Friday, July 17, 2009

آج بھی جاری ہے بابری مسجد کی داستانِ مظلومی

کیا کسی عمارت کے ساتھ ایسا ظلم اور دھوکہ پہلے بھی ہوا ہوگا جیسا کہ بابری مسجد کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے؟ہرگز نہیں۔بابری مسجد کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے۔ وہ کل بھی انصاف کے لئے ترس رہی تھی اور آج بھی ترس رہی ہے۔حالانکہ وہ کل بھی بے قصور تھی اور آج بھی بے قصور ہے۔ایک خطرناک سازش اور تہذیبی غنڈہ گردی کے ذریعے اس کا وجود تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی زندہ ہے اور دوستوں اور دشمنوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے۔دوستوں کی خواہش ہے کہ اسے اگر پھر سے وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں تو کم از کم اس کے دشمنوں کو سزا ضرور دلوادیں۔ ان لوگوں کو غبرت ناک سزائیں ضرور ملنی چاہئیں جنھوں نے ظلم و ناانصافی کے ہتھیاروں سے بابری مسجد کو قتل کیا اور اس کے وجود کو تار تار کر دیا۔وہ اس میں تو کامیاب ہو گئے لیکن کیا وہ اس کی تاریخ مٹانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عمارت آج اگر مسلمانوں کے دلوں میں ایک تلخ یاد کی شکل میں باقی ہے تو اس کا انہدام آسیب بن کر دشمنوں کا پیچھا کر رہا ہے۔بظاہر قاتلانِ بابری مسجد آزاد ہیں اور ان کو کوئی سزا ابھی تک نہیں مل سکی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنونیوں کے دستے کا ایک ایک فرد اس کے نشانے پر ہے۔کسی کو چین وسکون نہیں ہے۔ایک ایک کا نام گنوایا جائے تو یہ داستان بڑی طویل ہو جائے گی۔ سچائی یہ ہے کہ ان میں سے کئی لوگ تو اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے حلقہ بگوش اسلام بھی ہو چکے ہیں
بابری مسجد کے ساتھ ظلم و زیادتی کی داستانیں کیوں رقم کی جا رہی ہیں؟ کیا اس لئے کہ ایک بادشاہ نے بت کدوں کی نگری میں صدائے لا الہ الا اللہ بلند کرنے کے لئے اور وہاں کے مٹھی بھر مسلمانوں کو اللہ کی عبادت کرنے کے لئے ایک عدد مسجد کی تعمیر کروا دی تھی۔ کیا یہی بابری مسجد کا سب سے بڑا قصور ہے کہ اس کے منبر و محراب سے اللہ کی وحدانیت کا ڈنکہ بجایا جا رہا تھا؟شائد ہاں۔صرف اتنا ہی نہیں کہ بابری مسجد کے ساتھ ظلم ہوا بلکہ اس شہر کے مسلمانوں کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بابری مسجد کو اپنی جبینوں سے آباد کرتے تھے اور اس کے ذروں کو اپنے سجدوں سے روشن کرتے تھے
بات چل رہی تھی بابری مسجد کے ساتھ ہونے والے دھوکے اور ظلم و زیادتی کی۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسے انصاف دلانے کا فریضہ جن کو ادا کرنا تھا وہ بھی کوتاہ دست ثابت ہوئے ہیں۔حالانکہ چھ دسمبر 1992کو جو کچھ ہوا تھا اسے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا نے دیکھا تھا اور اس جرم عظیم کی داستان ٹی وی چینلوں کی ریکارڈنگ اور اخبارات کی اشاعتوں کی شکل میں موجود اور محفوظ ہے اور یہ ایسی دستاویزات ہیں جن کو نہ تو گم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جن کی سچائی پر کوئی پردہ ڈالاجا سکتا ہے۔پوری دنیا نے دیکھا کہ بابری مسجد کے انہدام میں کن لوگوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ آج کسی بھی شخص سے پوچھا جائے تو وہ بلا جھجک ان کے نام بتا دے گا۔ لیکن اس کے باوجود اس بھیانک واقعہ کی جانچ کے لئے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔کمیشنوں کے قیام سے کیا فائدہ ہوتا ہے،یہ ہمیں نہیں معلوم۔ سوائے اس کے کہ کچھ ایسے لوگوں کے نام ایک بار پھر سامنے آجاتے ہیں جن کو پہلے سے ہی لوگ مجرم کے طور پر جانتے رہے ہیں۔بس اس کے علاوہ شائد اور کچھ نہیں۔