Saturday, January 3, 2009

Josh Malihabadi : جوش ملیح آبادی پر چنڈی گڑھ میں دو روزہ قومی سیمینار

سہیل انجم نئی دہلی
January 2, 2009
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے ،گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آآکر ،یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا ،آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تقدیریں
آنکھوں میں گدا کے سرخی ہے، بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے، سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
ِکیا ان کو خبر تھی، زیر و زبر جو رکھتے تھے روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ، برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی، سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی، ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھی دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں
یہ جوش ملیح آبادی کی معرکہ آرا انقلابی نظم ’شکست زنداں کا خو اب‘ ہے ۔ یہ اور ایسی جانے کتنی ولولہ انگیز نظمیں جوش کے نوک قلم سے نکلی ہیں اور اسی لیے ان کو ’شاعرانقلاب‘ کا خطاب دیا گیا۔ اسی شاعر انقلاب پر ہریانہ کے چنڈی گڑھ میں راج نواس میں ہریانہ اردو اکیڈمی اورغالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے اشتراک سے ایک دوروزہ قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جو 28دسمبر کو ختم ہوا۔اس سیمینار کاعنوان تھا ’عہد حاضر میں جوش ملیح آبادی کی ادبی و سماجی اہمیت،۔اس میں ملک بھر سے کم و بیش پندرہ مقالہ نگاروں نے الگ الگ عنوانات کے تحت جوش کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔
جوش ملیح آبادی کی شاعری کی دوبنیادی خصوصیات ہیں۔ ایک انقلابی جذبہ اور دوسرے رومانویت۔ ان کی انقلابی نظموں کی تعداد خاصی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیمینار میں ان کے انقلاب آفریں کلام پر بھی گفتگو ہوئی اور ان کی عشقیہ شاعری پر بھی۔سیمینارکے افتتاحی اجلاس میں افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے ہریانہ کے گورنر اخلاق الرحمن قدوائی نے کہا
’جدوجہد آزادی کے دوران نوجوانوں کو بیدار کرنے اور ان میں جوش و ولولہ بیدار کرنے کے ضمن میں جوش ملیح آبادی کی نظموں کا اہم رول رہا ہے۔ اسی لئے انھیں شاعر انقلاب کہا گیا۔‘
انھوں نے ایک نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
’ہندوستان سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار جوش کی آخری تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔ ہندوستان ان کی وطن پرستی کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جوش جیسے بڑے انقلابی شاعر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانا ضروری ہے اور یہ ہمارا فریضہ بھی ہے۔ اس لیے جوش کو سمجھنے کے لیے جوش پر نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہریانہ اردو اکیڈمی اس سلسلے میں اہم رول ادا کرے گی۔
جوش کی شخصیت بہت متنازعہ رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی وہ تنازعات کے شکار رہے اور پاکستان میں بھی۔گورنر قدوائی کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔ انھوں نے جاگیردارانہ ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اور ان کی شخصیت میں افغانی فطرت پوری طرح موجود تھی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے مزدوروں، غریبوں اور محنت کش عورتوں پر بھی خوب نطمیں لکھی ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری سے عوام کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن جب آزادی ملی تو وہ بھی فیض اور دوسرے شعرا کی مانند اس آزادی سے خوش نہیں تھے۔اسی لیے جہاں فض نے صبح آزادی کو ’داغ داغ اجالا، اور ’شب گزیدہ سحر، قرار دیا تھا وہیں جوش نے نظم ’ماتم آزادی، لکھ کر اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔اس طویل نظم کے ابتدائی بند ملاحظہ فرمائیں
