Wednesday, June 3, 2009

’برانڈ راہل‘بکتا ہے بازار میں


آج کل ہندوستانی منڈی میں صرف ایک ہی برانڈ بک رہا ہے اور وہ ہے’راہل برانڈ۔‘ کیا سیاست، کیا صحافت، کیا تجارت اور کیا محبت،یا تو راہل گاندھی چرچا میں ہیں یا پھر ان کا کرشمہ۔

نوجوانوں اور تجربہ کاروں پر مشتمل وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی کابینہ اور حکمراں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کا بھی اگر ذکر ہوگا تو راہل گاندھی کے حوالے سے ہی ہوگا۔ راہل نے یو پی میں جو کرشمہ دکھایا ہے اس کے آگے آج کل سارے کرشمے فیل ہیں۔سیاست دانوں میں چرچا ہے کہ راہل نے اتر پردیش میں کانگریس کو زندہ کر دیا۔ عوامی حلقوں میں چرچا ہے کہ اتنی زبردست کامیابی کے باوجود راہل نے منسٹری کیوں ٹھکرا دی۔ من موہن سنگھ کہتے ہیں کہ میں نے راہل کو وزیر بنانے کی پیشکش کی تھی اور سونیا کہتی ہیں کہ میں نے ان کو بہت منایا مگر اس معاملے میں وہ میری بات ہی نہیں مانتے۔ کانگریسی لیڈروں کا خیال ہے کہ چونکہ راہل کو آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اس لیے ان کو کابینہ میں شامل ہو جانا چاہئیے تاکہ وہ اسرار و رموز حکم رانی سے واقف ہو جائیں۔

ادھر اخباری کالموں میں بھی یہ نوجوان چھایا ہوا ہے۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی راہل راگ بجایا جا رہا ہے۔انتخابی نتائج آنے کے بعد کئی چینلوں نے راہل گاندھی اور ورون گاندھی کا موازنہ کیا اور بتایا کہ ورون صرف گفتار کے گاندھی ہیں جب کہ راہل کردار کے گاندھی ہیں۔انتخابی مہم کے دوران ورون گاندھی نے اپنی ایک تقریر میں راہل گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نام کے گاندھی نہیں کام کے گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ وہ صرف خاندانی رشتوں کی بنیاد پر گاندھی کہلانا نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام اور خدمات کی بنیاد پر گاندھی کہلانا پسند کریں گے۔

لیکن راہل کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، وہ اپنی انتخابی مہم میں جی جان سے جٹے رہے اور لفاظی کے بجائے کام کرتے رہے۔انہوں نے کبھی بھی اندارا گاندھی یا راجیو گاندھی کے وارث ہونے پر فخر کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انتہائی انکساری اور خاک ساری کا مظاہرہ کرتے رہے۔

انتخابی مہم سے قبل بھی انہوں نے ایسے کام کیے جو عوام کے دلوں میں بیٹھ گئے۔مزدوروں کی کسی بستی سے گزرتے وقت سر پر مٹی رکھ کر ڈھونا،کسی دلت کے گھر جانا، وہاں کھانا کھانا اور دلت کی چارپائی پر رات گزارنا۔یہ ایسی باتیں ہیں جو مزاج کا حصہ ہوتی ہیں اور مزاج کے مطابق ہی انسان کام کرتا ہے۔حالانکہ یو پی کی وزیر اعلی مایا وتی نے راہل کے دلت پریم کو ایک دکھاوا اور ریاکاری قرار دینے کی کوشش کی اور ایک تقریر میں یہ کہتے ہوئے ان کی اس خاک ساری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ یہ یووراج جب دلت کے گھر کھانا کھا کر یا دلتوں سے مل کر واپس اپنے گھر جاتا ہے تو اس کا شدھی کرن کیا جاتا ہے اور گنگا جل سے اسے پاک کیا جاتا ہے۔لیکن ان کی اس دلیل کو کسی نے بھی لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور الیکشن کے دوران رائے دہندگان نے مایاوتی کے اس الزام کو عملاً مسترد کر دیا۔
انتخابی نتیجہ آنے کے بعد ہر آنکھ اگر کسی کو ڈھونڈ رہی تھی تو وہ راہل گاندھی تھے۔سب سے پہلے من موہن سنگھ نے سونیا گاندھی کے گھر جا کر ان کو جیت کی مبارکباد دی اور راہل کو کابینہ میں لینے کی پیش کش کی۔اس کے بعد راہل نے کانگریس وار روم میں نوجوان ممبران پارلیمنٹ کو چائے پر بلایا۔ اس وقت بھی وہی سب کے منظورِ نظر رہے۔اس دوران منسٹری تشکیل دینے کا عمل جاری رہا اور ہر شخص یہ سوال کرتا رہا کہ راہل گاندھی وزیر بنیں گے یا نہیں۔پہلی حلف برداری میں بھی یہ تجسس برقرار رہا اور اس کے بعد بھی۔ البتہ جب دوسری توسیع ہوئی اور اس میں کئی نوجوان تو لیے گئے لیکن راہل نہیں لیے گئے تب جاکر یہ تحیر دور ہوا۔