بہر حال بابری مسجد کے قصورواروں کا پتہ لگانے کے لئے جس کمیشن کا قیام عمل میں آیا اس نے اپنے کام کو مکمل کرنے میں سترہ سال لگا دئے۔ایک ایسی حقیقت کو، جو آفتاب نیم روز کی مانند واضح اور بے داغ تھی،تحریری شکل میں لانے میں اتنا طویل عرصہ لگ جائے گا، اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔اسے صرف تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا جو اس کام کے لئے کافی تھا۔ لیکن اس نے اتنے دن کیوں لگا دئے، اس کا جواب تو جسٹس ایم ایس لبراہن ہی دے سکتے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ یہ بھی بابری مسجد کے ساتھ ایک دھوکہ ہے اور اس پر توڑے جانے والے مظالم میں ایک اور ظلم کا اضافہ ہے۔لبراہن کمیشن رپورٹ تو وزیر اعظم کو سونپ دی گئی ہے۔ لیکن اس کی امید کم ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اگر پیش بھی کر دیا گیا تو اس کی روشنی میں کوئی کارروائی ہوگی،اس کا امکان بھی کم ہے۔اگر اس میں ان لوگوں کو قصوروار بتایا گیا ہوگا جو واقعتاً قصوروار ہیں، تو کیا وہ اسے تسلیم کر لیں گے اور کیا حکومت میں اتنی جرات ہو گی کہ وہ ان کو سلاخوں کے پیچھے ڈال سکے اور اگر اس نے ایسا کیا تو کیا اس کی آڑ میں ملک کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جھونکنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اگر فسطائی قوتوں نے کسی بھی کارروائی کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کیا تو کیا حکومت ان کو نکیل ڈالنے کی جرات کر سکے گی؟ یہ اور ایسے جانے کتنے سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔بہر حال ایسا لگتا ہے کہ بابری مسجد کے ساتھ دھوکے کا سلسلہ ابھی جاری ہی رہے گا۔گرچہ رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر نہیں آئے ہیں ،تاہم سنگھ پریوار سے وابستہ لوگوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور اسی خوف کو کم یا ختم کرنے کے مقصد سے انہوں نے خطرناک بیانات دینے شروع کر دئے ہیں۔کوئی پھانسی کے تختے پر چڑھنے کافخریہ اعلان کر رہا ہے تو کوئی رپورٹ میں تاخیر پر سوال اٹھا کر اس کو غیر اہم بنانے کو کوشش کر رہا ہے، تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے ذمے دار ہم نہیں اس وقت کی حکومت تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کی مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں اس کی ذمے دار ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ بے قصور ہیں جو نام نہاد کارسیوکوں کو مشتعل کر رہے تھے اور ’ایک دھکہ اور دو۔بابری مسجد توڑ دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور مسجد کے انہدام پر ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوشیوں کا اظہار کر رہے تھے۔تاخیر سے ہی سہی، لیکن رپورٹ تیار ہونے کے بعد ایک بار پھر بابری مسجد کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے اور اس سے متعلق دوسرے واقعات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔بابری مسجد کے ساتھ دوسرا بڑا فراڈ اوردھوکہ عدالتوں میں چل رہی کارروائیوں میں تاخیر ہے۔لکھنو¿ اور رائے بریلی کی عدالتوں میں آڈوانی اینڈ کمپنی کے خلاف جو معاملات معرض التوا میں ہیں وہ بھی نا انصافی کی زندہ مثال ہیں۔اسی طرح بابری مسجد کی زمین کے مالکانہ حقوق کا معاملہ بھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔مختلف قسم کے حیلوں اور بہانوں سے عدالتی کارروائیوں میں تاخیر کی جا رہی ہے تاکہ یہ معاملہ وقت کی گرد میں دب کر اپنا وجود اور اپنی اہمیت کھو دے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے یا انصاف سے محروم کرنا ہے۔