اے ہم نشیں فسانہٴ ہندوستاں نہ پوچھ
رودادِ جام بخشیِ پیرِ مغاں نہ پوچھ
بربط سے کیوں بلند ہوئی ہے فغاں نہ پوچھ
کیوں باغ پر محیط ہے ابر خزاں نہ پوچھ
کیا کیا نہ گل کھلے روش فیض عام سے
کانٹے پڑ ے زبان میں پھولوں کے نام سے
شاخیں ہوئیں دونیم جو ٹھنڈی ہوا چلی
گم ہو گئی شمیم جو باد صبا چلی
انگریز نے وہ چال بہ جور و جفا چلی
برپا ہوئی برات کے گھر میں چلا چلی
خون چمن بہار کے آتے ہی بہہ گیا
اترا جو طوق اور بھی دم گھٹ کے رہ گیا
جھومی گھٹا فضا سرور آمیز ہو گئی
کھولی خوشی نے زلف غم انگیز ہو گئی
مچلی نسیم عقل جنوں خیز ہو گئی
سائے میں دھوپ اور بھی کچھ تیز ہو گئی
پارہ، چلی جو سرد ہوائیں تو چڑ ھ گیا
درماں ہوا تو دردِ جگر اور بڑھ گیا
اس نظم کے چند آخری بند ملاحظہ فرمائیں
سروِ سہی نہ ساز نہ سنبل نہ سبزہ زار
بلبل نہ باغباں نہ بہاراں نہ برگ وبار
جیحوں نہ جام جم نہ جوانی، نہ جوئے بار
گلشن، نہ گل بدن، نہ گلابی، نہ گل عذار
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
فٹ پاتھ، کارخانے، ملیں، کھیت، بھٹیاں
گرتے ہوئے درخت، سلگتے ہوئے مکاں
بجھتے ہوئے یقین، بھڑکتے ہوئے گماں
ان سب سے اٹھ رہا ہے بغاوت کا پھر دھواں
شعلوں سے پیکروں کے لپٹنے کی دیر ہے
آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے کی دیر ہے
وہ تازہ انقلاب ہوا آگ پر سوار
وہ سنسنائی آنچ وہ اڑنے لگے شرار
وہ گم ہوئے پہاڑ وہ غلطاں ہوا غبار
اے بے خبر، وہ آگ لگی آگ ہوشیار
بڑھتا ہوا فضا پہ قدم مارتا ہوا
بھونچال آرہا ہے وہ پھنکارتا ہوا
اس سیمینار میں اس پر بھی گفتگو ہوئی کہ جوش ملیح آبادی کی شخصیت کے کتنے پہلو ہیں اور ان کے محرکات کیا ہیں۔
مقالوں کے سیشن میں غلام نبی خیال(سری نگر) نسیم السحر (الہ آباد) مہیندر پرتاپ چاند، شاہد ماہلی، پروفیسر قمر رئیس، عبد الرحمن، فاروق ارگلی( دہلی) گلشن کھنہ، ڈاکٹر دیپک ٹنڈن،فرزانہ نسیم، ڈاکٹر کملیش موہن، محمد مستمراور فرحت رضوی وغیرہ نے مختلف عنوانات کے تحت جوش کی شاعری اور شخصیت کے الگ الگ پہلووٴں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔جبکہ ہریانہ اردو اکیڈمی کے سکریٹری اور معروف ادیب کشمیری لال ذاکر نے ہریانہ میں اردو کی پیدائش اور خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی۔ریاست کے وزیرِ تعلیم مانگے رام گپتا نے سیمینار کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر غلام نبی خیال نے ’جوش ملیح آبادی اور کشمیر‘ کے عنوان سے انتہائی پرمغز اور معلوماتی مقالہ پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ جوش ملیح آبادی نے کشمیر سے متعلق دو خوبصورت نظمیں کہی تھیں مگر اب وہ ناپید ہو گئی ہیں۔وہ نہ تو ان کے کسی مجموعے میں شامل ہیں اور نہ ہی کسی محقق یانقاد نے ان کا ذکر کیا ہے۔غلام نبی خیال نے شیخ عبداللہ سے جوش کے قریبی تعلق اور وادی میں ان کے دوران قیام سے متعلق چند واقعات بھی سنائے اور بتایا کہ شیخ عبداللہ کی تعریف میں بھی جوش نے ایک نظم لکھی تھی۔ جس کا ایک شعر تھا:
بس اسی شیخ سے محبت ہے
ورنہ ہر شیخ سے خدا کی پناہ
ڈاکٹر نسیم السحر نے ’جوش کی شاعری میں ماضی کی بازیافت‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔خیال رہے کہ انھوں نے ڈاکٹر علی احمدفاطمی کی نگرانی میں حال ہی میں جوش پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے۔
انبالہ کے مہیندر پرتاپ چاند نے جوش کی عشقیہ شاعری پر دلچسپ مقالہ پیش کیا جس کے بعد اس پر کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔انھوں نے کہا
