Tuesday, October 6, 2009

لکھنو میں فلمی نغموں کے قدیم گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ

اگر کسی کو قدیم اور تاریخی فلمی نغموں سے دلچسپی ہو اور وہ ان سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو تو اسے لکھنو کی سلطنت منزل کی زیارت کرنی چاہئیے، جہاں بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر اواخر تک کے قدیم فلمی نغموں کے گراموفون ریکارڈوں کا نادر ذخیرہ موجود ہے۔ یہ نادر ذخیرہ رائل فیملی آف اودھ کی کاوشوں کا مرہون منت ہے اور اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے میں کئی نسلوں کی خدمات شامل ہیں۔

نوابی دور میں گرامو فون کا بہت چلن تھا اور ان نغموں سے مہمانوں کی آؤ بھگت بھی کی جاتی تھی۔اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے کا آغاز خان بہادر نواب سید حامد حسین خان نے کیا تھا۔وہ برطانوی حکومت میں لائف مجسٹریٹ اور لکھنو میونسپلٹی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ان کے بعد اس روایت کو لکھنو کے اسپیشل مجسٹریٹ نواب سید مہدی حسین اور پلے وے ہائی اسکول لکھنو کے بانی نواب سید رضا حسن خان نے آگے بڑھایا اور انہوں نے انتہائی جاں فشانی کے ساتھ اس ذخیرے میں چار چاند لگا دیے۔

موجودہ دور میں یہ ذمے داری پروفیسر سید علی حامد اور ایڈوائزری بورڈ رائل فیملی آف اودھ کے وائس چیئرمین سید معصوم رضا ایڈووکیٹ انجام دے رہے ہیں اور اس ذخیرے میں بھرپور اضافہ کر رہے ہیں۔

سید معصوم رضا ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ کم و بیش ایک صدی پر محیط اس کلیکشن میں ریکارڈوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے۔ بیشتر ریکارڈ اپنی اصل صورت میں ہیں اور اردو اور انگریزی میں لکھے اوریجنل کور میں آج بھی موجود ہیں۔یہاں ایسے متعدد ریکارڈ ہیں جن کے صرف ایک سائڈ میں ریکارڈنگ ہے۔سلیٹ اور لاٹ کے بنے ہوئے یہ ریکارڈ 78پی ایم پر بجتے ہیں۔ریکارڈ بجانے والا ہز ماسٹر وائس یا ایچ ایم وی آج بھی پہلے کے سے انداز میں بج رہا ہے۔

سلطنت منزل کے اس ذخیرے میں مجرے، ٹھمری، دادرا، غزلیں، شاستریہ سنگیت، سوگم سنگیت، فلمی گانے اور انگریزی کے گانے بھی شامل ہیں۔یہاں ہز ماسٹر وائس اور دمدم کولکتہ کے علاوہ پرانے ہندوستانی اور غیرملکی ریکارڈ بھی موجود ہیں۔

نواب حامد حسین خاں کے نام سے موسوم حامد روڈ پر واقع طلعت منزل میں ایسے قدیم گلوکاروں کے ریکارڈ بھی موجود ہیں، جن کے نام آج کے دور میں بہت سے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہوں گے۔جیسے کہ ملکہ جان، علی بخش، مس دلاوری، بے بی اندرا، نسیم بانو، مس سروجنی، پیارا صاحب، نسیم اختر، مس کملا، وحیدن بائی، امیر بائی کرناٹکی اور اختری بائی کے ریکارڈ قابل ذکر ہیں، جنھوں نے بعد میں بیگم اختر کے نام سے شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ معروف گلوکاروں میں کے۔ ایل۔ سہگل، شمشاد بیگم، نور جہاں، لتا منگیشکر، طلعت محمود، محمد رفیع اور مکیش قابل ذکر ہیں۔
سید معصوم رضا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ریکارڈوں کے اس کلیکشن کا تحفظ بہت مشکل کام ہے۔سلیٹ اور لاکھ کے بنے ان ریکارڈوں کے ٹوٹنے کا بہت خطرہ رہتا ہے۔البتہ اب پلاسٹک کے ریکارڈ بننے لگے ہیں جس سے ان کے رکھ رکھاؤ اور تحفظ میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ پروفیسر سید حامد علی اور سید معصوم رضا کا کہنا ہے کہ ان ریکارڈوں کی چمک دمک کو بچانا ایک دشوار ترین مرحلہ ہے تاہم وہ ان کے تحفظ کی پوری کوشش کرتے ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے تو پرانے گانوں کو سن کر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment