اس طرح ترجمہ شدہ متن میں سچائیوں کی نئی پرتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
بقول ڈاکٹر فتیحی ترجمے کے ایسے نمونوں میں مصنف اور مترجم ایک دوسرے سے ابلاغ کرتے ہیں اور ترجمہ ذہنی رد و قبول کے مراحل سے گزر کرایک ایسے فکری ساختیے کو ترتیب دیتا ہے جو سکہ بند معنویت سے آزاد ہوتا ہے۔ ایسے ترجموں میں توجہ لفظی مماثلت سے زیادہ فکری مماثلت پر ہوتی ہے تاکہ متن کی معنویت کا نظام رواں دواں رہے۔
ہندوستان میں ترجموں کی روایت بہت قدیم ہے۔مغلیہ دور میں بھی ترجمہ نگاری کو اہم سمجھا گیا تھا اور سنسکرت کی، علمی،ادبی اور مذہبی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ترجمے کی روایت کا دوسرا اہم دور برٹش دور حکومت میں فورٹ ولیم کالج کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔اس دور میں ادبی ترجمے بھی خوب ہوئے۔
مشینی ترجمے پر پاکستان میں کافی کام ہوا ہے لیکن ہندوستان میں اتنا نہیں ہوا ہے۔یہاں پونے میں واقع سینٹر فار ڈیولپمنٹ آف ایڈوانسڈ کمپیوٹر نے اس سلسلے میں کچھ کام کیا ہے۔لیکن اردو کا معاملہ بہت پچھڑا ہوا ہے۔کمپیوٹر دیوناگری رسم الخط کا ترجمہ اردو رسم الخط میں کر تو دیتا ہے لیکن بات بنتی نہیں۔کیونکہ کمپیوٹرترجمہ نہیں کرتا صرف Translitration کرتا ہے۔گویا اگر ہم مشینی ترجمے پر زور دیں گے تو لسانی اور تہذیبی و تمدنی خصوصیات متاثر ہو ں گی۔ہندوستان میں اسکرپٹ سے متعلق دشواریاں ہیں جنہیں ابھی دور نہیں کیا جا سکا ہے۔جبکہ پاکستان میں بہت حد تک کامیابی مل گئی ہے۔
ڈاکٹر فتیحی کا مزید کہنا ہے کہ مشینی ترجمے کا مقصد ترجمے کے عمل کو کمپیوٹر کی مدد سے آسان بنانا ہے، تاکہ تعلیمی، تکنیکی اور معلوماتی مواد تیار کیا جا سکے۔جب اس سلسلے میں ایک خودکار مترجم تیار کرنے کی کوشش شروع ہوئی تھی تو انتہائی جوش و ولولہ کے ساتھ یہ توقع کی گئی تھی کہ جلد ہی ایک ایسا سافٹ ویر ایجاد ہو جائے گا جس میں اگر کسی زبان کا متن داخل کیا جائے تو مطلوبہ زبان کا ترجمہ آسانی کے ساتھ مل جائے گا۔لیکن لسانی تحقیق سے یہ اندازہ ہوا کہ مشینی ترجمہ بھی آسان کام نہیں ہے۔تاہم انھوں نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ مکمل طور پر کوئی خود کار مترجم نہ بھی تیار ہو تب بھی مشینی ترجمے سے ترجمے کے عمل میں آسانی فراہم ہو جائے گی۔

No comments:

Post a Comment