’انقلاب اور شباب یعنی عشق بازی جوش کی شخصیت کے دو اہم میلانات ہیں۔خود جوش نے بھی بارہا اس کا اعتراف کیا ہے۔وہ اپنی خود نوشت’یادوں کی بارات‘میں اپنے اٹھارہ معاشقوں کا خوب مزے لے کر تذکرہ کرتے ہیں۔لیکن یہ کتاب نقادوں کے لیے متنازعہ رہی ہے اور ان کے اس تذکرہ عشق بازی کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ڈائرکٹر شاہد ماہلی نے اپنے مقالے میں جوش کی شاعرانہ عظمت اور ان کے فنی محاسن پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر قمر رئیس نے بھی جوش کی عشقیہ شاعری پر گفتگو کی اور یادوں کی بارات میں ان کے اعتراف کے حوالے سے ان کی گرفت کی۔انھوں نے ان کے عشق کو حقیقی عشق ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ ان کا عشق عیاشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔در اصل انھوں نے عشق کی تپش اور اس کا گداز کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ اسی لیے ان کی عشقیہ شاعری عمومیت کی شکار ہے۔
جوش ملیح آبادی کو علما کے طبقے نے کبھی بھی پسند نہیں کیا۔وہ ان کو ملحد اور کافر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔در اصل ان کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جو اس طبقے کے گلے سے نہیں اتریں۔انہی میں ایک نظم ’فتنہٴ خانقاہ‘ بھی ہے۔یہ نظم یوں شروع ہوتی ہے
اک دن جو بہرِ فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سوئے خانقاہ
زُہاّد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضربِ لا الہ
برپا ضمیرِزہد میں کہرام ہو گیا
ایماں دلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا
اس نظم میں عشوہ طراز، قیامت خیز اور توبہ شکن بنت مہر و ماہ کی جلوہ سامانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہے اور پھر نظم اس بند پر آکر ختم ہوتی ہے
زاہد حدودِ عشق خدا سے نکل گئے
انسان کا جمال جو دیکھا پھسل گئے
ٹھنڈے تھے لاکھ، حسن کی گرمی سے جل گئے
کرنیں پڑیں تو برف کے تودے پگھل گئے
القصہ دین، کفر کا دیوانہ ہو گیا
کعبہ ذرا سی دیر میں بت خانہ ہو گیا
لیکن جوش کو مشکوک نظر سے دیکھنے والے طبقہ علما کو ان کے ان اشعار کو بھی پڑھنا چاہئیے جو انھوں نے اللہ کی شان میں کہے ہیں اور نعت کے علاوہ مرثیے بھی لکھے ہیں۔جوش کے یہ اشعار خاصے مقبول ہوئے
مجھ ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
اللہ کو قہار بتانے والو
اللہ تو رحمت کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کے ایسے اشعار کی روشنی میں ایک حلقہ ان کو ملحد نہیں موحد کہتا ہے۔جوش نے 29 اشعار کی ایک نعت لکھی ہے جو پڑھنے والے پر ایک کیفیت طاری کر دیتی ہے۔اس میں عجیب والہانہ پن موجود ہے۔چند اشعار ملاحظہ کریں
اے کہ ترے جلال سے ہل گئی بزمِ کافری
رعشہٴ خوف بن گیا رقصِ بتانِ آذری
خشک عرب کی ریگ سے لہر اٹھی نیاز کی
قلزمِ نازِ حسن میں اف رے تری شناوری
چشمہ ترے بیان کا غارِ حرا کی خامشی
نغمہ ترے سکوت کا نعرہٴ فتحِ خیبری
تیرے فقیر اور دیں، کوچہٴ کفر میں صدا
تیرے غلام اور کریں اہلِ جفا کی چاکری
تیری پیمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے
بخشا گدائے راہ کو تو نے شکوہِ قیصری
ایک نظم کے چند اشعار اور بطور ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں
نوعِ انساں کو دیا کس فلسفی نے یہ پیام
مردِ غازی کا کفن ہے، خلعتِ عمرِ دوام
نصب کس نے کر دیے مقتل میں حوروں کے خیام
جانتے ہو اس دبیرِ ذہنِ انسانی کا نام
جو انوکھی فکر تھا، جو اک نیا پیغام تھا
اس حکیمِ نکتہ پرور کا محمّد نام تھا
اے آر قدوائی کی یہ بات کافی اہم اور بر ملا ہے کہ جوش ملیح آبادی پر ابھی بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے بارے میں نئی نسل کو بتانا بھی ضروری ہے۔توقع ہے کہ ہریانہ اردو اکیڈمی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
(publish om Website of Voice of America @ http://www.voanews.com/urdu/2009-01-02-voa23.cfm )

No comments:

Post a Comment