اس موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ انہوں نے راہل کو منانے کی بہت کوشش کی لیکن اس معاملے پر وہ ان کی بات نہیں سن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس تنظیم کو زندہ اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں،لہذا وہ وزارت میں شامل نہیں ہوں گے۔کانگریس کے بعض حلقوں سے اس سے پہلے انہیں وزیر اعظم بنانے کا مطالبہ اٹھتا رہا۔ لیکن اس معاملے پر سونیا گاندھی کا فیصلہ اٹل رہا اور انہوں نے الیکشن کے دوران ہی اعلان کر دیا تھا کہ من موہن سنگھ ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ دراصل سونیا گاندھی ایک تجربہ کار اور سنجیدہ سیاست داں بن گئی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ خود عہدے کی لالچی نہیں ہیں، اس لیے اپنے بچوں کو بھی لالچی بنانا نہیں چاہتیں اور تیسری بات یہ کہ وہ جب چاہیں گی یا تو خود وزیر اعظم بن جائیں گیا یا راہل گاندھی کو بنا دیں گی، اس راہ میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔

انہوں نے جس طرح کانگریس کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کانگریس تو ختم ہو گئی تھی،اس کی تدفین کی تیاری چل رہی تھی کہ سونیا گاندھی جیسا مسیحا اس کو مل گیا جس نے اسے ایک نئی زندگی عطا کردی۔وہ جب چاہیں اس احسان کی قیمت حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہی بہت بڑی بات ہے کہ بادشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بنی رہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اس کردار میں ان کو جو عزت اور وقار حاصل ہے وہ وزیر اعظم بننے یا راہل کو وزیر اعظم بنانے میں نہیں ہے۔

شہرت و مقبولیت کے اوج ثریا پر فائز ہونے کے باوجود نہ تو سونیا گاندھی میں کبر و غرور آیا ہے اور نہ ہی راہل کے مزاج میں تکبر پیدا ہوا ہے۔بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح پھل آنے پر شاخ جھک جاتی ہے اور دوسروں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا مشکل نہیں رہ جاتا، کچھ ایسا ہی ان دونوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

آج اگر سب سے زیادہ موضوع گفتگو کوئی ہے تو وہ راہل گاندھی ہیں۔ لیکن یہ نوجوان انتہائی خاک ساری سے لوگوں سے ملتا ہے اور عاجزی کے ساتھ اپنی خوش احلاقی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔حالانکہ گذشتہ الیکشن میں جب راہل اور پرینکا نے انتخابی مہم چلائی تھی تو عوام نے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور انہیں طفل مکتب قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اس بار لوگوں نے انہیں نووارد میدان سیاست نہیں سمجھا، بلکہ ان کی باتوں کو سنا اور ان پر عمل بھی کیا۔بی جے پی کے ترجمان سدھارتھ ناتھ نے ان کو بچہ سمجھنے کی غلطی کی تھی اور کہا تھا کہ جو بچے الیکشن میں کلکاریاں بھر رہے ہیں وہ نتیجہ آنے کے بعد خاموش ہو جائیں گے۔ لیکن انہی کلکاری بھرنے والے بچوں نے بی جے پی اور پوری آر ایس ایس کو چپ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔

اب ذرا راہل کی پرکشش شخصیت کے ایک غزلیہ پہلو کا ذکر ہو جائے۔راہل گاندھی صرف سیاست دانوں یا عوام ہی میں مقبول نہیں ہیں بلکہ بہت سی دوشیزائیں بھی ان پر اپنی جان چھڑکتی ہیں۔ کلاسیکی شاعری میں ’چاہِ ذقن ‘ کی جسے انگریزی میں ’ڈمپل‘ کہتے ہیں، بڑی اہمیت رہی ہے اور شعرا اپنے محبوب کے رخساروں یا ٹھوڑی میں پڑنے والے گڈھے پر اپنی جان دیتے رہے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور آج بھی اسے حسن کی اضافی خاصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔راہل گاندھی بھی اس خاصیت کے مالک ہیں اور یونیورسٹی اور کالج کی بہت سی طالبات ان کے حسن پر اور بالخصوص ’چاہِ ذقن‘ پر فدا ہیں۔شائد ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں راہل نے اس خوبی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

No comments:

Post a Comment