بابری مسجد کو جس طرح انصاف سے محروم کیا جا رہا ہے یا جس طرح اسے عدالتوں اور کمیشنوں کی بھول بھلیاں میں بھٹکا دیا گیا ہے، اس کی مثال شائد اور کہیں نہ ملے اور یہ بھی نا انصافی ہی ہے۔اب ایک تازہ دھوکہ یا تازہ ظلم اس شکل میں سامنے آیا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق دستاویزات ہی غائب ہو گئی ہیں یا انہیں غائب کر دیا گیا ہے۔یہ بہت اہم دستاویزات تھیں، جن میں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا وہ پیغام بھی تھا جو اس وقت کے وزیر اعلی گووند ولبھ پنت کے نام تھا اور جس میں بابری مسجد سے فوراً مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔اب جو خبریں آرہی ہیں ان سے یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ جو شخص ان دستاویزات کو لے کر لکھنو¿ سے دہلی آرہا تھا اسے دہلی کے تلک برج ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے دھکہ دے دیا گیا تھااور اس طرح اس کی موت ہو گئی۔ اس کے پاس سے کاغذات کہاں گئے کسی کو نہیں معلوم۔ یا تو دھکہ دینے والے نے انہیں اڑا لیا یا پھر اسپتال میں بھرتی کے دوران غائب کر دئے گئے۔اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ بابری مسجد کے حق میں جو بھی تاریخی اور دستاویزی ثبوط ہوں ان کو ختم کر دیا جائے۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ بابری مسجد کے حق میں تاریخی دستاویزات غائب کرکے اس کو دستاویزی انداز میں مندر ثابت کر دیا جائے۔نہیں بالکل نہیں۔ سورج کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کسی کی گواہی اور شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنی گواہی اور اپنی شہادت دیتا ہے۔ وہ خود ہی گواہ اور خود ہی شاہد ہے۔اسی طرح بابری مسجد کسی کی گواہی کی محتاج نہیں ہے، کسی کی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔عدالتوں اور کمیشنوں کے چکرویوہ میں اسے پھنسا کر بھلے ہی رکھا جائے لیکن تاریخ اس کی سچائی سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ گرچہ اس کا وجود مٹا دیا گیا ہے لیکن وہ ایک ایک فرد کے ذہن میں محفوظ اور زندہ ہے۔تاریخ جب بنتی ہے تومورخ کی نگاہ صرف بصری حقائق پر نہیں ہوتی بلکہ وہ ان سچائیوں کو بھی پرھتا اور پرکھتا ہے جو سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی رہتی ہیں اور جن کو پڑھنے کے لئے چشم بصارت کی نہیں بلکہ چشم بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اگر مورخ کے پاس چشم بصیرت نہ ہو تو وہ مورخ نہیں ہوتا محض ایک داستان گو ہوتا ہے۔بابری مسجد کی سچائی کو نہ کوئی مورخ نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی داستان گو۔بابری مسجد پر ظلم ڈھانے والوں میں صرف اغیار ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے اپنوں نے بھی کم ظلم نہیں توڑا اور اس کے ساتھ کم دھوکہ نہیں کیا ہے۔بابری مسجد تحریک کے کندھوں پر سواری کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔لیکن ان کی چالاکی اور عیاری سب بابری مسجد کے ملبے میں دب کر ختم ہو گئی۔ مسجد نے ان لوگوں سے انتقام لے لیا ہے اور ان کی سیاست ملبے میں دفن ہو گئی ہے۔اغیار کی سیاست بھی تباہی و بربادی کی دہلیز پر جا پہنچی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی ان کو عدالت سے سزائیں نہیں ملی ہیں لیکن وقت ان سے انتقام لے رہا ہے اور ایک دن وہ بھی تاریخ کے ملبے میں دب کر اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔
Published in Rashtriya sahara Urdu

No comments:

Post a Comment